پوری دنیا میں کورونا کے مدمقابل حکومتیں اور طبی ماہرین ہیں، اور ابھی تک چین کے سوا کورونا کا پلڑا بھاری ہے، پاکستان میں مقابلہ کورونا اور بھوک کے مابین ہے اور حکومت کو ریفری کا کردار ادا کرنے کا شوق۔ بلا شبہ پاکستان میں غربت و افلاس بے حد و حساب ہے، طبی سہولتیں ناقابل رشک اور ڈسپلن نامی مخلوق ناپید مگر ڈسپلن اور طبی سہولتوں کے فقدان اور غربت و افلاس کے عفریت سے گھبرا کر کورونا کے آگے ہتھیار ڈال دینا تقاضائے دانش نہیں۔ مارچ کے چوتھے ہفتے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کی حکومتوں نے لاک ڈائون کا اعلان کیا تو عام خیال یہ تھا کہ دو ہفتوں کے دوران پولیس عوام کو گھروں میں رہنے پر مجبور کرے گی، انتظامیہ اشیائے خورو نوش اور حفاظتی سازوسامان کی ارزاں نرخوں پر فراہمی کو یقینی بنائے گی اور حکومت بے روزگار ہونے والوں کی دال روٹی کے علاوہ ممکنہ مریضوں کی شناخت و نگرانی، بہتر نگہداشت اور طبی سہولتوں میں اضافے پر توجہ دے گی، ابتدائی دو ایّام پولیس نے گھروں سے بلا وجہ نکلنے والوں کی خوب خبر لی، کہیں آوارہ گردوں کو ڈنڈ بیٹھکیں نکلوائیں، کہیں مرغا بنایا اور کچھ سے نیک چلنی کے مچلکے حاصل کئے، کہیں کہیں سوار اور سواری دونوں کو تھانے، حوالات میں بند کرنے کی نوبت بھی آئی مگر جیسا کہ دستور ہے ہر سطح پر رحم کا جذبہ غالب آیا اور جوں جوں کورونا کے مریضوں اور متوفیوں کی تعداد بڑھتی گئی، پابندیاں کم ہوتی چلی گئیں، تین ہفتے بعد حالت یہ ہے کہ بعض سرکاری دفاتر اور کاروبار بند ہیں اور تجارتی مراکز کی بندش کی وجہ سے باہر نکلنے کا کوئی فائدہ نہیں مگر سڑکیں اور پارک آباد ہیں اور لوگ کورونا کو چڑانے کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت گھروں سے باہر گزارنے لگے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس دوران کورونا کے مریضوں کے لئے فیلڈ ہسپتال بنائے، ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی سہولتوں میں اضافہ کیا، ٹیسٹنگ کٹس درآمد ہوئیں، متاثرہ کاروباری و تجارتی شعبوں کو مراعات سے نوازا اور غریب خاندانوں کو بارہ ہزار روپے فی خاندان امداد فراہم کی اور یہ کریڈٹ لیا کہ پیشگی اقدامات کے سبب کورونا پاکستانی معاشرے کو اٹلی، سپین، امریکہ، برطانیہ، فرانس کے انجام سے دوچار نہیں کر سکا؟ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی وفاقی حکومت کی رپورٹ کا موازنہ آج کے حالات سے کیا جائے تو یہ بات درست نظر آتی ہے کہ پندرہ اپریل تک مریضوں، اموات وغیرہ کا تناسب اندازوں سے کہیں کم ہے اور غالباً اسی بنا پر حکومت کاروباری سرگرمیوں اور عائد پابندیوں میں نرمی پر مائل ہے۔ دیگر کئی شعبوں کی طرح تعمیراتی شعبے کو لاک ڈائون سے چھوٹ مل گئی ہے اور وفاقی حکومت نے اس شعبے کے لئے مراعاتی پیکیج کا اعلان کر دیا ہے جس کا سبب یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی قوم کے لئے کورونا سے بڑا خطرہ بھوک ہے اور حکومت عوام کو بھوک سے بچانے کے لئے پابندیوں کو نرم، روزگار، کاروبار کے مواقع بڑھا رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ حکومت اور اس کے گوہر نایاب مشیروں کا تجزیہ درست ہو، کورونا واقعی پاکستان کے لئے اتنا بڑا خطرہ ثابت نہ ہو جتنا عالمی ادارہ صحت اور دیگر ادارے، طبی ماہرین کو نظر آتا ہے۔ شرح اموات پیر کے روز کم ہوئی مگر منگل کے روز اچانک دوگنی ہو گئی۔ خدا کرے کہ یہی زیادہ سے زیادہ رہے اور پھر کم ہوتے ہوتے ختم ہو جائے لیکن حالات و واقعات اور حکومت کے بعض اقدامات مختلف صورت حال کی چغلی کھا رہے ہیں۔ اگر کورونا پیک ٹائم سے گزر کر واقعی روبہ زوال ہے تو اسلام آباد، لاہور، کراچی اور دیگر مقامات پر کورونا قرنطینہ مراکز اور فیلڈ ہسپتالوں میں بستروں اور سہولتوں میں اضافے کا سبب کیا ہے؟ ڈاکٹروں اور نرسوں کی تعداد اور تربیت بڑھانے کی وجہ؟ اور نو دس لاکھ کی ٹائیگر فورس بھرتی کرنے کا فائدہ؟ طبی ماہرین تسلسل سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان میں ابھی کورونا پیک ٹائم زون میں داخل نہیں ہوا، اندازے سے کئی گنا کم ٹیسٹنگ کے سبب مصدقہ مریضوں کی حقیقی تعداد سامنے نہیں آئی اور شرح اموات کم نظر آنے کی وجہ بھی یہی ہے، یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ تعمیراتی شعبے سمیت حکومت کئی تجارتی و کاروباری شعبوں کو کام کرنے کی اجازت دے رہی ہے مگر پبلک ٹرانسپورٹ بند ہے جس کی وجہ سے ان شعبوں کے کارکن، مزدور وغیرہ کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور جونہی آمدورفت میں اضافہ ہوا، احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کے سبب کورونا کے حملے شدت اختیار کر سکتے ہیں اور یہی وہ غلطی ہو گی، جس کا خمیازہ امریکہ، برطانیہ اور کئی دیگر ممالک بھگت رہے ہیں۔ لاہور میں بیڈن روڈ مارکیٹ تعمیراتی شعبے سے وابستہ ہے جبکہ ملحقہ ہال روڈ الیکٹرانکس مارکیٹ ہے، تازہ حکومتی فیصلے کے مطابق بیڈن روڈ کھلے گی اور ہال روڈ بند رہے گی، انارکلی کی آدھی دکانیں پابندی سے مستثنیٰ ہیں، باقی آدھی زد میں، اسلام آبادمیں حجام کی دکانیں اور بیوٹی پارلر کھل گئے، پنجاب میں بدستور بند رہیں گے۔ اسی نرم پالیسی کا فائدہ اٹھا کر علماء کرام نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ مساجدمیں باجماعت نماز، نماز جمعہ اور تراویح کا اہتمام کریں گے اور حکومتی پابندیوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ حکومت نے دیہی اور شہری میں تفریق کئے بغیر ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں میں رقم تقسیم کی، یہ نہیں سوچا کہ لاک ڈائون سے دیہات بہت کم متاثر ہوئے اور شہروں میں بھی مخیر حضرات کے علاوہ فلاحی تنظیموں نے غریبوں کی بھر پور امداد کی جبکہ چھوٹا کاروباری اور کم آمدنی والا ملازمت پیشہ سفید پوش پس گیا، جس کا احساس تازہ نرم پالیسی میں بھی نہیں کیا گیا۔
بھوک اور کورونا کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کر ہم نے اپنی تگ و تاز کا مرکز بھوک کو بنا لیا ہے مگر کورونا سے اسی طرح کی چشم پوشی برت رہے ہیں جیسی 15جنوری سے پندرہ مارچ تک برتی گئی، زائرین کو تفتان میں روکا گیا نہ تبلیغی مبلغین کو بروقت قرنطینہ مراکز میں پہنچایا گیا نتیجہ تین ہفتے کے تباہ کن لاک ڈائون، مریضوں کی تعداد میں اضافے اور ملکی معیشت کی تباہی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ اگلے پندرہ دن میں نرم پالیسی کے باعث سماجی فاصلے اور احتیاطی تدابیر سے بے اعتنائی برت کر یہ زود فراموش، غفلت، شعار اور تقدیر پرست قوم کورونا کو گلے نہ لگا بیٹھے۔ حکومتی مشیر بھر پور دلائل سے قوم کو قائل کر رہے ہیں کہ بھوک ان کا اصل مسئلہ ہے جسے مٹانے کے لئے ریاست سارے وسائل صرف کر رہی ہے، کورونا باقی دنیا کی طرح نہیں پھیلا، زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، خدا کرے کہ ایسا ہی ہو لیکن اگر یہ موذی مرض بے قابو ہو گیا تو؟ احتیاطی تدابیر کو عادت اور دستور کے مطابق بالائے طاق رکھ کر یہ ہجوم سڑکوں، گلیوں، پارکوں، تجارتی و کاروباری مراکز پر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے، گلے ملتے، کھانستے، چھینکتے جمع ہونے لگا تو اندیشہ ہے گھروں میں چھپ کربیٹھنے والوں کو بھی کورونا کا نرم چارہ نہ بنا دے ع
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی