ریاست کو قدرت نے سنہری موقع عطا کیا ہے، کورونا نے دل موم کر دیے، ذہن بدل دیے اور تبدیلی کے مدمقابل کھڑے ہونے کا جذبہ کمزور پڑ گیا، ان لوگوں کے سوا جن کے دل پتھر ہیں، دماغ سن اور آنکھوں، کانوں پر پردے پڑ چکے، ہر کوئی موجودہ حالات سے چھٹکارا چاہتا ہے اور اس کی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار، وہ لوگ بھی گھروں میں بیٹھ کر بیوی بچوں سے گپ شپ کرتے ہیں جو شام کی پرسکون ساعتیں اہلخانہ کے ساتھ گزارنا گناہ سمجھتے تھے، ایسے ایسے لوگوں کو کورونا کی موت سے پناہ مانگتے دیکھا ہے جو زندگی کے صرف ایک پہلو سے واقف تھے، ہنسی مذاق، ہلّہ گلہ اور بابر بہ عیش کہ عالم دوبارہ نیست۔ لوگ دل کھول کر واقف و ناواقف غریبوں، ناداروں اور ضرورت مندوں کی مدد کر رہے ہیں اور ایک دوسرے سے ضرورت مندوں کی معلومات لیتے پھرتے ہیں۔
گزشتہ روز وزیر اعظم کے کورونا ریلیف فنڈ کے لئے عطیات جمع کرنے کی غرض سے 92 نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں اندرون و بیرون ملک پاکستانیوں کا جذبہ خیر ابھر کر سامنے آیا۔ دو اڑھائی گھنٹے کی ٹرانسمیشن میں بائیس کروڑ روپے کی خطیر رقم کا اعلان ہوا اور مصروفیات کے باعث وزیر اعظم کے چلے جانے کے بعد بھی کروڑوں روپے کے عطیات کا اعلان کرنے والوں نے باور کرایا کہ وہ وزیر اعظم کی خوشنودی اور دکھاوے کے لئے نہیں کورونا اور لاک ڈائون کے متاثرین کی مدد کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ماہرین کے مطابق کورونا کا ابھی پیک ٹائم شروع نہیں ہوا، اس تاخیر کا فائدہ اٹھا کر حکومت تین محاذوں پر سرگرم عمل ہے اور تاحال چھوٹی موٹی کوتاہیوں، کمزوریوں کے باوجود کامیاب نظر آتی ہے۔ طبی سہولتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے، صرف دو تین ہفتوں میں جس قدر ٹیسٹنگ کٹس، حفاظتی کٹس، وینٹی لیٹرز منگوائے اور ہسپتالوں، لیبارٹریز کو فراہم کئے گئے یہ ریکارڈ ہے۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں فیلڈ ہسپتالوں، لیبارٹریز اور قرنطینہ سینٹرز کا قیام بذات خود احسن اقدام ہے، ایک کروڑ سے زائد خاندانوں کو بارہ ہزار روپے کی امداد اور زکوٰۃ کے مستحقین کی پیشگی اعانت سے بے روزگار ہونے والے نچلے طبقے کے افراد کو خوراک کا تحفظ فراہم کیا گیا اور ان شعبوں میں جہاں کاروباری اور پیداواری سرگرمیاں جاری رکھی جا سکتی ہیں ان کے لئے ایس او پیز تیارکئے گئے تاکہ اجازت ملنے پر کاروباری، تجارتی اور پیداواری سرگرمیاں حفاظتی تدابیر کے ساتھ شروع کی جا سکیں۔
غریب اور زکوٰۃ، صدقات کا مستحق طبقہ حکومت اور فلاحی اداروں کی ترجیحات میں سرفہرست ہے اور اُسے ہر طرف سے بھرپور امداد مل رہی ہے۔ بلا شبہ ہماری قومی روائت کے مطابق حکومت اورعوام کے جذبہ خیر کا فائدہ بعض نوسر باز، پیشہ ور بھکاری اور لالچی عناصر بھی اٹھا رہے ہیں، کہیں کہیں سے راشن بیچنے اور احساس پروگرام کے تحت ملنے والی رقم میں کٹوتی کی شکایات سامنے آئی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی صورت حال حوصلہ افزا ہے، ایک طبقہ مگر ابھی تک نظر انداز ہو رہا ہے جس کی طرف ٹیلی تھون کے دوران میں نے وزیر اعظم عمران خان کی توجہ مبذول کرائی، یہ وہ سفید پوش، عزت دار اور محنت کش لوگ ہیں جو اپنے آپ کو زکوٰۃ و صدقات کا مستحق سمجھتے ہیں نہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے عادی، گھروں میں ٹیوشن پڑھا کر، کسی وکیل کا بستہ اٹھا کر، کچہری میں اسٹامپ پیپر بیچ کررزق حلال کمانے والے پڑھے لکھے لوگ، ایزی پیسہ اور موبائل فون کی اسیسریز بیچ کر اپنے اہل خانہ کے لئے نان شبینہ کا اہتمام کرنے والا محنتی طبقہ، اس وقت سخت مشکل میں ہے، احساس پروگرام سے مستفید ہونے کو وہ تیار ہے نہ حکومتی قواعد و ضوابط میں گنجائش، کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اس میں ہمت اور نہ قرض میسر۔ آج کل اپنے ہی قبیلے اور طبقے سے اُمید نہ ہونے کے برابر، یوں گھٹ گھٹ کر مرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ مکان کا کرایہ، بچوں کی فیس، بجلی، گیس اور پانی کے بل ادا کرنے کی ان میں سکت ہے نہ معیار زندگی برقرار رکھنے کی اہلیت۔ حکومت اور فلاحی تنظیمیں ایسے ضرورت مندوں کی عزت نفس ملحوظ رکھتے ہوئے مدد کو پہنچیں کہ یہ سب سے زیادہ مستحق ہیں۔
حکومت چاہے تو لاک ڈائون کے تجربات کا فائدہ اٹھا کر معاشرے کو ایک بار پھر نظم و ضبط کی پابند دیگر اقوام کے نقش قدم پر چلانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ نمود و نمائش اور فضول خرچی کے کلچر کی حوصلہ شکنی اور طہارت و صفائی کے اسلامی کلچر کا فروغ اگر ترجیحات میں شامل کر لیا جائے تو بہت سی قباحتوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ نمودو و نمائش اور فضول خرچی کی مکروہ عادت ہے جو انسان کو کرپشن کی طرف مائل کرتی ہے، شادی بیاہ میں سادگی، کاروباری مراکز کی شام چھ سات بجے بندش اور کھانے پینے کی عادات و اوقات میں تبدیلی۔ شادی بیاہ میں ون ڈش کی پابندی سے غریب اور متوسط طبقے کو سہولت ملی، اب اگر حکومت مہمانوں کی تعداد مقرر کر دے جو سو ڈیڑھ سو سے زیادہ نہ ہو تو غریب ماں باپ کی دعائیں اس کے شامل حال ہوں گی۔ کاروباری مراکز کی جلد بندش سے بجلی کی بچت ہو گی، جرائم محدود اور بے آرامی و بسیار خوری سے نجات، آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ لوہا گرم ہے عمران خان تبدیلی کے علمبردار ہیں یہ سماجی تبدیلیاں معیشت کے لئے بھی مفید ہیں۔ تجربہ کرنے میں حرج نہیں۔