Maali Da Kam Pani Dena
Irshad Ahmad Arif83
سو دن کی تکمیل پر حکومت شاداں ہے اور اپوزیشن سیخ پا۔ کرتار پور کاریڈور کا افتتاح کر کے عمران خان نے عمومی فضا تبدیل کر دی ہے۔ پاکستان کی عمدہ سفارت کاری کا اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں اور مخالفانہ بھارتی ردعمل نے عوامی سطح پر حکومت کے لئے ہمدردانہ جذبات کو جنم دیا۔ مسلم لیگ کے بعض لیڈروں اور ان کے بہی خواہوں نے اگرچہ بھارتی یاتریوں کی آمد اور عمران خان و آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ سے نوجوت سنگھ سدھو کے "جن جپھے" کا موازنہ نریندر مودی کی جاتی امرا یاترا اور میاں نواز شریف کے دورہ نئی دہلی سے کر کے طعنہ زنی کی مگر یہ "تیلی رے تیلی تیرے سر پر کولہو" والی بات ہے جو جچی نہیں۔ عمران خان نے اپنی تقریب حلف برداری میں نریندر مودی کو بلایا نہ بھارتی حکومت کے کسی پاکستان مخالف اقدام یا بیان پر خاموش رہے، کشمیریوں پر مظالم کی وہ بار بار مذمت کر چکے اور مسئلہ کشمیر کو وہ کرتار پور کاریڈور کے افتتاح کے موقع پر بھی نہیں بھولے۔ جنرل ضیاء الحق نے بھارت میں شترو گھن سہنا جیسا وکیل پیدا کیا تھا اور عمران خان نے چھ بار انتخاب جیتنے والے نوجوت سنگھ سدھو کو ایک لحاظ سے" سفیر خیر سگالی" مقرر کیا ہے۔ یہ شترو سے بڑا "فنکار"ہےکرتار پور بارڈر کھلنے سے سکھ برادری میں تشکر اور طمانیت کے جو جذبات پیدا ہوئے وہ ہندو قیادت اور سکھ عوام کے مابین فاصلے بڑھا سکتے ہیں اور 1947ء میں اکالی دل کی قیادت نے پہاڑ جیسی غلطیوں سے اپنا اور مسلمانوں کا جو نقصان کیا اس کا احساس جو، اب احساس جرم میں تبدیل ہو چکا، خالصتان تحریک میں شدت پیدا کر سکتا ہے، جسے 1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ٹھنڈاکیا۔ محترمہ نے پارلیمنٹ میں یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے مشرقی پنجاب میں راجیو گاندھی کی مدد کی مگر بھارت نے کراچی میں آگ بھڑکا دی۔ عظیم قربانیوں، طویل جدوجہد اور بھر پور سیاسی و انتظامی ایکشن کے بعد کراچی امن کے راستے پر گامزن ہے اور کشمیر کے علاوہ مشرقی پنجاب میں بھی بھارتی مشکلات بڑھنے لگی ہیں۔ اگر عمران خان کی حکومت نریندر مودی یا ان کے جانشینوں کی چانکیائی سفارت و سیاست کاری جو دراصل فریب کاری سے عبارت ہے کے جال میں نہ پھنسی تو بی جے پی کی طرف سے بھڑکائی گئی نفرت، تنگ نظری اور جنگی جنون کی آگ میں سیکولر بھارت کا بھسم ہونا ناگزیر ہے۔ 1930ء کے عشرے میں مسلمانوں کے خلاف متحدہ قومیت کے حامیوں نے ایسی ہی فضا پیدا کی اور مسلم لیگ کو قرار داد پاکستان منظور کرنے پر مجبور کیا۔ یہی تنگ نظری اور جنگی جنون اب تمام اقلیتوں مسلمانوں، سکھوں مسیحیوں کے علاوہ اردگرد کے ہمسایوں کو Now or naverکی طرف راغب کر رہا ہے۔ ضرورت صرف انہیں ایک طاقتور پشت پناہ کی ہے جو سیاسی اور سفارتی محاذ پر ان کی دستگیری کرے۔ موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر خوشگوار تعلقات کی خواہش مند تو ہے مگر اس کی سیاسی، معاشی اور فوجی بالادستی قبول کرنے پر ہرگز آمادہ نہیں، افغانستان میں اس کی ریشہ دوانیوں سے واقف ہے اور بلوچستان میں شرارتوں کا جواب دینے کی اہل۔ ابھی تک عمران خان کلبھوشن جادیو کے ذکر سے گریزاں ہیں مگر تابکے؟ ٹرمپ کو ترکی بہ ترکی جواب دینے والا وزیر اعظم، نریندر مودی اور سشما سوراج کی لاف زنی پر کب تک خاموش رہے گا۔؟ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت معلوم نہیں کس کو بے وقوف بنانے کے لئے یہ دعویٰ کررہی ہے کہ کرتار پور کاریڈور کھولنے کا منصوبہ اس نے بنایا، بنایا تو مکمل کیوں نہ کیا اور بھارت کو آمادہ کیوں نہ کر سکے؟ ۔ اس کے حق میں بھارتی رائے عامہ بالخصوص سکھ برادری کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں ناکام کیوں رہے۔ پانچ پانچ سال دونوں کو ملے، پیش رفت ٹکے کی نہ ہوئی نئی اور ناتجربہ کار حکومت نے تین ماہ میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور دنیا بھر سے داد سمیٹی، صرف داد نہیں سمیٹی سو دن مکمل ہونے پر صرف اسی ایک اقدام سے اپوزیشن کو بیک فٹ پر لاکھڑا کیا۔ خورشید شاہ، بلاول بھٹو اور مریم اورنگ زیب کی تنقید کو لوگ کھسیانی بلی کھمبا نوچے قرار دے رہے، سشما سوراج کی برہمی سے عمران خان کی کامیابی کا نکتہ تلاش کر رہے ہیں۔ گزشتہ دس سال میں بھارت کو عالمی سطح پر کامیابی اس لئے ملی کہ ہمارے حکمرانوں نے امریکی آموختہ دھراتے ہوئے ہندوستان کی اقتصادی و معاشی ترقی، دفاعی برتری اور دہشت گردی کے حوالے سے جارحانہ سفارت کاری کے گن گانے شروع کر دیے اور خود کو چھوٹا بھائی سمجھنے کی غلطی کی، جبکہ سیانے چھوٹے بھائی کے بارے میں یہ کہہ گئے ہیں کہ سگ باش برادر خورد مباش۔ احساس کمتری کا شکار سیاستدان اور حکمران خود ہی اگر بیس کروڑ آبادی کی نیو کلیئر ریاست کے عوام کو بھارت کی بالادستی پر آمادہ کرنے لگیں اور کشمیر کو چھوڑ کر صرف تجارت پر زور دیں تو نریندر مودی پھولے کیوں نہ سمائیں اور خطے میں بدامنی کا ذمہ دار برادر خورد کو قرار دینے سے انہیں کون روکے۔ اب مگر شاید ایسا نہ ہو کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ مختلف ہے اور وہ بھارت، امریکہ کی ڈکٹیشن قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ سی پیک کو رول بیک کرانے کے لئے امریکی اور بھارتی سازش ناکام ہوئی۔ حکومت میں موجود امریکی لابی آئی ایم ایف کی شرائط پر قرضہ نہ لے سکی اور چین سے غلط فہمیاں دور ہوئیں۔ دہشت گردی کے واقعات بڑھے، مگر فرقہ وارانہ اور نسلی و لسانی تعصبات بھڑکا کر ملک میں بدامنی پیدا کرنے کا منصوبہ بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکا۔ اگر معاشی محاذ پر حکومت عوام کو ریلیف دینے اور صنعتی و تجارتی شعبے کا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب رہی تو 2019ء سے قومی تاریخ نئی کروٹ لے گی۔ کرپشن کے خلاف جس مہم کو ناقدین منفی انداز میں پیش کر رہے ہیں اور احتساب کے عمل کو نامکمل چھوڑ کر ساری توجہ معیشت پر دینے کا بھاشن سنا رہے ہیں وہ معیشت کی بحالی اور قانون کی حکمرانی کا نقطہ آغاز ثابت ہو گی۔ احتساب اور قانون کی حکمرانی کا عمل بار بار اس خوف سے رکا کہ معیشت متاثر ہو گی اور مجرم سیاستدان، صنعت کار، تاجر اور قبضہ گروپ عدم استحکام پیدا کریں گے۔ مگر معیشت سدھری نہ ملک میں استحکام آیا، البتہ ریاست تباہی کے کنارے جا لگی۔ ریاست مدینہ میں مجرموں سے نہیں عام اور معصوم شہریوں سے رحمدلی کا سلوک ہوتا تھا اور سارے وسائل انہی پر خرچ کئے جاتے تھے۔ عمران خان نے تقریب میں غریب، کمزور اور بے آسرا طبقے کی وکالت کی اور احتساب و قانون کی حکمرانی پر زور دیا۔ جس کا مطلب ہے کہ موجودہ حکومت کو ادراک ہے۔ وہ احتساب کے عمل میں رکاوٹ ڈال رہی ہے نہ شور و غوغا سے گھبراہٹ کا شکار۔ کرتار پور کاریڈور کا چھکا لگا کر پاکستان نے بھارت کو بیک فٹ پر لاکھڑا کیا اور اپوزیشن کی کم از کم اس معاملے پر زبانیں گنگ ہیں۔ یہ مہلت عمل اگر گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی کے لئے استعمال ہو گی تو حکومت اگلے پانچ سال تک کسی روک، ٹوک کے بغیر کامیابی کا سفر جاری رکھ سکے گی لیکن خلوص نیت، حسن عمل اور راہ راست پر چلنے کی جرأت درکار ہے اور کارآمد ٹیم۔ ؎مالی دا کم پانی دینا، بھر بھر مشکاں پاوےمالک دا کم پَھل پُھل لانا، لاوے یا نہ لاوے