سخت ہو یا نرم سزا، اس وقت وحشیانہ لگتی ہے جب انسان مجرمانہ ذہنیت، مجرمانہ نفسیات کے ساتھ، مجرمانہ نظر سے دیکھے، قصور میں معصوم بچی زینب بدترین جنسی تشدد کا نشانہ بنی، وحشی درندے نے زیادتی کے بعد معصوم جان لے لی اور لاش کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی، جانوروں کی نوچی لاش برآمد ہوئی تو ملک بھر میں کہرام مچ گیا، ہر صاحب اولاد نے سوگ منایا اور قاتل کو سرعام پھانسی کا مطالبہ کیا، زینب کے سوگوار والد ین کا مطالبہ بھی یہی تھا مگر قوانین آڑے آئے اور قاتل کو مروجہ قوانین کے مطابق پھانسی دیدی گئی، سابقہ اور موجودہ حکمرانوں نے دعوے بہت کئے، ایسے سنگین جرائم کی بیخ کنی اور بچوں کے تحفظ کے لئے موزوں ماحول، سخت قوانین اور عبرت ناک سزائوں کے دعوے مگر ایفا اب تک کوئی ایک وعدہ نہیں ہوا، عمران خان ریاست مدینہ کی تکرار کرتے ہیں، بچیوں اور بچوں سے زیادتی کے خاتمے کے لئے معصوم زینب سے منسوب جو قانون منظور ہوا وہ بھی سابقہ قوانین کا چربہ ہے اور وفاقی وزیروں کا کہنا ہے کہ یہ عمران خان کی مرضی کے مطابق پیش ہوا نہ منظور ہونے دیا گیا۔ الزام پیپلز پارٹی پر ہے کہ اس نے سزائے موت کی مخالفت کی۔
ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے مقدمہ میں سزا ملنے کے باعث پیپلز پارٹی کی قیادت سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو سزائے موت دینے کے خلاف ہے لیکن اس میں ان معصوم بچوں اور بچیوں کا کیا قصور؟ جو درندوں کی زیادتی کا نشانہ بن کر موت کے گھاٹ اترتے اور روز قیامت پورے معاشرے کے خلاف فرد جرم عائدکریں گے کہ بایِّ ذنب قتلت (ہمیں کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا) گزشتہ روز وفاقی وزیر علی محمد خان نے معصوم بچوں اور بچیوں سے زیادتی اور قتل کے مرتکب افراد کو سرعام پھانسی کی سزا دینے کی قرار داد پیش کی تو قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے علاوہ دو وفاقی وزراء فواد چودھری اور شیریں مزاری نے بھی کھل کر مخالفت کی۔ دلیل یہ پیش کی کہ سخت سزائوں سے جرائم کم نہیں ہوتے، بڑھتے ہیں اور یہ سزائیں معاشرے میں انتہا پسندی اور تشدد پسندی کو فروغ دیں گی مہذب دنیا کی مثال بھی دی گئی جبکہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے قرار داد کو اسلامی قوانین اور عدالتی فیصلوں سے متصادم قرار دیا۔ پیپلز پارٹی کی مخالفت قابل فہم ہے، فواد چودھری اور شیریں مزاری تحریک انصاف اور وفاقی کابینہ میں شامل نہ ہوتے تو اپنی افتاد طبع اور فکری پس منظر کے مطابق مخالفت میں حق بجانب تھے مگر عمران خان کی کابینہ کے دو اہم ارکان کی طرف سے عوامی رجحانات کی آئینہ دار معصوم بچوں کے حقوق کی پاسدار قرار داد کی مخالفت؟ باعث حیرت نہیں باعث ندامت ہے۔
سرعام پھانسی کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مہذب دنیا اسے قبول نہیں کرے گی اور تشدد پسندی کا رجحان بڑھے گا، مہذب دنیا سے مراد امریکہ و یورپ ہے جہاں مائیں اپنے کمسن بچوں اور بچیوں کو شرابی والد کے شر سے بچاتی پھرتی ہیں کہ یہ بدبخت اکیلے میں انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ نہ بنا ڈالیں۔ برسوں قبل شکاگو کے قریب ایک صاف ستھرے قصبے لینا میں مجھے دو راتیں گزارنے کا اتفاق ہوا، مارک کے مثالی گھرانے میں خاتون خانہ وکی نے اپنے دو بچوں تین سالہ بیٹے اور آٹھ سالہ بیٹی کا ذکر کیا۔ مگر کھانے کی میز پر سات آٹھ سال کی ایک بچی کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا اور پوچھا کہ سنہرے بالوں والی یہ بچی کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ وکی کی ایک سہیلی کی بیٹی ہے جس کا باپ شرابی ہے اور ویک اینڈ پر گھر میں رہ کر خوب شراب نوشی کرتا ہے، عفت مآب ماں بے چاری باپ کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے بچی کو یہاں چھوڑ جاتی ہے۔ اتوار کی شام وہ ملازمت پر چلا جائے گا تو بچی گھر کی راہلے گی، اس "مہذب" دنیا کے ڈر سے ہم ملک میں اسلامی قوانین نافذ ہونے دیتے ہیں، نہ معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کے لئے مثالی سزائوں کے نفاذ پر تیار ہیں اور نہ سود کے خاتمے پر آمادہ۔ نظام مصطفی ؐ، ریاست مدینہ کا راگ البتہ خوب الاپا جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2019ء میں پاکستان میں 729بچوں اور 575بچیوں سے زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے46بچوں اور بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی، مانسہرہ کے ایک مدرسہ میں بچے کے ساتھ سو بار زیادتی کا مرتکب باریش شخص گرفتار ہے، جن معصوم بچیوں کو اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کر کے پھینک دیا گیا ان کے والدین سے کوئی پوچھے کہ قاتلوں کو کیا سزا دی جائے تو وہ سرعام پھانسی کے بعد ان کی لاش کتوں، بلّوں اور دیگر جانوروں کے سامنے پھینکنے کا مطالبہ کریں گے کہ ان کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑے اور دوسرے عبرت پکڑیں مگر انسانی حقوق کے علمبرداروں کا اصرار ہے کہ ان درندوں کو کچھ نہ کہو، جیل میں ریاست کا داماد بنا کر بٹھائواورٹہل سیوا کرو۔ آئین شکنی کے باعث سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے بنیادی حقوق عدالت عظمیٰ نے معطل کر دیے، انسانی حقوق کی کسی تنظیم اور قانونی برادری نے صدائے احتجاج بلند نہ کی، مگر مجرموں کے انسانی حقوق کا پیپلز پارٹی اور وفاقی وزیروں کو خوب خیال ہے اور یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ سخت سزائوں سے جرائم بڑھتے ہیں معاشرے میں انتہا پسندی و تشدد جنم لیتا ہے، سعودی عرب اور ایران میں سرعام پھانسی کی سزا عرصہ دراز تک نافذ رہی، قتل اور زنا بالجبر کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں، جبکہ امریکہ کی بعض ریاستوں اور یورپ کے کئی ممالک میں سزائے موت موقوف ہونے کے بعد سنگین جرائم میں اضافہ ہوا، سکولوں میں گھس کر بچوں پر فائرنگ اور بچوں بچیوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کا گراف پاکستان سے کہیں بلند ہے۔ انصاف کا موثر نظام ضروری ہے اور اخلاقی تربیت ازبس لازم لیکن سخت سزائیں بھی موثر ثابت ہوتی ہیں جس کی واضح مثال 2015ء میں فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے مرتکب افراد کو ملنے والی سزائیں اور خوف کے باعث دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہے۔ سنگا پور اور جاپان میں انصاف کا موثر نظام ہے اور سزائے موت برقرار، سنگین جرائم کی شرح سب سے کم ہے۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس سے کئی گنا کم۔
جس معاشرے میں شادی بیاہ کی تقریبات میں مخالف نقطہ نظر کے حامل افراد پر سرعام تھپڑوں کی بارش، چینلز پر گالم گلوچ اور ہاتھا پائی، مخالفین کو عوامی اجتماعات میں سڑکوں پر گھسیٹنے اور چوکوں پر لٹکانے کا اعلان روا ہے اور کسی کو انتہا پسندی و تشدد پسندی کا دھڑکا محسوس نہیں ہوتا، وہاں سرعام پھانسی کی مخالفت منافقت اور سنگدلی کی انتہا ہے۔ معصوم بچوں اور بچیوں پر جنسی تشدد اور قتل کر کے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینے سے پاکستان کو مہذب دنیا کچھ نہیں کہتی، ہمارا چہرہ مسخ نہیں ہوتا اور کوئی اسے قبائلی معاشرہ قرار نہیں دیتا۔ وحشی درندوں کو سرعام لٹکانے سے بھی جرائم میں کمی اور مظلوموں کے لواحقین کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑنے کے سوا کچھ نہ ہو گا، آزمائش شرط ہے۔ عمران خان ہمت کریں، ایک بار معصوم بچوں سے زیادتی کے مرتکب کو سرعام لٹکائیں؟ انشاء اللہ افاقہ ہو گا۔ ورنہ حضرت سیدنا مسیح علیہ السلام کے فرمان کے مطابق یہ معاشرہ مچھر چھاننے اور اونٹ سموچا نگلنے والا سنگدل، سفاک اور بے حس کہلائے گا۔