Main Bahadur Hoon Magar
Irshad Ahmad Arif87
فیلڈ مارشل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف اقتدار کے آخری دنوں میں امریکہ کوسمجھ پائے اور اس جال سے نکلنے کی کوشش کی جس میں امریکہ نے انہیں پھنسایا تھا یا وہ حُب اقتدار میں جا پھنسے تھے، عمران خان پہلے تین ماہ میں امریکی صدر کو وہ جواب دینے پر مجبور ہوا جو ایوب خان نے دس سال بعد سوچا "فرینڈز ناٹ ماسٹرز"۔ یہ ٹرمپ کا کمال ہے، مسلسل کہہ مکرنیوں سے تنگ آئی پاکستان کی ہئیت مقتدرہ کے تجربات کا نچوڑ یا عمران خان کی ذاتی اور قومی عزت نفس کے حوالے سے غیر معمولی حساسیت کا نتیجہ؟ بہرحال جو بھی ہے۔ قوم نے اپنے وزیر اعظم کی جواب آں غزل کو پسند کیا۔ سیاسی مخالفین تک کیڑے نکالنے کے بجائے ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوئے۔ امریکہ معاشی اور دفاعی سپر پاور ہے اور اپنے دشمنوں سے زیادہ دوستوں کے لئے خطرناک۔ یہ بات سابق امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے کہی تھی کہ امریکہ سے دوستوں کو ہمیشہ ہشیار رہنا چاہیے کہ وہ کسی دشمن کا کچھ بگاڑے نہ بگاڑے دوستوں کا کباڑہ کر دیتا ہے ایک نہیں کئی مثالیں ہیں امریکہ کے مخالفین میں سے صرف سوویت یونین برباد ہوا وہ بھی اپنی قیادت کی احمقانہ حرکتوں اور پہاڑ جیسی غلطیوں کے سبب۔ دوست مگر ایک نہیں کئی ہیں جو بدترین انجام سے دوچار ہوئے۔ لیبیا کا معمر القذافی اور عراق کا صدام حسین جب تک امریکہ کے مخالف کیمپ میں رہے ٹھاٹھ سے حکومت کی، جونہی امریکہ سے خیرسگالی کا شوق چرایا اور امریکی حکمرانوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اپنے دفاع پر سمجھوتہ کیا، اقتدار اور زندگی دونوں سے محروم ہوئے۔ وینزویلا، کیوبا، ایران، شام اور مصر کے ہیوگو شاویز، فیڈل کاسترو، احمدی نژاد، حافظ الاسد اور جمال عبدالناصر میں سے کسی کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوا جو امریکہ کے دوست شاہ ایران رضا شاہ پہلوی، حسنی مبارک اور پرویز مشرف کے علاوہ اس کے پیشرو دو فوجی حکمرانوں ایوب خان اور ضیاء الحق کا مقدر بنا۔ بلا شبہ پاکستان میں امریکی اثرورسوخ بے پایاں ہے۔ ہر شعبے اور ادارے میں اس کے گماشتے موجود ہیں۔ جنرل (ر) حمید گل مرحوم دعویٰ کیا کرتے تھے کہ امریکی رضا مندی کے بغیر اہم سول و فوجی مناصب سونپے ہی نہیں جاتے، ایئر مارشل(ر) شاہد لطیف تائید کرتے ہیں۔ کئی مثالیں موجود ہیں جب تربیتی کورس میں شریک پاکستانی افسران کو امریکی وفاداری کے عوض مراعات کی پیشکش ہوئی۔ پاکستان کی ہئیت مقتدرہ نے امریکہ سے محبت اور نفرت کے امتزاج پر مشتمل رشتہ خوب نبھایا۔ چار مواقع پر پاکستان نے امریکی دبائو کا مقابلہ کیا اور اپنے قومی مفاد کو ترجیح دی۔ پاک چین تعلقات کا قیام اور استحکام، ایٹمی پروگرام کی تکمیل، سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں اور عراق میں فوج بھیجنے سے انکار۔ اب ایک بار پھر پاکستان افغانستان کے حوالے سے امریکی ڈکٹیشن قبول کرنے سے انکاری ہے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سینئر اخبار نویسوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ جب تک ہم ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکی خواہشات قبول نہیں کرتے، کسی نہ کسی بہانے مخالفت جاری رہے گی۔ حمید گل مرحوم یہ بھی کہا کرتے تھے کہ 9/11بہانہ ہے، افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان اصل نشانہ۔ صدر ٹرمپ کے انتخاب نے امریکی عوام اور انٹیلی جنس کے بارے میں پایا جانے والا یہ تاثر ختم کر دیا کہ علم، سیاسی شعور اور قومی و بین الاقوامی معاملات کے ادراک میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ پتہ چلا کہ بھارتی عوام کی طرح امریکی عوام بھی پرلے درجے کے جذباتی، مذہبی و نسلی تعصبات کا شکار اور احساس برتری کے مرض میں مبتلا ہیں۔ صنفی امتیاز کا یہ عالم ہے کہ عالم فاضل، خوش شکل، خوش گفتار ہلیری کلنٹن کے مقابلے میں ایک بار امریکی عوام نے سیاہ فام مرد بارک اوبامہ کو ترجیح دی دوسری بار ان گھڑ ٹرمپ کو۔ امریکی صدارتی انتخابات سے کم و بیش چھ ماہ قبل(ابھی پرائمری مباحث کا آغاز ہوا تھا اور نامزدگی کی نوبت نہیں آئی تھی) امریکی قونصل جنرل کے آفس میں پاکستانی نژاد امریکی سیاستدان شاہد خان سے چند سینئر اخبار نویسوں کی موجودگی میں، میں نے سوال کیا تھا کہ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ہو سکتے ہیں؟ جواب تھا ناممکن! میں نے پوچھا اگر بالفرض وہ نامزد ہو گئے تو شاہد خان نے کہا گرینڈ اولڈ پارٹی(GOP) کا اللہ حافظ ہے۔ میرا اگلا سوال یہ تھا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو؟ " پھرامریکی جمہوریت کا اللہ حافظ" شاہد خان کا جواب تھا۔ ٹرمپ کو ری پبلکن پارٹی نے صدارتی امیدوار نامزد کیا اور عوام نے اس کی توثیق کرتے ہوئے ایوان صدر پہنچا دیا۔ کامیابی کے بعد ٹرمپ افغانستان میں امریکی ناکامی کی وجوہات کا درست تجزیہ کرنے اور عالمی طاقتوں کے اس قبرستان سے نکلنے کی تدبیر سوچنے کے بجائے پاکستان سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کر رہا ہے جو اگر پوری نہ ہوں تو خمیازہ پاکستان بھگتے۔ یہی پالیسی امریکہ نے ویت نام میں شکست کے موقع پر اپنائی اور کمپوچیا کو تباہ کر دیا۔ افغانستان تو امریکہ کا ویت نام بن چکا مگر پاکستان کمپوچیا بننے پر آمادہ نہیں۔ امریکہ کی بدقسمتی کہ پاکستان میں حکمران بھی اب کوئی شاہد خاقان عباسی نہیں جو ایئر پورٹ پر جامہ تلاشی سے بھی بے مزہ نہ ہو اور وضاحتیں کرتا پھرے۔ عمران خان کے جوابی ٹویٹ کے بعد پینٹاگان نے جو ردعمل دیا وہ امریکی عوام اور ہئیت مقتدرہ کی اس سوچ کا مظہر ہے کہ غلطی ٹرمپ کی تھی۔ یقینی بات ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ ا وروہائٹ ہائوس کو عمران خان کا جواب پسند نہیں اور وہ خوب سوچ بچار کے بعد عمران خان اور پاکستان کو مزہ چکھانے کی کوشش کریں گے لیکن فی الوقت عمران خان نے اپنے عوام کے دل موہ لئے اور امریکی عوام کے علاوہ فیصلہ سازوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ طاقت اور کمزوری کا جو فلسفہ امیر تیمور گورگانی نے بیان کیا ہے اس کے مطابق امریکی ہمیشہ اپنے دوستوں اور دشمنوں کی کمزوریوں کو اپنی طاقت میں ڈھالتے اور بھر پور اٹھاتے ہیں۔ انسان خواہ صدیوں قبل کا ہو یا آج کا بہرحال انسان ہے۔ ہمارے حکمران اور فیصلہ ساز بھی اپنے آپ کو، اپنے عوام اور وطن کو اچھوت، کمزور اور بے وقعت سمجھنے کے بجائے اشرف المخلوقات جانیں اور امریکہ ہو یا کوئی دوسری طاقت اسے بھی انسانوں کے مجموعے کی حیثیت سے دیکھیں تو اتنی ذلت و رسوائی کا شکار نہ ہوں جتنے ہم ہو چکے۔ افغان عوام نے برطانیہ، سوویت یونین اور اب امریکہ کو دھول چاٹنے پر مجبور کیا کہ ان کی طاقت سے مرعوب ہو ئے نہ تباہ کن جنگی مشینری کو خاطر میں لائے۔ برطانوی، روسی اور امریکی حکمرانوں کے جن بیانات سے دنیا تھر تھر کاپنتی ہے، افغانوں نے انہیں محض گیدڑ بھبکی سمجھا۔ ہمارا کمانڈو جرنیل، کولن پاول بلکہ رچرڈ آرمٹیج کی دھمکی پر ڈھیر ہو گیا جبکہ افغان قیادت ڈیزی کٹراور بموں کی ماں کی برسات کو بھی وقتی آزمائش سمجھ کر بے جگری سے لڑتی رہی اور آج امریکہ افغان طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہے۔ عمران خان کو دلیرانہ حکمت عملی کے نتائج کا ادراک ہے یا نہیں؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن پاکستان کو جلد یا بدیر امریکی دلدل سے نکل کر اپنے پائوں پر کھڑا ہونا پڑیگا۔ امریکہ پاکستان میں اپنے زرخرید گماشتوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے عمران خان، حکومت اور پاکستان کا بازو مروڑے گا۔ معاشی مشکلات سے واسطہ پڑیگا اور ممکن ہے عدم استحکام کی لہر بھی برپا ہو لیکن اگر ہم ڈٹے رہے، سول اور فوجی ادارے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر مشکلات کا مقابلہ کرنے پر تیار ہو گئے اور عجلت پسند عوام نے امریکہ نواز سیاستدانوں، تجزیہ کاروں اور دانشوروں کے بزدلانہ بیانئے پر توجہ نہ دی تو کوئی وجہ نہیں کہ بالآخر پاکستان خود کفالت، خود انحصاری اور خودداری کا ہدف حاصل نہ کر سکے جو ریاست مدینہ کا بنیادی پتھر تھا۔ عزت نفس کے حامل ہر شخص اور ہر خود دار قوم کو قیمت چکانی پڑتی ہے۔ عمران خان کو البتہ اپنی ٹیم کی نگرانی کرنی پڑے گی کوئی امریکی گماشتہ، کوئی محمد شعیب اور شوکت عزیز موجود ہوا تو منزل کھوٹی کر دے گا۔ ایک میر جعفر اور ایک میر صادق سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو کی شجاعت، فراست اور ریاضت پر پانی پھیر دیتا ہے پھر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا :میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں