Main Ne Rab Ko Apne Iradon Ki Nakami Se Pehchana
Irshad Ahmad Arif142
مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان بر حق ہے " میں نے رب کو اپنے ارادوں کی نا کامی سے پہچانا" شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی معرکتہ الآرا کتاب " قرآنی انسائیکلوپیڈیا" کی عالیشان تقریب رونمائی میں شرکت کا پختہ ارادہ کیا، مختصر گفتگو کے لیے اپنی بساط کے مطابق تیاری کر لی تھی مگر تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ، ہنگامی طور پر کراچی آنا پڑا اور اہل علم کی مجلس میں شرکت سے محروم رہا۔ قرآنی انسائیکلو پیڈیا آٹھ جلدوں پر مشتمل علم و عرفان کا ذخیرہ ہے جس میں پانچ ہزار موضوعات کا احاطہ کیاگیا ہے۔ یہ قرآنی مضامین کا مجموعہ اور قرآن مجید کا عام فہم اشاریہ ہے جس کا مقصد رجوع القرآن کے مقصد کی تکمیل اور نو جوان نسل کے ذہنوں کی تطہیر ہے۔ قرآن کریم دور حاضر کے انسان کی رہنمائی کس طرح کرتا ہے؟ اور نظم اجتماعی کے قیام میں کس حد تک مدد گار ہے؟ اس کا ادراک قرآنی انسائیکلو پیڈیا پڑھ کر ہوتا ہے زبان سلیس، انداز بیان دلنشین اور موضوعات کا انتخاب جامع ہے۔ جس سے مصنف و مؤلف کی قرآنی علوم میں دسترس، جدید علمی، سیاسی اور سماجی موضوعات پر گرفت اور عربی کے علاوہ اردو زبان پر عالمانہ عبور کا اندازہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری بقول اقبال " نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند "۔ انسائیکلوپیڈیا کے موضوعات میں تنوع ہے، تنگ نظری نہیں جامعیت ہے یک رخاپن نہیں۔ پاکستان کے سادہ لوح عوام مسلکی تعصبات، سیاسی دھڑے بندی اور پگڑی اچھال سیاست کے سحر میں بری طرح گرفتار نہ ہوتے تو اس ذہین اور چرب دماغ مذہبی سکالر کی علمی فتوعات ان کی ذہنی، دماغی اور علمی نشوونما میں مدد گار ثابت ہوتیں مگر برا ہو سیاست کا ڈاکٹر صاحب وقتی سیاست، شوق انفرادیت میں الجھ کر رہ گئے اور عوام نے انہیں ایک متنازعہ سیاسی شخصیت کے طور پر جانا۔ 2013ء میں انہوں نے سیاسی اور انتخابی اصلاحات کا نعرہ بلند کیا، پاکستان کی تاریخ کا سب سے پر امن، منظم اور متاثر کن دھرنا دیا، 2013ء کے انتخابات کے بارے میں قبل از وقت تحفظات ظاہر کئے اور سیاست کے بجائے ریاست بچائو کا نعرہ لگایا، کسی سیاسی اور مذہبی جماعت نے اتفاق کیانہ ساتھ دیا مگر 2013ء اور 2018ء کے انتخابات کو تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے دھاندلی زدہ بتایا۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف اور دیگر تمام جماعتوں نے تحقیقات کا مطالبہ کیا مگر کسی نے یہ اعتراف نہیں کیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے 2013ء کے انتخابات سے پانچ ماہ قبل جوکہا وہ سو فیصد درست تھا اور جامع اصلاحات کے بغیر انتخابات ہمیشہ متنازعہ رہیں گے۔ اعتراف تو درکنار، جامع اصلاحات کی فکر اب تک کسی کو نہیں۔ قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی تقریب رونمائی میں عدم شرکت کا افسوس رہیگا، حاضر ہوتا تو بہت کچھ کہتا مگر ارادہ ارادہ ہی رہا۔ اتوار کی دوپہر البتہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال سے ظہرانے پر ملاقات خوب رہی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے لگی لپٹی رکھے بغیر اعتراف کیا کہ ان کے صوبے کی پسماندگی اور محرومی کی اصل وجہ بد انتظامی اور کرپشن ہے۔ ترقیاتی بجٹ کا بمشکل تیس چالیس فیصد منصوبوں پر خرچ ہوتا، باقی ساری رقم منتخب عوامی نمائندے اور بیورو کریٹس ہڑپ کر جاتے ہیں، صوبے میں چوبیس ہزار اسامیاں خالی ہیں جن میں سے دس ہزار صرف تعلیمی شعبے کی ہیں۔ بلوچستان کا بجٹ چار کھرب روپے کا ہے مگرصوبے میں صرف پندرہ ارب روپے کا ریونیو اکٹھا ہوتا ہے جو شرمناک ہے۔ یہ متعلقہ اداروں کی نا اہلی ہے اور حکومت کی عدم دلچسپی۔ کوئٹہ کے ایک سول ہسپتال میں تین گائنی ڈاکٹرز موجود ہیں جو پرائیویٹ پریکٹس کرتی ہیں اور اپنے فرائض منصبی پر توجہ نہیں دیتیں اسی باعث صرف اس شعبے میں ماہانہ شرح اموات ساٹھ بچے اور بیس مائیں ہے۔ کسی نے آج تک پوچھا ہی نہیں کہ اس قدر زیادہ شرح اموات کا ذمہ دار کون ہے؟ ماضی کے کسی حکمران نے کرپشن، نا اہلی، بد انتظامی ختم کرنے پر توجہ دی نہ عوام کے حقیقی مسائل حل کرنے کا تردد کیا۔ سالانہ اربوں روپے عوام کوٹینکروں سے پینے کا پانی فراہم کرنے کے لیے مختص ہیں جن کا عشر عشیر بھی پانی کی فراہمی پر خرچ نہیں ہوتا، جبکہ گوادر، پسنی اور دیگر مقامات پر واٹر سپلائی کے منصوبے نا مکمل پڑے ہیں کوئٹہ کوپٹ فیڈر کینال سے پانی فراہم کرنے کا منصوبہ بنا جو قابل عمل تھا نہ پائیدار، جبکہ کوئٹہ میں اربوں روپے کی لاگت سے ماس ٹرانزٹ منصوبہ جیبیں بھرنے کی تدبیر تھی، جو کامیابی کا منہ نہ دیکھ سکی۔ گمشدہ افراد کے بارے میں سوال ہوا جو تحریک انصاف اور اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی کے مابین اتحاد کے باوجود وجہ نزاع ہے جام کمال نے اظہار خیال کے لیے سینیٹر انوار کا کڑ کو آگے کر دیا، کاکڑ اس میٹنگ میں شریک تھے جو گمشدہ افراد کے معاملہ پر غور کے لیے وفاقی حکومت کے اہم ارکان اور اختر مینگل کے دوران ہوئی۔ بلوچستان سے گمشدہ افراد کے بارے میں اعدادو شمار سامنے آئے تو شرکاء ہکا بکا رہ گئے کہ ماما قدیر ان کی تعداد اکیس ہزار بتاتے ہیں، اختر مینگل چھ سات ہزار، جسٹس(ر) جاوید اقبال کی قیادت میں کام کرنے والا کمشن نو سو اور اقوام متحدہ کی انفورسڈ ڈس اپئرینس کمیٹی صرف پچاس، جی ہاں صرف پچاس، جبکہ ہتھیار ڈالنے والے بعض فراریوں کا نام بھی گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل تھا ؎کس کا یقین کیجئے، کس کا نہ کیجئےلائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگبلوچستان کے سردار وں اور قوم پرستوں نے عوام کی غربت، جہالت، پسماندگی اور بے روز گاری کا علاج خوب سوچا، انہیں وفاق، پنجاب اور فوج کے خلاف صف آراء کر کے حکمرانوں کی کرپشن، نا اہلی، بد انتظامی اور بیورو کریسی کی لوٹ مار کا دفاع کیا جس کا تدارک جام آف لس بیلہ میر غلام قادر کے پوتے اور جام یوسف کے صاحبزادے جام کمال کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔ مرض کی تشخیص درست مگر عام آدمی علاج چاہتا ہے۔ فوری، موثر اور پائیدارعلاج اب بھی نہ ہوا تو مایوسی بڑھے گی اور احساس محرومی میں اضافہ ہوگا، یہ سیاست نہیں ریاست بچانے کا وقت ہے، کوئی تو سوچے۔