Murghi Anday Ki Behas
Irshad Ahmad Arif78
مرغی پہلے یا انڈا؟ بحث صدیوں سے جاری ہے گتھی آج تک سلجھ نہیں سکی مگر عمران خان نے جوکہا وہ بحث کا موضوع ہے یا محض تنقید برائے تنقید؟ عمران خان نے دیہی علاقوں میں مرغیاں پالنے اور بچھڑوں کو ذبح نہ کرنے کی بات کی، ناقدین لے اُڑے اور تضحیک پر اُتر آئے۔ ہمارے شہری بابو جو مریل برائلر کا شوارما، روسٹ اور چرغہ کھا کر جوان ہوئے، جانتے ہی نہیں کہ دیہی معیشت میں مرغی انڈے کی کیا اہمیت ہے اور بستیوں، گوٹھوں میں وہ آنگن سونا لگتا ہے جس میں مرغیوں کی کڑ کڑ اور چوزوں کی چوں چوں سنائی نہ دے۔ شہروں میں مرغیوں کا کاروبار کرنے والے ارب پتی ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ اگر برائلر مرغیوں کی صنعت فروغ نہ پاتی تو جو حال ہم نے بھیڑ بکریوں، گائے بھینسوں اور دیسی مرغیوں کا کیا، گوشت اور انڈا جتنا مہنگا ہوا، عام آدمی عید شب برات اور شادی بیاہ میں بھی گوشت کھانے کو ترستا۔ چند ہفتے قبل پولٹری ایسوسی ایشن نے ایکسپو سنٹر میں ایک نمائش کا اہتمام کیا تھا جس میں شرکاء کو ماہرین نے بتایا کہ انسانی جسم کو توانائی کی جتنی ضرورت ہے وہ پولٹری کا شعبہ پورا کر سکتا ہے ورنہ سٹنڈگروتھ مزیدبڑھے اور ہم مزید ذہنی و جسمانی پستی کا شکار ہوں۔ پاکستان دنیا کا خوش قسمت زرعی ملک ہے۔ قدرت نے جسے چار موسموں کے علاوہ پہاڑوں، صحرائوں، میدانوں اور جنگلات کی بیش بہا نعمت سے نوازا مگر اس کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اب تک قدرتی وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھا سکے نہ زرعی شعبے کی ترقی کے لئے پائیدار منصوبہ بندی کر سکے، سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد پوری دنیا نے دیکھا کہ سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستیں ان مسائل کا شکار نہ ہوئیں جن کا ترقی یافتہ روسی ریاستوں نے سامنا کیا۔ وجہ صرف ایک تھی کہ کمیونسٹ حکمرانوں نے مسلم ریاستوں کو خام مال کی منڈی بنایا، صرف زرعی شعبے کو ترقی دی جبکہ روسی ریاستوں میں صنعتی و تکنیکی شعبوں کو وسائل فراہم کئے، سپر پاور ٹوٹی تو وسطی ایشیائی ریاستوں کے پاس کھانے پینے، پہننے، برآمد کرنے کو سب کچھ تھا جبکہ دوسری ریاستیں ان کی محتاج، بالآخر دولت مشترکہ طرز پر کریملن کو اتحاد تشکیل دینا پڑا۔ البانیہ چھوٹی سی ریاست تھی جو اقتصادی پابندیوں کا شکار ہوئی تو حکمران انور حوجہ نے نعرہ دیا"انگور کھائو، انگور پیو" ریاست میں انگوروں کی بہتات تھی عوام نے ساتھ دیا اور معاشی پابندیاں ہوا ہو گئیں۔ پاکستان آج تک اپنی زراعت ہی کی وجہ سے معاشی و اقتصادی تباہی سے بچتا چلا آ رہا ہے ورنہ ہمارے کم عقل منصوبہ سازوں، ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے کسر نہیں چھوڑی۔ ذرا سوچئے ہماری برآمدات میں زرعی اجناس اور مصنوعات کا حجم کتنا ہے۔ زرعی رقبوں کو ہم نے ہائوسنگ سکیموں میں تبدیل کیا، شہروں کو کسی نے پھیلنے سے روکا نہیں اور آج کے دور میں جب مہذب ممالک ایک ایک انچ زمین کو بچانے کی فکر میں ہیں رہائش کے لئے ہائی رائزز بلڈنگز بنا رہے ہیں ہمارے ہاں ایکڑوں پر مشتمل محلات کی تعمیر جاری ہے۔ درخت بے رحمی سے کٹ رہے ہیں اور جانور پانی اور چارے کی کمی، بیماریوں کا شکار ہیں۔ کپاس کے علاقوں میں گنا کاشت ہو رہا ہے اور گنے کے کاشتکار ہی نہیں شوگر مل مالکان بھی حکومتی بے حسی کا رونا رو رہے ہیں۔ لائیو سٹاک کا شعبہ روائتی بے اعتنائی کا شکار ہے اور ماضی کی بھینس پال، گائے پال، بھیڑ پال سکیمیں ٹھپ ہیں۔ چھوٹے کاشتکاروں کو قرضے ملتے ہیں نہ ان کی کوئی رہنمائی کرنے والا ہے کہ روایتی فصلیں کاشت کرنے کے بجائے وہ لائیو سٹاک پر توجہ دیں۔ چھ آٹھ ایکڑ زمین پر بھینس، گائے، بکریاں پال کر عام کاشتکار گریڈ سترہ اٹھارہ کے افسر کے برابر سالانہ آمدنی حاصل کر سکتا ہے جبکہ خواتین کوبے نظیر انکم سپورٹ سکیم کے ذریعے تین چار ہزارروپے ماہانہ امداد کا عادی کرنے اور ان کے نکھٹو شوہروں کو کام چوری کی ترغیب دینے سے بہتر ہے کہ انہیں گھروں میں مرغیاں پالنے اور آمدنی بڑھانے کی راہ دکھائی جائے۔ پوری دنیا میں بڑی صنعتوں کے ساتھ گھریلو صنعتوں اور روزگار کی چھوٹی سکیموں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور مرغیوں، بکریوں، بھیڑوں کی افزائش اسی سلسلے کی کڑی ہے مگر ہمارے سابقہ حکمران اور سیاستدان ان سکیموں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ شہری بابو جانتے ہی نہیں کہ اخوت فائونڈیشن نے ہزاروں گھروں کو دس بیس ہزار روپے کے قرضے دے کر ایسے ہی چھوٹے کاروبار پر لگایا اور ایک ڈیڑھ برس میں اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ عوام کو صرف مرغیاں پالنے کی ترغیب نہ دیں۔ بطخیں، سفید تیتر، کبوتر اور خرگوش پالنے پر بھی لگائیں اور لائیو سٹاک کے شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دینے کے لئے سوچیں۔ لائیو سٹاک کا شعبہ روزگار کی سہولتوں میں اضافے کے علاوہ معیار زندگی بلند کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتاہے۔ پڑھے لکھے نوجوان اگر سرکاری نوکریوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے چھوٹے قرضے لے کر ان سکیموں کا حصہ بنیں اور اپنے خاندان کو سہارا دیں تو بہت سے دلدر دور ہو سکتے ہیں۔ مرغی انڈے کی افزائش سے ترقی و خوشحالی کا خواب بھی عمران نے نہیں دکھایا دنیا کے کئی ممالک میں یہ تجربہ کامیاب رہا۔ برطانیہ میں پچاس کے عشرے میں سالانہ ایک کلو مرغ گوشت فی کس کھانے کا رواج تھا جو اب 25/30کلو گرام کی اوسط تک پہنچ چکا ہے جبکہ پولٹری کی صنعت پاکستان میں ترقی پذیر ہے اس کے باوجود ایک شہری کو سالانہ اوسطاً چھ کلو گوشت دستیاب ہے۔ مرغی کے گوشت اور انڈے کی افزائش کی ترغیب اگر حکومت دیہی عوام بالخصوص گھریلو خواتین کو دے تو برائلر سیاستدان اور ان کے پروردہ دانشور مذاق اڑاتے ہیں۔ شائد دیہی عوام کا معیار زندگی بہتر ہونے کے خلاف ہیں یا انہیں دیسی مرغوں انڈوں سے چڑ ہے۔ ایوب خان کو بکریوں سے چڑ تھی وہ اسے گھاس کا دشمن قرار دیتے۔ عمران خان کے مخالفین مرغی اور انڈے کے ذکر سے بے مزہ ہوتے ہیں شائد وہ وزیر اعظم کے منصب کو مرغی انڈے کے ذکر سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ جبکہ غریب عوام بے چارے چاہتے ہیں کہ اب ان کے درد کا کوئی درماں کرے، انہیں اگر مرغی پال اور انڈے بیچ کر عزت کی روٹی ملتی ہے تو منتخب نمائندوں اور ان کے فرنٹ مینوں کو رشوت دے کرچپڑاسی، کلرک اور حوالدار بننے سے بہتر ہے۔ وہ چپڑیاں اور دو دو نہیں مانگتے، رزق حلال کے خواہش مند ہیں جو انہیں کسی کی خوشامد، چاپلوسی، مٹھی گرم کرنے سے نہیں وقار سے مل سکے، ملنا شروع ہوتو مرغی انڈے کی بحث شروع کرنے والوں کے منہ یہ خود بند کریں گے۔ خود برسوں اور عشروں اقتدار میں رہ کر کچھ کیا نہیں، جو کرنا چاہتا ہے اس کا مذاق اُڑا رہے ہیں سنگدل اور احمق کہیں کے۔