محدب عدسے کے بغیر نظر نہ آنے والے ایک معمولی جرثومے کرونا وائرس نے اپنی ذہانت، بصیرت، ہشیاری، سائنسی و تکنیکی ایجادات اور جدید حفاظتی انتظامات پر نازاں انسان کو اوقات یاد دلا دی، حضرت انسان کی جبلت و سرشت بھی عیاں کی۔ تیسری دنیا میں بسنے والے انسانوں کو تو فرسٹ ورلڈ مہذب سمجھتا نہ مکھی مچھرسے زیادہ اہمیت دیتا ہے، خود مذمتی کے مرض میں مبتلا معاشرے کے دانشور بھی دن رات یہی راگ الاپتے ہیں کہ حرص، ہوس، لالچ، خوف اور مفاد خویش تیسری دنیا کے مکینوں کا طرہ امتیاز ہے، ترقی یافتہ ممالک کے انسان ہمہ وقت دوسروں کے بارے میں سوچتے اور ایثار و قربانی پر آمادہ رہتے ہیں۔ دنیا میں کرونا وائرس پھیلنے کے بعد پاکستان کے منافع خور اور لالچی تاجروں نے سینیٹائزر اور ماسک کی قیمتیں بڑھائیں، کہیں کہیں یہ بازار سے غائب ہوئے تو ان دوستوں کو دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع مل گیا، دیکھا ہم نہ کہتے تھے، یہ قوم ہے ہی ایسی، تاجرانسانی ضرورت کی اشیاء مہنگے داموں بیچ کر قوم کے اجتماعی کردار کی عکاسی کر رہے ہیں اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ پاکستان میں اب تک سینیٹائزر اور ماسک ہی بازار سے غائب اور مہنگے ہوئے ہیں، اشیائے خورو نوش، گوشت، سبزیاں، چاول، دالیں، دودھ، مکھن، ڈبل روٹی اور چینی کی قلت ہے نہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، سپین، سویڈن اور دیگر ترقی یافتہ و مہذب ممالک کی طرح شاپنگ مالز سنسان و ویران ہیں، میری بیٹی آمنہ شاہ اپنے شوہر حسن علی گیلانی کے ساتھ دو دن سے وسطی لندن کے بڑے بڑے شاپنگ مالز پر اشیائے خورو نوش کی تلاش میں سرگرداں ہے، کہیں سے سبزی اور گوشت دستیاب ہے نہ چاول چینی اور ڈرائی فروٹ، "ایثار پیشہ" اور "قناعت و توکل" کے پُتلے گوروں نے کہیں کچھ چھوڑا ہی نہیں، حتیٰ کہ ٹشو پیپر اور ہاتھ دھونے والا صابن بھی نایاب۔ میں نے ٹویٹ کیا تو کئی یورپی ممالک کے شہریوں نے بتایا کہ کم و بیش ہر ملک میں صورت حال یکساں ہے، بعض گورے ذخیرہ اندوزی کے بعد یہ اشیا آن لائن مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں حکومت کی رٹ برقرار ہے نہ اپنے شہریوں کو آسانیاں فراہم کرنے کی خواہش شدید۔ ڈر یہ ہے کہ کرونا وائرس سے زیادہ ضروریات زندگی کی قلت بلکہ نایابی اور مستقبل کا خوف انسانی جانوں کے لئے خطرہ بن جائیگا۔
پاکستان اور یورپی ممالک کا موازنہ مقصود ہے نہ کسی پر طعنہ زنی مطلوب، بتانا میں یہ چاہتا ہوں کہ انسان خواہ جاہل اور گنوار ہو، قدامت پسند و پسماندہ یا تعلیم یافتہ، جدت پسند اور مہذب ممالک کا باشندہ اگر خوف خدا، ایثار و قربانی، قناعت و توکل کے جوہر سے عاری ہے تو اس کا طرز عمل تیسری دنیا کے کسی فرد سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ پاکستانی قوم 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب سے مثالی انداز میں نمٹی، چند حرام خوروں نے اس موقع پر بھی جلب منفعت اور زر اندوزی کو ترجیح دی مگر قوم نے بحیثیت مجموعی ایثار و قربانی اور اسلامی اخوت کی مثال قائم کی، متاثرہ علاقوں میں اس قدر امدادی سامان پہنچا کہ بین الاقوامی ادارے انگشت بدنداں رہ گئے مجال ہے کہیں اشیائے خورو نوش کی قلت اور افراتفری دیکھنے میں آئی ہو۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران بھی ہمارا طرز عمل تمام تر کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود دوسروں سے بہتر ہے حالانکہ ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت نے کردار سازی پر توجہ دی نہ قوم میں اجتماعیت کا جذبہ بیدار کرنے کے لئے اپنا فرض ادا کیا۔ لوٹ مار، اقربا پروری، دوست نوازی اور مفاد خویش کے غیر انسانی کلچر کی دانستہ ترویج البتہ خوب ہوئی۔ نوجوان نسل کو مسلسل یہ باور کرایا گیا کہ حصول زر ہی حیات انسانی کا اولین مقصد ہے اور دھن دولت ہی عزت کا معیار۔ کرونا مرض اور وبا ہے، یہ پہلی بیماری ہے نہ وبا جس سے انسان کو واسطہ پڑا ہے، طاعون، ہیضہ اور دیگر کئی وبائیں کرہ ارض پر پھوٹیں اور انسانوں کو لقمہ اجل بنا کر گزر گئیں، زندہ رہنے کی جبلت نے انسان کو ان کی مدافعت اور سدباب پر آمادہ کیا۔ ویکسین ایجاد ہوئی اور بالآخر انسان جیت گیا، کرونا بھی ایسی ہی بلا ہے جو بالآخر ٹل جائے گی۔
ہر مصیبت، مرض اور بلا سے شفا دینے والے اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور ابتلاو آلام میں نہ گھبرانے کی دیرینہ عادت کی بنا پر پاکستان میں حالا ت نارمل، صوبائی اور وفاقی حکومتیں مستعد ہیں اور ہر سطح پر آگہی کی مہم جاری ہے علاج سے احتیاط بہتر ہے اور خود اعتمادی قوت مدافعت میں اضافہ کرتی ہے، ہمیں بحیثیت پاکستانی اور مسلمان احتیاطی تدابیر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے کرونا سے ڈرنا نہیں مقابلہ کرنا ہے کہ قائد اعظمؒ کے الفاظ میں "مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا" صلواۃ التوبہ کا اہتمام، دعا و استغفار اور طہارت و صفائی کی عادت ایک مسلمان کا شیوہ اور اجتماعی گناہوں سے توبہ بچائو کی تدبیر۔ صنعتی و تجارتی تنظیموں کا فرض ہے کہ اس موقع پر وہ اپنا قومی فرض ادا کرتے ہوئے انسانی ضرورت کی بنیادی اشیاء کی قلت ہونے دیں نہ ذخیرہ اندوزی و گرانی۔ حکومتی ادارے کوتاہی کے مرتکب بھی ہوں تو خلق خدا کی بھلائی کے لئے یہ تنظیمیں اپنے دائرہ اثر میں گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی اور قلت کا سدباب کریں اور ان حرام خوروں کا محاسبہ جو قدرتی آفات کے موقع پر بھی پیٹ کا دوزخ بھرنے سے باز نہیں آتے۔ کثرت کی خواہش میں مبتلا یہ جرائم پیشہ افراد اور گروہ حرام کی یہ کمائی اپنے ساتھ لے جائیں گے نہ اس دولت کے بل بوتے پر وہ ذہنی سکون اور قلبی اطمینان کی دولت خرید سکتے ہیں۔
یہ آزمائش کی گھڑی ہے، کرونا کے مرض میں مبتلا افراد کے علاوہ ان کے عزیز و اقارب سے زیادہ ان لوگوں کی آزمائش کا مرحلہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے وسائل سے نوازا اور اس مرض سے محفوظ رکھا، یہ صنعت کار، تاجر، ڈاکٹر، دوا فروش، سرکاری ملازمین اور دیگر اپنی خواہشات پر قابو پا کر اس امتحان میں سرخرو ہو سکتے ہیں، چین میں شعبہ طب سے وابستہ افراد نے ایثار و قربانی کی عمدہ مثالیں قائم کی ہیں، چینی حکومت نے اشیائے صرف و ادویہ کی قیمتیں بڑھنے دیں نہ کسی چیز کی قلت ہونے دی، یورپ اور امریکہ کے حکمرانوں اور عوام دونوں کے مقابلے میں چین بازی لے گیا۔ اعلیٰ انسانی اخلاقیات اور انتظامی صلاحیتوں کے حوالے سے چین کا پلڑا بھاری رہا، اب ہماری باری ہے۔ ماضی میں پاکستان کے عوام اور متمول طبقے نے دریا دلی دکھائی اور دنیا سے داد سمیٹی۔ اب بھی ہمارا قومی طرز عمل یہی ہونا چاہیے کہ گھبراہٹ، پریشانی ہڑ بونگ کسی مرض کا علاج ہے، کسی مسئلہ کا حل نہ دوسروں کی حق تلفی اور ایذارسانی شیوہ انسانیت۔ 1965ء کی جنگ، 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب میں اخوت اسلامی کا مظاہرہ ہوا اب کیوں ممکن نہیں؟ ۔ اب بھی مال و دولت اور بنیادی ضرورت کی اشیا سمیٹنے نہیں، خلق خدا کی دعائوں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جھولیاں بھرنے کا موقع ہے اور یہ موقع بار بار نہیں آتا۔ ابتلا کی گھڑی میں کسی قوم کے جوہر کھلتے اور اس کا حقیقی چہرہ سامنے آتا ہے۔