چین نے وہی کیا جو ایک آزاد، خود مختار، خود دار اور غیرت مند ریاست کو زیبا ہے، بھارت کے حکمرانوں کی خو غلامانہ ہے، صرف نریندر مودی نہیں 1947ء سے اب تک برسر اقتدار آنے والے تمام حکمرانوں کا یہی وطیرہ رہا، کمزور کے گلے پڑ جائو، طاقتور سے واسطہ پڑے تو پائوں پکڑو اور جان بچائو، بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی طرح لداخ کا سٹیٹس تبدیل کرنے کی کوشش کی اور اس کے فوجیوں نے لداخ کی سرحد پر متنازعہ علاقے میں خرمستیاں شروع کر دیں، چین نے ایک دو بار وارننگ دی مگر غالباً امریکی شہ پرظبھارتی حکومت نے شریفانہ تنبیہ کی پروا نہ کی اور چھیڑ چھاڑ جاری رکھی، دو روز قبل نتیجہ بھگتا۔ بہادر چینی فوجیوں نے متنازعہ علاقے میں موجود بھارتیوں کی پٹائی کی، درجنوں کو گرفتار کیا اور علاقے میں ٹینٹ لگا کر بیٹھ گئے، غیر ملکی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق چین نے بار بار اور باضابطہ اپیل پر بھارتی فوجی تو رہا کر دیے ہیں مگر علاقہ خالی نہیں کیا۔
بھارت سمیت دنیا بھر میں کورونا کی وبا نے تباہی مچا رکھی ہے۔ پچاس لاکھ سے زائد انسان متاثرین میں شامل ہیں اور مرنے والوں کی تعداد تین لاکھ سے متجاوز ہے، بھارت نے کورونا سے نمٹنے کے لئے جو اقدامات کئے ان کے نتیجے میں وبا کا پھیلائو نہ رکا البتہ عوامی مسائل بڑھ گئے۔ نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں بھارتی اقدامات کی قلعی کھولی ہے کہ کس طرح انتہا پسند مودی حکومت نے اس انسانی المیے کو بھی ہمسایوں سے پرانا حساب چکانے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچلنے اور اقلیتوں اور کمزور طبقات کی کمر توڑنے کے لئے استعمال کیا۔ سخت لاک ڈائون کے باوجودبھارت میں مریضوں اور اموات کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ نریندر مودی نے لاک ڈائون کے متاثرین کی امداد کے لئے جس مالیاتی پیکیج کا اعلان کیا اس سے صرف متوسط طبقے نے فائدہ اٹھایا، غریب لوگ حکومت سے مایوس ہو کر پیدل گھروں کو چل پڑے اور ایک ایک خاندان نے ڈیڑھ دو سو میل کا سفر طے کر کے اپنے آبائی علاقوں میں پناہ لی جبکہ بھارتی فوج نے پاکستان، چین اور نیپال کی سرحدوں پر اپنی جارحانہ سرگرمیاں جاری رکھیں پاکستان کا جواب کنٹرول لائن پر گولی کے بدلے گولی تک محدود رہا مگر چینی بھائیوں نے اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق بھارت کو گھٹنے ٹیکنے اور پائوں پڑنے پر مجبور کیا ع
ایں کار از تو آیدو مرداں چنیں کنند
دو دن سے بھارتی میڈیا پر چین کے خلاف پراپیگنڈا مہم چل رہی ہے، نہ بھارتی علاقے پر غیر قانونی قبضے کا واویلا ہے اور نہ بھارتی فوج، اسلحے اور علاقائی برتری کے دعوے، البتہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ایک بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے جس پر پرانی پنجابی کہاوت یاد آتی ہے، ڈگی کھوتی توں تے غصہ کمہار تے، لداخ پاکستان اور چین دونوں کے لئے اہم ہے اور بھارت گلگت بلتستان پر حملے، سی پیک روٹ اور دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں رکاوٹ کے لئے لداخ سے کوئی مہم جوئی کر سکتا تھا، چین نے گربہ کشتن روز اوّل کے مصداق یہ روزن بند کر دیا۔
بھارت کا علاج صرف یہی ہے جب تک پاکستان بھی بھارت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرتا رہا، بھارتی حکمرانوں نے کبھی متکبرانہ انداز اختیار نہ کیا، پاکستان نے جوابی ایٹمی دھماکے کئے تو بھارتیہ جنتا پارٹی کا وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی خود چل کر پاکستان آیا اور قیام پاکستان کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا، پاکستانی حکمران اشرافیہ نے بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی کی تکرار شروع کی، بھارت اور جموں و کشمیر میں ہونے والے ہر واقعہ کی ذمہ داری اپنے ہی اداروں پر ڈال کر بھارتی حکمرانوں اور ان کے بیرونی سرپرستوں کی خوشنودی پر کم کس لی تو مودی اینڈ کمپنی کے تیور بدل گئے اور پچھلے سال جموں و کشمیر کا سٹیٹس تبدیل کرنے کے علاوہ اس نے ایک کروڑ کشمیریوں کو گھروں میں قید کر دیا تاریخ میں ایسے کسی فوجی لاک ڈائون کی مثال نہیں ملتی کہ ایک کروڑ زندہ انسانوں کو گھروں میں بند کر کے فوجی پہرہ لگا دیا جائے۔ قدرت نے اگرچہ کورونا کے ذریعے پورے ہندوستان کو لاک ڈائون کے انجام سے دوچار کیا بلکہ مسلم اور غیر مسلم کی تمیز کے بغیر دوسو سے زائد ممالک کو ایسے ہی لاک ڈائون کا مزہ چکھایا مگر اصلاح احوال پر آمادہ کوئی نہیں، بھارت سدھرا ہے نہ اس کے مغربی سرپرستوں میں سے کسی کو شرم آئی، پاکستان نے پانچ اگست کے بعد زبانی کلامی سہی، پرزور احتجاج کیا، عمران خاننے جنرل اسمبلی میں کھڑے ہو کر عالمی برادری کو شرمندہ کیا مگر نتیجہ صفر۔ اب یہ احتجاج صرف دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ، شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنسوں اور عمران خان کی ٹویٹس تک محدود ہے، فالس فلیگ آپریشن کا دھڑکا لگا رہتا ہے مگر ہماری تمام تر حکمت عملی جوابی اور دفاعی اقدام پر مبنی ہے۔ کنٹرول لائن پر ہمارے فوجی اور شہری آئے روز شہید ہوتے ہیں اور ہم بھارتی سفیر کے علاوہ عالمی مبصرین کے ہاتھ میں ایک مراسلہ تھما کر مطمئن و شاد رہتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے کبھی مانے ہیں نہ مانیں گے۔"لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے" اردو زبان کا محاورہ ہے، جو ہمارے چینی بھائیوں کو بآسانی سمجھ آ گیا، ہم اب تک نہیں سمجھ پائے، حالانکہ دعویٰ ہمارا یہی ہے کہ اردو زبان نے پنجاب میں جنم لیا اور یہاں پر ہی پروان چڑھی، علامہ محمود شیرانی نے اپنی کتاب میں تمام حقائق وشواہد جمع کر دیے ہیں۔ لیکن بھارت مسلسل خطے کو ایٹمی جنگ میں دھکیلنے کے لئے کوشاں ہے اور عالمی اداروں و بین الاقوامی قوتوں سمیت کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں، بھارت کے جنگی جنون کی سزا کشمیری عوام بھگت رہے ہیں جن کا واحد جرم اسلام سے وابستگی اور پاکستان سے محبت ہے۔ عمران خان نے اپنے آپ کو کشمیری عوام کا وکیل اور ترجمان ڈیکلیئر کیا تھا مگر ایسی وکالت اور ترجمانی کس کام کی جو 5اگست کے اقدامات کی واپسی تو درکنار جموں و کشمیر میں فوجی لاک ڈائون ہی ختم نہ کرا سکے۔
بھارت، کشمیریوں کے وکیل اور ترجمان کی بات اس دن سمجھے گا جس روز اسے یقین ہوا کہ معقول بات نہ سننے کا خمیازہ اسے پٹائی اور رسوائی کی صورت میں بھگتنا پڑے گا بقول حبیب جالب ؎
نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھائو کہ فرعون اسی سے جائے گا
بھارت کی فوجی برتری کا غرور کشمیری عوام عرصہ سے توڑ چکے، چینی بھائیوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی، اقتصادی و معاشی بالادستی کا بھرم کرونا نے ختم کر دیا عوام تنگ ہیں، فوجی مایوس و دل شکستہ اور معیشت ڈانواں ڈول، اب بھی اگر ہم اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیں اور بھارت کو سنبھلنے کا موقع دیتے رہیں تو یہ ہماری کم ہمتی ہے یا سادہ لوحی۔ 27فروری جیسا جواب ہی بھارت کو ہوش کے ناخن لینے پر مجبور کر سکتا ہے۔ 27فروری کا سبق یہی ہے اور چینی فوج کی طرف سے بھارت کی پٹائی کا حاصل کلام بھی۔ قرار دادوں، بیانات، ٹویٹس اور اپیلوں سے بھارت کا حوصلہ بڑھتا اور تکبر میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہم آخر کیا چاہتے ہیں۔؟