Na Ja Us Ke Tahamul Per
Irshad Ahmad Arif95
مالیاتی غبن یا اخلاق با ختگی کا الزام لگنے پر جاپان میں تو خودکشی کا رواج ہے وہاں کے اہل سیاست یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ وہ سنگین جرم کے ملزم قرار پانے کے بعد اپنے بیوی بچوں، اہل محلہ، دوست احباب اور سیاسی رفقا کار کا سامنا کرسکیں گے۔ یہ رکھ رکھائو اور شرم حیا والے لوگ ہیں، سادہ اطوار اور سماجی اخلاقیات پر یقین رکھنے والے۔ اہل مغرب بھی جاپانیوں سے کم نہیں، خودکشی تو خیر وہ نہیں کرتے، سیاست کو خیر باد کہہ دیتے ہیں اور زندگی کے باقی ایاّم گوشہ نشینی میں گزارتے ہیں۔ کسی زمانے میں مسلمان بھی ایسے ہی تھے۔ پاکستان میں مگر سیاست جھوٹ، دھوکہ دہی سازش، فریب کاری، بدعنوانی اور لوٹ مار کا دوسرا نام ہے۔ ایئر مارشل اصغر خان سیاست میں آئے تو ان پر سب سے زیادہ اعتراض یہی رہا کہ موصوف جھوٹ بولتے ہیں نہ مکروفریب کے ہتھکنڈوں سے واقف اور نہ سازشی ذہن کے مالک۔ عمران خان کو بھی آج تک سیاسی جغادریوں اور ان کے خوشہ چینوں نے اس بنا پر سیاستدان نہیں مانا کہ جو دل میں آتا ہے کہہ دیتا ہے اور سرکاری وسائل کو حلوائی کی دکان سمجھ کر نانا جی کی فاتحہ نہیں پڑھتا۔ احتساب عدالت سے میاں نواز شریف کے خلاف دو فیصلوں اور آصف علی زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے اہم رہنمائوں کے خلاف جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد جس ڈھٹائی اور بے شرمی سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنما اور کارکن اپنے قائدین کا دفاع کر رہے اس پر آدمی اس کے سوا کیا کہہ سکتا ہے عبے حیا باش و ہرچہ خوا ہی کنماضی میں اس ڈھٹائی اور بے حیائی سے کرپشن کے قطب میناروں کو فائدہ پہنچتا رہا کہ ہم پیالہ و ہم نوالہ، مستفید اور خوشہ چین ساتھ جڑے رہے۔ ریاستی ادارے اپنی کمزوریوں کی بنا پر سودے بازی پر مجبور ہوئے اور بالآخر احتساب کے عمل سے یہ مکھن سے بال کی طرح نکل گئے مگر تابکے ؎نہ جا اس کے تحمل پر کہ بے ڈھب ہے گرفت اس کیڈر اس کی دیرگیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کاخدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ قدرت کو پاکستان پر رحم آیاریاست نے بالآخر انگڑائی لی، ریاستی اداروں کی حمیت جاگی اور احتساب مشینری متحرک ہوئی۔ آج حالت یہ ہے کہ زرداری جیسا چرب زباں، مفاہمت کا بادشاہ اور سیاست کا پی ایچ ڈی اپنے دیگر ایک سو اکہتر، کاروباری شراکت داروں کے ساتھ ای سی ایل پر ڈال دیا گیا ہے اور کوئی اس کی سننے والا نہیں۔ تازہ اطلاع ہے کہ ترکی بھی شریف خاندان کو طفل تسلی دینے کی پوزیشن میں نہیں، گولن ایجوکیشن فائونڈیشن کو پاکستان کی طرف سے دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان اور اردوان ایک ہی صفحہ پر ہیں یا پاکستان اور ترکی کے مابین تعاون مثالی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر پہلے ہی موجودہ حکومت کو سیاسی اور معاشی تعاون کی یقین دہانی کرا چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ احتساب کی گاڑی اب پوری رفتار سے چلے گی اور کوئی اندرونی یا بیرونی قوت رکاوٹ ڈالنے کے درپے نہیں البتہ اگر دونوں خاندان پلی بارگین پر آمادہ ہوں تو چشم ماروشن دل ماشاد۔ پاکستان کو اپنی لوٹی ہوئی دولت سے دس بارہ ارب ڈالر ہی مل جائیں تو غنیمت ہے کہ کچھ ہاتھ بھی آئیگا اور آئندہ لوٹ مار کا راستہ بھی بند ہو گا۔ پیپلز پارٹی 27دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر کوئی موثر اور پائیدار حکمت عملی ترتیب نہیں دے پائی۔ اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے، ون یونٹ کے قیام اور صوبوں کے حقوق پر ڈاکہ زنی کا بہانہ وہ غنچہ ہے جو بن کھلے مرجھا گیا، کسی نے لائق اعتنا ہی نہیں جانا۔ ویسے بھی کہتے ہیں جھوٹ کے پائوں نہیں۔ یہ تو عام جھوٹ نہیں سفید جھوٹ تھا، کون یقین کرتا۔ مراد علی شاہ کی سندھ حکومت شریک جرم ہے، رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ عام خیال یہ تھا کہ منی لانڈرنگ اور کرپشن کی دلدل میں گوڈے گوڈے ڈوبی پیپلز پارٹی کی قیادت پر کریک ڈائون کے ساتھ ہی وفاقی حکومت کو شائد گورنر راج کا سخت قدم اٹھانا پڑے مگر دو روز وفاقی دارلحکومت میں گزارنے کے بعد میرا تاثر یہ ہے کہ زرداری صاحب کے بعض قابل اعتماد ساتھی اس مکروہ کاروبار کا دفاع کرنے کے لیے تیار نہیں اور لٹیروں کی ڈھال بن کر اپنا سیاسی مستقبل تباہ نہیں کرنا چاہتے لہٰذا امید کی جا رہی ہے کہ بیس بائیس ارکان کا ایک گروپ رضا کارانہ طور پر نئی حکومت کی تشکیل میں مددگار ہو گا۔ نئی صوبائی حکومت کی سربراہی بھی شائد اس گروپ کے حصے میں آئے وزیر اعلیٰ اور وزیر بننا کسے برا لگتا ہے۔ ایم کیو ایم تحریک انصاف اور جی ڈی اے کی مقامی قیادت کو راضی کرنے کے لئے وفاقی حکومت کا ایک وفد کراچی کے لئے پابہ رکاب ہے اور گورنر راج نافذ کئے بغیر شائد ایک ایسی حکومت وجود میں آئے جو عدلیہ، نیب، ایف آئی اے اور دیگر ریاستی اداروں سے تعاون کرے اور احتساب کے عمل کو آگے بڑھائے۔ تحریک انصاف اور عمران خان اگر اس امتحان میں سرخرورہے تو جو دانشور، مشرقی پاکستان کی مثالیں دے کر اسٹیبلشمنٹ کو ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اپنا مُنہ دیکھتے رہ جائیں گے اور عوام ان کے بارے میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ ایں ہم شتر بچہ است۔ یہ پاکستان ہے جاپان یا مغرب نہیں جہاں سیاستدان بددیانتی اور اخلاقی بے ضابطگی کا الزام لگنے پر خودکشی کرتے ہیں یا سیاست سے کنارہ کشی۔ یہاں ثبوت ملنے پر لوگ شرمندہ ہونے کے بجائے دندناتے اور ان کے ہمنوا ریاست کو ڈراتے دھمکاتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ چور نالے چتر۔ ویسے آپس کی بات ہے جس کو یقین تھا کہ اسے کچھ ہوا تو ہمالیہ روئے گا وہ رزق خاک ہو ا، کسی کا کچھ نہ بگڑا، ہمالیہ رویا نہ دریائے سندھ میں طغیانی آئی تو ساری عمر اس کا نام اور پورا صوبہ، صوبے کے وسائل بیچ کھانے والوں سے کس کوکیا ہمدردی ہو گی؟ کیوں ہو گی؟ زر، زن، زمین کا کاروبار جمہوریت کے نام پر ہو یا صوبائی خود مختاری کے نام پر یہ سیاست، کب تک چلے گی؟ پرانی سیاست گری خوار ہےزمیں، میرو سلطاں سے بیزار ہے