تاجربرادری اور بیورو کریسی کو نیب کے دائرہ کار سے نکال کر حکومت نے قومی معیشت کا پہیہ چلانے کی تدبیر کی ہے۔ معیشت کا پہیہ چلا، یا نہیں، اگلے چند ہفتوں میں سب دیکھ لیں گے۔ عام خیال یہ ہے کہ عمران خان کے مفاد پرست حواری انہیں اس گھاٹ پر لے آئے ہیں جہاں شوکت عزیز نے پرویز مشرف کو لا کر اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار کیا اور فوجی آمر اس کے ہاتھوں میں کھیلتے کھیلتے 3نومبر یعنی ایمرجنسی پلس کے انجام سے دوچار ہوا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے قریبی ساتھی جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپنی کتاب"یہ خاموشی کب تک؟" میں ساری تفصیل بیان کی ہے۔ شوکت عزیز کے مشورے پر پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار چودھری کے خلاف کارروائی بھی اس مفروضے پر کی کہ آزاد منش اورطاقتور چیف جسٹس کے فیصلوں سے بیورو کریسی کا مورال پست ہے اور معیشت کا پہیہ جام، ایک بار یہ کانٹا نکل گیا تو پاکستان میں دودھ شہد کی نہریں بہنے لگیں گی اور اقتصادی و معاشی خوشحالی کے ثمرات سے بہرہ ور قوم آپ کو کمال اتاترک کی طرح قومی ہیرو مان لے گی۔ نتیجہ مگر کیا نکلا؟فوجی آمر پہلے والے سواد سے بھی محروم ہو گیا، شوکت عزیز اور اس کے ساتھی اندرون و بیرون ملک مزے کر رہے ہیں اور پرویز مشرف کو عدالتی فیصلے کے تحت غداری کے الزامات کا سامنا ہے۔
عمران خان کی اس بات میں وزن ہے کہ پاکستان میں مختلف مافیاز نے سیاسی، پارلیمانی، معاشی، اقتصادی اور انتظامی سسٹم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ سیاستدانوں، بیورو کریسی اور تاجر برادری کا گٹھ جوڑ ہے، میڈیا کا ایک حصہ بھی اس گٹھ جوڑ سے فیضاب ہونے کے سبب موجودہ حکومت اور اس کی اصلاحات کو ناکام بنانے کے درپے ہے مگر حکمران اب تک اس شیطانی گٹھ جوڑ کو توڑنے میں کامیاب کیوں نہیں ہو پائے؟بیورو کریسی خوش دلی سے کام کرنے پر آمادہ ہے نہ بزنس کمیونٹی سرمایہ کاری پر تیار اور فواد چودھری کے بقول سرکاری اشتہارات پر پلنے والا میڈیا اتنا منہ زور کہ وزیر اعظم اس کے سامنے بے بس و لاچارہیں تو قصور وار کون؟ماڑی سی تے لڑی کیوں سی؟ایک ادنیٰ اخباری کارکن کے طور پر میں میڈیا میں طاقتور کالی بھیڑوں کی موجودگی سے انکار نہیں کرتا، کوئی کر بھی نہیں سکتا، چند سیاسی خاندانوں، سابقہ حکمرانوں کے مراعات یافتہ، این جی اوز کے پروردہ اور پاکستان مخالف قوتوں کے آلہ کارہیں، سارا میڈیا مگر مافیا ہے نہ عمران خان کی سیاسی معاشی اور سماجی پالیسیوں کا ناقد اورہر اینکر، کالم نگار اور اخبار نویس مافیا کا کارندہ۔ عمران خان کے ناقدین میں سے بعض وہ بھی ہیں جو ع
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
حکومت سنبھالنے کے بعد عمران خان اور اس کے اقتدار کے نشے میں چور ناقص میڈیا منیجر اور کم عقل مشیر یہ تک بھول گئے کہ سابقہ حکمران خاندانوں کی لوٹ مار، اقربا پروری، بدانتظامی اور غلط ترجیحات کا پردہ میڈیا نے چاک کیا اور کرپشن کے خلاف مہم کو بھی اس میڈیا نے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جن میڈیا ہائوسز اورمیڈیا سے وابستہ نظریاتی کارکنوں نے اس مہم کا ساتھ دیاان میں سے بیشتر تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد بھی معتوب و محروم رہے کہ دربار داری کے آداب سے واقف تھے نہ اپنی نظریاتی جدوجہد، حق گوئی، بے باکی اور کمٹ منٹ کی قیمت وصول کرنے کے اہل۔
یہ تاثر بھی عام ہوا کہ موجودہ حکمرانوں کا قرب حاصل کرنے کا واحد اور آزمودہ طریقہ یہ ہے کہ انہیں کھل کر بُرا بھلاکہو، جتنی زیادہ مخالفت اور توہین و تذلیل اتنی زیادہ قربت۔ فوج کی مخالفت اضافی خوبی ہے۔ اشتہارات بھی ملیں گے، دعوتیں اور ملاقاتیں بھی ہوں گی اور جائز و ناجائز کام بھی۔ ہر وزیر، مشیر اور وزیر اعظم کے ملاقاتی نے اپنے ذاتی تعلقات خوب نبھائے، سرکاری وسائل سے نوازا بھی اور حتی المقدور عمران خان، عثمان بزدار اور دیگر کی تذلیل بھی کرائی، میڈیا مینجمنٹ اور ہینڈلنگ میں ناکامی کے ذمہ دار عمران خان خود ہیں یا ان کے وہ نااہل، مفاد پرست شہرت کے بھوکے بڑبولے وزیر، مشیر جو گدھے گھوڑے میں تمیز کی صلاحیت سے عاری اور ذاتی مفادات کے اسیر ہیں مگر اپنی ناکامی اور نالائقی کا ملبہ میڈیا پر ڈال رہے ہیں۔ ڈیڑھ سال میں اگر حکمران طبقہ میڈیا سمیت مختلف شعبوں میں موجود مافیا کا سر نہیں کچل سکا بلکہ سنپولوں کو دودھ پلا کر اپنے ایجنڈے کو ڈسوانے کا شوق پورا کرتا رہا تو اب چیخنے چلانے کا فائدہ؟ حکمران شکوہ شکایت نہیں ٹھوس اقدامات کرتے اور ان کے مفید ثمرات سمیٹتے ہیں، نیب جیسے اداروں کے دانت توڑنے کے بجائے اپنی اور مخالفین کی صفوں میں گھسے کرپٹ، قرض خور، ٹیکس چور اور قانون شکن عناصر کی سرکوبی میں تعاون کرتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی قانون شکن خوشامد اور چاپلوسی سے کبھی سدھرے نہ اداروں کو کمزور، طاقتور عناصر کو منہ زور بنا کر ترقی و خوشحالی اور مثالی انتظام و انصرام کی منزل حاصل ہوتی ہے۔
عمران خان کو بیورو کریسی اور بزنس کمیونٹی نے گھیر گھار کر وہاں لاکھڑا کیا ہے جہاں حکمران اخلاقی برتری کھو کر سمجھوتوں کے پاتال میں اترتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک شخص جو کسی سیاستدان اور بیوروکریٹ کے تعاون سے ریاستی ادارے کو مہنگی بجلی بیچ رہا ہے، ایک بیوروکریٹ جو اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے کسی بزنس مین کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہا ہے، قواعد و ضوابط میں نرمی لا کر قومی خزانے میں نقب زنی کا مرتکب ہے جبکہ اُسے طاقتور، وزیر، مشیر اور وزیر اعلیٰ کی پشت پناہی بھی حاصل ہے وہ نیب کو جوابدہ ہے یا نہیں؟ اسے محکمہ اینٹی کرپشن، ایف بی آر یا دوسرا کوئی سرکاری محکمہ ہاتھ لگانا تو درکنار بلا کر پوچھنے کی جرأت نہیں کر سکتا؟ جب تمام تر اختیارات اور دبدبے کے باوجود نیب ابھی تک بڑے مگرمچھوں کا کچھ نہیں بگاڑ پایا، مہنگے وکلا اور نرم مزاج عادل انہیں دستیاب ہیں تو ہومیو پیتھک قسم کے سرکاری محکمے ان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے کیسے دیکھ پائیں گے؟۔ آصف علی زرداری نے ایک بار کہا تھا کہ نیب اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ عمران خان نے اپنے دوستوں کے دبائو اور نااہل و مفاد پرست مشیروں کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر آصف علی زرداری کے بیانئے کو تسلیم کر لیا، نیب کے دانت نکال دیے۔ کرپٹ مافیا کا ایک بیانیہ یہ بھی ہے کہ جمہوریت اور کرپشن میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور احتساب کا عمل جمہوریت کو کمزور کر رہا ہے، مجھے خدشہ یہ ہے کہ جلد یا بدیر عمران خان اس بیانئے کو بھی قبول کرنے پر بھی مجبور ہوں گے۔ انسان کے لئے ایک قدم پیچھے ہٹنا مشکل ہوتا ہے، یہ جھجک دور ہو جائے تو پھر پسپائی اور رسوائی میں دیر نہیں لگتی۔ نیب قوانین میں ترمیم سے معیشت میں بہتری کی اُمید ہے نہ بیورو کریسی کی کارگزاری مثالی ہونے کا امکان۔ اصل رکاوٹ نیب نہیں، حکومت کی کمزور گرفت اور خان صاحب کی ناقص ٹیم ہے جس کی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے بلاول بھٹو کو طعنہ زنی کا موقع ملا کہ کوفے کی سیاست سے مدینہ کی ریاست نہیں بن سکتی۔ میری ناقص رائے میں سارے تاجر و صنعت کار ٹیکس چور اور قرض خور ہیں نہ سارے بیورو کریٹ بلیک میلر اور عدم تعاون کے مریض اور نہ سارامیڈیا مافیاز کا آلہ کار، حکومت کو ڈیڑھ سال بعد خود احتسابی کی عادت ڈالنی، اپنی صلاحیت کار، کار گزاری کا ناقدانہ جائزہ لینا چاہیے کہ یہی تقاضائے دانش ہے۔ نیب ترمیمی آرڈی ننس کے نفاذ سے اپوزیشن کے بیانئے کو تقویت ملی ہے کہ عمران خان نے پرویز خٹک، زلفی بخاری اور اپنے دیگر ساتھیوں کو بچانے کے لئے یہ جوا کھیلا ورنہ پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ مخالفین کا گلا دبانے کے لئے ایف آئی اے، ایف بی آر اور دیگر سرکاری ادارے استعمال ہوں گے اور نیب حکومت کے اشاروں پر چلے گا، کاش عمران خان این آر او پلس کی صورت میں زہر کا یہ پیالہ نہ پیتے۔ احتساب کے نعرے پر کوئی سمجھوتہ نہ کرتے۔ معیشت کا پہیہ پھر بھی نہ چلا، بیورو کریسی نے رفتار بڑھائی نہ تعاون کیا تو؟
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے