برصغیر میں کرنسی نوٹ رائج ہوا تو قدامت پسندوں نے مخالفت میں کمر کس لی، چار سو ننانوے علماء کے دستخطوں سے فتویٰ مرتب ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ کرنسی نوٹ سونے اور چاندی کا متبادل نہیں اور انگریز ہمارے نظام معیشت کو تباہ کرنا چاہتا ہے لہٰذا ازروئے شرع استعمال ممنوع، اہل ایمان لین دین نہ کریں۔ کہتے ہیں یہ فتویٰ برائے توثیق و دستخط دہلی کے عالم دین اور تفسیر حقانی کے مصنف حضرت عبدالحق حقانی ؒ کی خدمت میں پیش کیا گیا، مولانا عبدالحق حقانی نے فتویٰ دیکھا، دلائل پڑھے اور اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا، علماء نے درخواست کی کہ براہ کرم دستخط فرمائیں تاکہ پانچ سو علماء کے دستخطوں سے یہ فتویٰ جاری ہو، مگر آپ نے احتراز کیا اور کہا"دیکھیں میرا فتویٰ نہیں چلے گا، کرنسی نوٹ چل جائے گا۔ فرمان الٰہی ہے ما ینفع الناس فیمسک فی الارض (انسانوں کے لئے مفید چیز زمین سے چپک جاتی ہے) لہٰذا میں دستخط نہیں کروں گا، آپ لوگوں سے بھی درخواست یہی ہے کہ فتویٰ جاری کرنے سے احتراز کریں۔ سادہ لوح علماء نہ مانے، فتویٰ جاری ہوا اور لوگ دنوں میں بھول گئے، کرنسی نوٹ چلا، آج بھی چل رہا ہے۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی ؒاور حضرت عبدالحق حقانیؒ جیسے جیّدعلماء تھے جنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو بتایا کہ کرنسی نوٹ کے استعمال میں قباحت نہیں، آج ان علماء حق کی مومنانہ دور اندیشی پر رشک آتا ہے۔
قصور میرے خیال میں اُن علماء کا بھی نہ تھا، جس معاشرے میں کئی عشرے گزرنے کے بعد بھی کرنسی نوٹ کی حیثیت پر بحث جاری اور پولیو کی ویکسین کو مسلم خواتین میں بانجھ پن پیدا کرنے کی سازش قرار دیا جاتا ہے وہاں ایک صدی قبل کرنسی نوٹ کی مخالفت پر تعجب چہ معنی دارد۔ پولیو بیماری ہے اور بیماری علاج سے ختم ہوتی ہے مگر پولیو زدہ ذہنیت لاعلاج ہے۔ بچپن میں بڑے بوڑھوں سے جب سنتے کہ وہم کا علاج لقمان حکیم کے پاس نہیں تو حیرت ہوتی کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ مگر اب اردگرد دیکھ کر اور پڑھے لکھے لوگوں کی عجیب وغریب باتیں سن کر حیرت نہیں ہوتی؟ گزشتہ روز ترک صدر رجب طیب اردوان کے اعزاز میں تقریب سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ترک ہندوستان میں چھ سو سال تک حکومت کرتے رہے، سوشل میڈیا اور ریگولر میڈیا پر اعلیٰ ملکی اور غیر ملکی اداروں کے تعلیم یافتہ ارکان پارلیمنٹ، سابق وزرائ، دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے شور مچا دیا کہ دوست ملک کے سربراہ کے سامنے پاکستان کی ناک کٹ گئی، عمران خان نے تاریخ مسخ کر دی، یہاں کب ترک حاکم رہے، اگر تاریخ کا علم نہیں تو وزیر اعظم قومی اور بین الاقوامی فورمز پر گفتگو میں محتاط رہا کریں، بولنے سے پہلے تولنے کی عادت ڈالیں۔ راجہ داہر اور رنجیت سنگھ کو سندھ اور پنجاب کا ہیرو سمجھنے والوں کو سب سے زیادہ تکلیف ہوئی کہ برصغیر کے مسلم فاتحین کا تذکرہ کیوں ہوا۔ سوشل میڈیا پر ناقدین کی فوج ظفر موج اُمڈ آئی جس نے عمران خان ہی نہیں اس کے حامیوں کے بھی خوب لتیّ لئے، ان میں سے بعض وہ بھی تھے جو 2015ء میں معرکہ چناکلے کی یاد میں ہونے والی تقریبات میں شرکت کے لئے ترکی جانے کے بجائے برطانیہ سدھارنے پر میاں نواز شریف کی صفائیاں پیش کرتے رہے۔ معرکہ چناکلے میں یورپ کی متحدہ افواج کو مرد بیمار ترکی نے شکست دی تھی۔ میں اڑھائی لاکھ سرفروشوں کی قربانی دے کر اپنے وطن کا دفاع کرنے والے بہادر مجاہدین کی یاد میں ترکی نے صد سالہ تقریبات کا اہتمام کیا تھا، مگر پاکستانی وزیر اعظم فاتح ترکی کے بجائے شکست خوردہ یورپ کی تقریب میں شرکت کرنے جا پہنچے،۔ شائد انہیں خواجہ آصف ایسے کسی تاریخ دان نے سوئے لندن روانہ کیا ہو کہ معرکہ گیلی پولی میں کام آنے والے گوروں کا سوگ منائیں۔ سینیٹر شیری رحمان کی طرح خواجہ آصف کو بھی ترکوں کی چھ سو سالہ حکمرانی کے ذکر پر اعتراض ہے۔ ترک، 1857ء تک تغلقوں، خلجیوں، خاندان غلاماں اور ترکان تیموری (یعنی ظہیرالدین بابر اور اس کے جانشینوں ) کی صورت میں چھ سو سال سے زائد عرصہ تک برصغیر ہند میں حکمران رہے، صفوی اور سلجوق بھی ترک تھے، ایران سے مصر تک عرب و عجم تک جن کا سکّہ چلتا تھا، ترکان عثمانی کا علم تو خیر ایشیا، یورپ اور افریقہ کے ایک حصے پر لہرایا اور آج بھی یورپ خلافت کا نام سن کر جھرجھری لیتا ہے کہ کہیں ایک بار پھر خلافت عثمانیہ کا احیا تو نہیں ہونے لگا۔ مگر بغض عمران کے مارے پاکستانی سیاستدانوں، دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے مذاق اڑانا تھا، خوب اڑایا۔ جہالت اور ہٹ دھرمی میں نیم خواندہ ملائوں کو مات دیدی۔
جس معاشرے کے اہل دانش و سیاست کا مبلغ علم سنی سنائی کہانیوں تک محدود ہو وہاں کوئی ابلۂ مسجد یا تہذیب کا فرزند پولیو ویکسین کی مخالفت کرے تعجب کی بات نہیں، ہمارے اردگرد ایسے ستم زدہ گھرانے موجود ہیں جہاں لاعلمی، غربت، سستی یا غفلت کے سبب پولیو کے قطرے نہ پلانے کا نتیجہ معذور بچوں کی پیدائش کی صورت میں برآمد ہوا اورپورے خاندان کے لئے زندگی بھرکا روگ بن گیا۔ پاکستان ایٹمی قوت ہے اور دہشت گردی کے عفریت کو شکست دینے والے ممالک میں سرفہرست مگر پولیو جیسی مہلک بیماری اب بھی معاشرے کے لئے کلنک کا ٹیکہ ہے۔ باعث ندامت بات یہ ہے کہ دنیا میں صرف تین ممالک بچ گئے ہیں جو پولیو سے کامل نجات نہیں پا سکے۔ نائجیریا، افغانستان اور پاکستان۔ علمی اور معاشی طور پر کمزور ترین افریقی ممالک میں یہ مہلک اور منحوس مرض عنقا ہے اور ہندوستان و بنگلہ دیش میں بھی مفقود، وجہ؟ ریاستی اداروں کی سہل پسندی، عوام کی توہم پرستی اور ابلہان مسجد کی دقیانوسی ذہنیت، کرنسی نوٹ اور لائوڈ سپیکر کی مخالفت میں پیش پیش ذہنیت کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی سطح پر معاشرے میں اب بھی موجود ہے اور اس پولیو زدہ ذہنیت کو جڑ سے اکھاڑنے کی سنجیدہ سعی و تدبیر کا دائرہ محدود۔ مگر تابکے؟ خلق خدا کے لئے مفید ہر عمل اور ایجاد بالآخر جڑ پکڑ رہی ہے کہ یہی سنت الٰہی ہے اور لا تبدیل لکلمات اللہ۔ پولیو اور پولیو زدہ ذہنیت کو شکست دینے کے لئے حکومت کو قوم کا تعاون درکار ہے۔ بین الاقوامی ادارے اور انسانی ہمدردی کے خوگر افراد ہماری نوجوان نسل کو پولیو جیسے موذی مرض سے نجات دلانے کے لئے پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔ مگر ہمارے اندر شکوک و شبہات کا بیج بونے والے ناعاقبت اندیش موجود ہیں، پولیو رضا کاروں پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ففتھ کالمسٹ ملک و قوم کے دشمن ہیں اورنوجوان نسل کا مستقبل تاریک کرنے کے مجرم، یہ صرف جہالت نہیں قوم و ملک دشمنی ہے۔ یہ پولیو زدہ ذہنیت بھی ضرب عضب اور ردالفساد طرز کے آپریشن کی متقاضی ہے۔