8مارچ کو عورت مارچ کے منتظمین اور شرکاء کی ثابت قدمی قابل داد ہے، ثابت قدمی نہیں، بلکہ پیش قدمی۔ ناقدین کے تمام دعوئوں، جملہ خدشات کو انہوں نے درست ثابت کیا، حامیوں اور مخالفین پر واضح کر دیا کہ یہ حقوق نسواں کی تحریک ہے نہ پاکستان کے طول و عرض میں خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف جذباتی ردعمل۔ کاروکاری، ونی اور سوارا کی بے ہودہ رسموں کی مخالفت مطلوب تھی تو مارچ ان جاگیرداروں کے خلاف ہوتا جو جرگوں کی سربراہی اور خواتین کے علاوہ ان کے والدین، بھائیوں، عزیز و اقارب کے خلاف فیصلے فرماتے ہیں، یہ خواتین و حضرات ان سیاسی اور سماجی تنظیموں کے دست و بازو بنتے جن میں جاگیردار اور وڈیرے براجمان ہیں نہ خاندانی اور موروثی قیادت کا کرونا وائرس موجود۔ یہی جاگیردار اپنی بچیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیتے، وسیع و عریض جاگیروں کو بچانے کے لیے بیٹیوں، بہنوں کی شادیاں نہیں کرتے، کرنی پڑیں تو قرآن مجید سے کر کے فرض ادا کر دیتے ہیں، مولوی بے چارہ چلاتا رہے کہ یہ دین سے مذاق اور مذہبی جرم ہے، کوئی سن کر نہیں دیتا، دفاتر، کاروباری مراکز میں بدسلوکی اور کم تنخواہوں کا معاملہ بھی پدر سری نظام، مذہبی روایات یا مذہب کا پیدا کردہ نہیں کہ یہاں مردوں کو بھی کوئی حکومت ریاست کا طے کردہ کم از کم معاوضہ نہیں دلا سکی، ناانصافی اور ظلم کا نشانہ اس معاشرے کیا دنیا بھر میں جس قدر خواتین، اس سے کہیں زیادہ مرد ہیں۔ جہیز کا مطالبہ اور بیٹے کی پیدائش پر اصرار صرف مرد نہیں کرتے، خواتین بھی ہاں میں ہاں ملاتی ہیں، بیشتر صورتوں میں خواتین سب سے آگے۔ زیادہ تر خواتین ہی بیٹی کی پیدائش پر بین ڈالتی ہیں، ماں، دادی، نانی اور ساس۔
یہ وہ حقائق ہیں جنہیں صرف وہی شخص جھٹلا سکتا ہے جس کے دل میں خوف خدا اور آنکھ میں شرم و حیا باقی نہیں، یا وہ کسی بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ عورت مارچ میں مگرہوا کیا؟ پچھلے سال لہرائے جانے والے ایک ایک پلے کارڈ اور پوسٹر کا میڈیا پر پوسٹ مارٹم ہوا اور بیشتر منتظمین نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ ان سے ہمارا باضابطہ تعلق نہیں، بیرونی فنڈنگ اور ایجنڈے سے لا تعلقی ظاہر کی گئی اور "میرا جسم میری مرضی"(My body My Choice) کے غیر ملکی نعرے کی ایسی ایسی وضاحت سامنے آئی کہ آدمی سوچنے پر مجبور ہوا، یہ لوگ عقل سے پیدل ہیں یا پوری قوم کو احمق سمجھتے ہیں، مگر امسال ایک بار پھر نہ صرف سابقہ غلیظ، بے ہودہ اور دلآزار پلے کارڈ منظر عام پر آئے بلکہ Moreover نئے، زیادہ اشتعال انگیز اور گھٹیا جملوں کا اضافہ ہوا۔ یہ فحش جملے کوئی شریف آدمی لکھ اور بول سکتا ہے نہ گھر میں بچوں کے روبرو دہرانے کا متحمل۔ میں عرصہ دراز سے ٹی وی پروگراموں اور کالموں میں یہ خدشہ ظاہر کر رہا ہوں کہ عورت مارچ اور حقوق نسواں کی فارن فنڈڈ تحریک کا اولین مقصد جسم فروشی، اسقاط حمل اور ہم جنس پرستی کا فروغ ہے مگر ہمارے خوش فہم دوست اسے دور کی کوڑی قرار دیتے اور ہاتھ ہولا رکھنے کی تلقین کرتے۔ گزشتہ روز ایک پلے کارڈ پر اداکار احمد بٹ کی تصویر تھی اور انگریزی میں درج تھا، We are here to legalise prostitution۔ دیگر پلے کارڈز پر درج نعروں میں بہن بھائی، باپ بیٹی، نانا، نواسی، میاں بیوی کے مقدس رشتوں اور باہمی تعلقات کے حوالے سے جو نعرے درج تھے وہ اس بازار کا روزمرہ تو ہو سکتے ہیں، ایک ایسے معاشرہ کا ہرگز نہیں جہاں ہر سطح پر شرم و حیا ابھی باقی ہے، یہ بے شرم ٹولہ بیرونی اشارے، فراہم کردہ وسائل پر یہی شرم و حیا ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔
خواتین مارچ کے منتظمین کو پیش قدمی کی جرأت یوں ہوئی کہ اس بار حکومت کے بعض ذمہ دار ارکان نے انفرادی اور پیپلزپارٹی نے اجتماعی طور پر حمایت کا اعلان کیا، معاملہ عدالت میں گیا تو اس نے کھلی چھٹی دیدی اور میڈیا کا ایک حصہ کھل کر پشت پناہی کرنے لگا۔ کسی زمانے میں کعبے کو صنم خانے سے پاسبان ملا کرتے تھے اب معاملہ الٹ ہے۔ کردار سازی اور تحفظ اخلاق و قانون کے ادارے سوشل فیبرک توڑنے میں مددگار ہیں۔ اسلام، جمہوریت اور شہری آزادیوں کا نام لے کر قومی اخلاق و کردار اور سماجی اقدار و روایات پر شب خون مار کر قوم سے داد طلب کی جاتی ہے۔ پیسے کی ہوس، شہرت، مقبولیت کی بے پایاں طلب اور مغرب سے مرعوبیت ہے کہ انسان خدا کے خوف اور روز جزا کی یاد سے عاری ہے۔
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا
ایک کروڑ آبادی کے شہر لاہور میں شرکاء کی تعداد سینکڑوں تک محدود رہی۔ گویا زندہ دلان لاہور نے چھٹی کے روز بھی عورت ذات کے ساتھ نا انصافی کا یہ تماشہ دیکھنا گوارا نہ کیا۔ اقبالؔ نے فرمایا تھا ؎
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
اہل لاہور نے 8 مارچ کو ثابت کیا کہ یہ تصویر کائنات میں رنگ بھرنے والی خواتین کے بجائے بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا مفاد پرست ٹولے کا شو ہے جس کا مقصد پاکستان کے خاندانی نظام کی بیخ کنی، اسلامی تشخص پر کاری ضرب اور عالمی سطح پر بدنامی میں اضافہ ہے۔ دیہاڑی پر لائی گئی بعض سادہ لوح غریب خواتین نے کیمرے کے سامنے کسی میڈم کا ذکر کیا مگر عورت مارچ کے مطالبات اور نعروں سے لا تعلقی ظاہر کی۔ میڈیا کے ایک حصے کی یکطرفہ رپورٹنگ کا شاہکار اسلام آباد کا واقعہ ہے۔ جہاں عورت مارچ کے ترقی پسند مرد شرکاء نے حیا مارچ کی خواتین پر آوازے کسے، پتھرائو کیا اور لڑائی جھگڑے کو دعوت دی مگر میڈیا نے پتھرائو کی ذمہ داری حیا مارچ پر ڈالی، بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن۔ ایک خاتون رپورٹر نے ٹی وی پر خبر نامے کے دوران جب یہ بتایا کہ پتھرائو عورت مارچ کے شرکاء کی طرف سے ہوا تو نیوز کاسٹر نے اس کی بات کاٹ دی۔ عورت مارچ پر پتھرائو والا ٹکر بدستور چلتا رہا۔
عورت مارچ کے منتظمین سے کسی کو شکایت نہیں کہ انہوں نے اپنے نظرئیے، عقیدے اور ایجنڈے کے مطابق پلے کارڈ لہرائے، نعرے لگائے اور مذہب، مذہبی اقدار، سماجی روایات کے خلاف بغض و عناد، خبث باطن ظاہرکیا۔ مرد و عورت کے مابین اسلامی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے ناجائز تعلقات کی وکالت کی، مقدس رشتوں پر کیچڑ اچھالا اور پاکستان کو ایک ایسی ریاست کے طور پر پیش کرنے کی بھرپور سعی کی جہاں باپ، بھائی، دادا، نانا، مرد کے روپ میں اپنی بیٹیوں، بہنوں، پوتیوں، نواسیوں کو ہوس کا نشانہ بناتے اور اپنی عیاشی کے لیے نکاح جیسی "فضول رسم" کو برقرار رکھنے پر مصر ہیں، ان کے بقول معاشرے کے یہ ظالم اور جابر کردار عورت کو اپنی مرضی کے مطابق ایک سے زیادہ مردوں سے مراسم قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ سرعام شراب نوشی، ننگ دھڑنگ لباس اور بوس و کنار سے روکتے ہیں اور بچوں کی پرورش، خاوند کی خدمت، تواضع پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ جرم ناقابل معافی ہے اور مستوجب تعزیر۔ پلے کارڈز پر درج نعروں سے اس کے سوا مطلب اخذ نہیں کیا جا سکتا، تاویل کرنے والا منافق ہے یا عیار، گلہ ریاست مدینہ کے علمبردار حکمرانوں اور پاکستان کے نظریاتی تحفظ کی یقین دہانی کرانے والے اداروں سے ہے جو محض سیاسی مصلحتوں اور غیر ملکی آقائوں کے خوف سے شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کیے یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں، نہیں جانتے کہ اخلاقی زوال کے شکار معاشرے میں حائل نظام کے خلاف بغاوت کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اپنے سماجی ڈھانچے کے حوالے سے حساس معاشرہ ردعمل کا شکار ہوا تو مختصر ٹولے کو غیظ و غضب سے کون بچائے گا؟ کیا ماضی قریب کے تجربات سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔