شیخ رشید احمد کی جگتوں سے ہر وہ شخص محظوظ ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ذوق لطیف سے نوازا ہے کہ جگ بیتی کا تڑکہ لگا ہوتا ہے، تازہ ترین جگت میں انہوں نے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کو "ریڈی میڈ اپوزیشن قرار دیا" جو چنداں غلط نہیں، مجھے یاد ہے 2002ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) کے بیس اکیس ارکان قومی اسمبلی میں پہنچے تو ان میں سے بعض جنرل (ر) پرویز مشرف کے ستائے ہوئے تھے اور بدلہ لینے کے جنون میں مبتلا، 1999ء تک ہیوی مینڈیٹ کے خمار سے سرشار منحنی پارلیمانی پارٹی کا پہلا اجلاس ہوا تو ان پرجوش ارکان نے دل کے پھپھولے پھوڑے اور جاوید ہاشمی، چودھری نثار علی خاں اور دیگر لیڈروں کو جوش دلایا کہ ہم سب مل کر کسی قسم کی کمزوری دکھائے بغیر فوجی حکومت کی بھر پور مخالفت اور پارلیمنٹ کے فلور سے پرویز مشرف کے نظام اور نامزد حکومت کے خلاف کلمہ حق بلند کریں۔ قیادت جلاوطنی کی سزا بھگت رہی ہے اور ہماری پارلیمانی قوت دو تہائی اکثریت سے ڈیڑھ دو درجن تک محدود ہو چکی اب ہمارے اور ہماری قیادت کے پاس گنوانے کو کچھ نہیں پھر ڈر کاہے کا۔
کہتے ہیں کہ چودھری نثار علی خاں نے جذباتی ارکان کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دیا اور کہا کہ آپ کے باقی ساتھی بدترین شکست سے دوچار گھروں میں بیٹھے اپنے زخم چاٹ رہے ہیں، اس حشر سے آپ بھی دوچار ہو سکتے تھے لہٰذا موجودہ کامیابی کو غنیمت سمجھیں اور حالات سے سبق سیکھیں۔ مسلم لیگ کو بچانا ہے تو وہی راستہ بہتر ہے جو قیادت نے اختیار کیا، سمجھوتہ اور سر نیچے کر کے اچھے وقت کا انتظار، اپنی باغیانیہ طبیعت کے ہاتھوں مجبور مخدوم جاوید ہاشمی نے گمنام شخص کا لکھا ایک ایسا خط پریس کانفرنس میں پڑھ دیا جو صحافیوں اور ارکان اسمبلی میں کئی روز قبل بٹ چکا تھا اور اکثریت ردی کی ٹوکری میں پھینک کر اسے بھول چکی تھی۔ اگلے پانچ سال ہاشمی صاحب نے اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیل میں گزارے، حالت یہ تھی کہ چودھری نثار علی خان اور سردار ذوالفقار خان کھوسہ کے خوف سے پاکستان میں موجودقیادت ضمیر کے اس قیدی کو ملنے سے گھبراتی تھی اور جدہ کے مکین آنے جانے والوں سے پوچھا کرتے "یہ کیا ڈرامہ ہے" مسلم لیگ (ن) کے قائمقام صدر کی رہائی کے لئے خواجہ سعد رفیق اورجاوید لطیف نے لاہور میں احتجاجی ریلیوں کا آغاز کیا تو وہی جانتے ہیں کہ انہیں کیا پیغام ملا؟ میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خاں کی درپردہ سعی و تدبیر اور میاں نواز شریف کی جدہ میں دوران قیام نیک چلنی کے علاوہ بے نظیر بھٹو کی فوجی آمر سے مفاہمت کے سبب 2007ء میں شریف خاندان کی وطن واپسی ممکن ہوئی اور 2013ء میں ایک بار پھر اقتدار کے مزے لوٹنے کا موقع ملا، جلا وطنی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ درپردہ مفاہمت سے شریف خاندان نے دو سبق سیکھے، ایک یہ کہ اس قوم اور سیاسی کارکنوں کا حافظہ انتہائی کمزور ہے وہ سیاستدانوں کی کہہ مکرنیوں کو یاد رکھتے ہیں نہ آمریت سے مفاہمت کو جرم سمجھتے اور نہ اپنے لیڈروں کے بلند بانگ دعوئوں پر غور کرتے۔ دوسرا یہ کہ جمہوریت، سول بالادستی اور عوام کے حقوق کی جنگ کا نعرہ اپنے پیروکاروں کو بے وقوف بنانے اور قومی میڈیا، دانشور کلاس کی ہمدردیاں بٹورنے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن حقیقی جدوجہد اور قید و بند، مالی نقصان اور دیگر مشکلات کی صورت میں اس کی قیمت چکانا اول درجے کی بے وقوفی ہے۔ فیض احمد فیض اور حبیب جالب کی شاعری سے قوم کے دل تو گرمائے جا سکتے ہیں، تجزیہ کاروں، کالم نگاروں اور خوش فہمی کے دائمی مرض میں مبتلا اہل قلم و کیمرہ سے داد سمیٹنا بھی ممکن ہے مگر اقتدار کی منزل تک پہنچنے کا تیر بہدف نسخہ ایک ہے جو ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو، چودھری برادران، شوکت عزیز، آصف علی زرداری اور دیگر نے آزمایا اور من کی مراد پائی۔ ایوان اقتدار سے نکالے جانے کے بعد میاں نواز شریف نے خلائی مخلوق اور عدلیہ کو للکارا، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کیا تو 2000ء میں دس سالہ معاہدے کے اسباب و محرکات سے واقف لوگ بخوبی جانتے تھے کہ یہ بھی اسٹیبلشمنٹ سے نئی سودے بازی کی آزمودہ ترکیب ہے۔ شریف خاندان گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کی پرانی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور میاں نواز شریف و مریم نواز کی مزاحمتی، میاں شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی کا مقصد ایک ہے، شریف خاندان کے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات، اقتدار نہیں تو سیاسی جدوجہد کے دوران پیش آنے والی مشکلات سے فرار ہی سہی، اُمید بر آنے تک بیرون ملک قیام اور اپنے مخالفین کو محروم اقتدار کرنے کے لئے درپردہ جوڑ توڑ۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سروسز چیفس کے تقرر اور مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے فیصلہ نہ سناتے، یہ معاملہ پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے پیش نہ ہوتا تو "ووٹ کو عزت دو" کے بیانیہ کا ڈھول مزید کچھ عرصہ تک خوش فہم عناصر کی تسکین طبع اور عوام و سیاسی کارکنوں کی گمراہی کے لئے پیٹاجاتا اور داد پاتا مگر عدالتی فیصلے کے بعد اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ(ن)، شریف خاندان کی طرف سے حکومتی اقدام کی غیر مشروط حمائت نے ڈھول کا پول کھول دیا، صاف نظر آ گیا ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
مسلم لیگ کے جولیڈرو کارکن اور "بیانیے" کی بدہضمی میں مبتلا دانشور و تجزیہ کار مضطرب و پریشان ہیں، قصور ان کا اپنا ہے، غلط فہمی میں مبتلا وہ تھے، شریف خاندان کا کوئی فرد نہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی سے کوئی پوچھ لیتا تو وہ اپنے تلخ تجربات شیئر کرتے اور دل خوش فہم کو اُمیدیں وابستہ کرنے سے روکتے۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کو شیخ رشید احمد انہی تجربات کی بنا پر "ریڈی میڈ اپوزیشن" کہتے ہیں یہ محض پھبتی نہیں، اظہار حقیقت ہے انہیں داد ملنی چاہیے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کو ریڈی میڈ اپوزیشن کی صورت میں قدرت کا تحفہ ملا ہے، اب ان کے راستے میں بظاہر کوئی سیاسی رکاوٹ نہیں۔ وہ چاہیں تو اپنی انتھک محنت، ریاضت، اہلیت، حکمت عملی اور خلوص سے اپنے باقی ماندہ دور اقتدار میں پاکستان اور اس کے عوام کو ترقی، خوشحالی، آزادی، خود مختاری اور قومی عزت، وقار کے ثمرات سے مستفید کر سکتے ہیں۔ خود کفالت و خود انحصاری کا حصول ممکن ہے اور افراد کے بجائے اداروں کی مضبوطی کے دعوئوں کی تکمیل آسان، ریڈی میڈ اپوزیشن تعاون پر مجبور ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اپوزیشن موقع ملنے پر موجودہ حکومت کی کمزوریوں خامیوں اور نالائقی کو اجاگر نہ کرے اور عمران خان کے ساتھی اقتدار کی غلام گردشوں میں گم اقتدار کے نشے سے چور نااہلی اور نالائقی کے ریکارڈ قائم کرنا شروع کر دیں، کوئی ان سے پوچھنے والا نہ ہو، امریکہ، ایران چپقلش کے دوران امریکی وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور دیگر عہدیداروں کا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رابطہ اور تبادلہ خیال اہل فکر و نظر کے لئے چشم کشا ہے، اپوزیشن کو سمجھ آ گئی ہے کہ اقتدار و اختیار کا مرکز کہاں ہے؟ حکمرانوں کو بھی احساس ہے تو وہ کارکردگی اور عوامی شکایات کے ازالے پر توجہ دیں۔ عوام اپنے خوابوں کی تعبیر مانگتے ہیں، فری ہینڈ ملنے کے بعد حیلے بہانے کی گنجائش نہ زیادہ دیر مہلت ملنے کا امکان؟ پیش کر غافل عمل کوئی اگردفتر میں ہے۔