بیماری اور بھوک کا علاج تو ہے، کرونا بھی آج نہیں تو کل انشاء اللہ لاعلاج مرض نہیں رہے گا، مگر طمع اور لالچ کا کیا علاج؟ عمران خان نے رسک لیا، ہر طرح کے دبائو کے باوجود مکمل لاک ڈائون کی طرف نہیں گیا، ٹیسٹوں کی شرح میں اضافے کے ساتھ مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے یہ عوام کی بے احتیاطی اور حکومتی و طبی ہدایات سے گریز کا نتیجہ ہے۔ پرہیز کے ہم عادی نہیں، ڈاکٹر کے کلینک کا رخ عموماً ہم اس وقت کرتے ہیں جب مرض بگڑنے لگے، معمولی نزلہ، زکام، کھانسی اور بخار کا علاج قدیم ٹوٹکوں یا سنے سنائے نسخوں سے کرتے ہیں، زندگی بچانے والی ادویات تک کسی مستند ڈاکٹر کی تشخیص اور ہدائت کے بغیر استعمال کر تے اور نقصان اٹھاتے ہیں، کرونا کو بھی محدود طبقے کے سوا کسی نے سنجیدہ لیا نہ وقتاً فوقتاً جاری ہونے والی ہدایات پر عمل کیا، عمران خان کا مخمصہ مگر یہ تھا کہ کروڑوں کی آبادی کو زبردستی گھروں میں بٹھا دیا تو ان پانچ چھ کروڑ لوگوں کا کیا بنے گا جو صبح سے شام تک محنت مزدوری کرتے، بمشکل اتنا کچھ کماتے ہیں جس سے اپنے اور بیوی بچوں کے لئے دو وقت کی دال روٹی کا اہتمام کر سکیں، حکومت سے پہلے اہل خیر میدان میں نکلے، زلزلے اور سیلاب کے ہنگام مختصر مدت میں دور دراز کے علاقوں کے ضرورت مندوں کے گھر بھر دینے والے فلاحی ادارے اور مخیر خواتین و حضرات۔
وفاقی حکومت نے بھی صوبائی حکومت کے تعاون سے ہر ضرورت مند خاندان کو بارہ ہزار روپے کی رقم دینے کا فیصلہ کیا ہے مگر اس رقم کی تقسیم سے پہلے یہ اطلاعات میڈیا کی زینت بن رہی ہیں کہ پیشہ ور گداگروں اور نوسر باز منگتوں نے ابھی سے راشن اکھٹا کر کے بازاروں میں بیچنے کا آغاز کر دیا ہے، گزشتہ روز ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں ایک نہیں کئی اشخاص آٹا، چینی، گھی اور دیگر اشیا دکانوں پر سستے داموں بیچ کر شیمپو، صابن، سگریٹ اور دیگر اشیا کے علاوہ نقدی طلب کر رہے ہیں۔ 2005ء کے زلزلے میں مجھے باغ، مظفر آباد، بالا کوٹ اور 2010ء کے سیلاب میں رحیم یار خان، راجن پور، تونسہ شریف اور دیگر علاقوں میں یہ تجربہ ہوا کہ آپا دھاپی، لوٹ مار، بے ایمانی دوسرے ضرورت مندوں کی حق تلفی کا کلچر نچلی سطح تک سرایت کر گیا ہے۔ غریب طبقہ بھی موقع ملنے پر کسی سے پیچھے نہیں رہتا، پیشہ ور تو ایسے مواقع پر سرگرم ہوتے ہی ہیں لیکن جنہیں ہم ضرورت مند سمجھتے ہیں وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ ایک آدھ جگہ تو یہ مشاہدہ بھی ہوا کہ دو کمروں کے گھر میں ایک کمرہ راشن سے بھرا ہے اور زبان پر یہ شکائت کہ حکومت نے ہم بے چاروں، حالات کے ماروں کے لئے کچھ کیا نہیں، کئی لوگوں نے یہ دعائیں کیں کہ اللہ کرے، سیلاب ہر سال آتا رہے، تاکہ پورا سال محنت مزدوری نہ کرنی پڑے، حکومت اور فلاحی اداروں کی امداد سے ہی کام چلتا رہے۔
خدشہ اب بھی یہی ہے کہ حکومتی اور فلاحی اداروں کی امداد سے بیشتر غیر ضرورت مند اور لالچی افراد و خاندان مستفید ہوں گے اور یہ نہ صرف دوسروں کی حق تلفی کریں گے بلکہ فصل کی کٹائی کے موقع پر کھیت مزدور ملنا مشکل ہو جائے گا۔ زمینداروں کو یہ تجربہ 2010ء میں ہوچکا، عمران خان تعمیراتی شعبے کی بحالی کے لئے کوشاں ہیں، لیکن اندیشہ یہ ہے کہ جسے گھر بیٹھے بارہ ہزار روپیہ نقد اور دو ماہ کا راشن مفت مل گیا، وہ کام میں دلچسپی نہیں لے گااور یومیہ اُجرت بھی بڑھا ئے گا، کام چوری ہمارے اجتماعی مزاج کا حصہ ہے اور "کم محنت زیادہ معاوضہ" ہمارا قومی ماٹو۔ اس حوالے سے سابق وزیر اعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی، پیر صاحب پگاڑا کا ایک واقعہ سناتے ہیں جو کبھی پھر سہی، حکومت نے یہ اچھا فیصلہ کیا کہ وفاق اور صوبے الگ الگ نہیں مل جل کر مستحق خاندانوں کی امداد کریں گے۔ مختلف فلاحی اداروں کے مابین بہتر کوآرڈینیشن کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں مگر ایشو یہ نہیں، اخلاقی گراوٹ ہمارا اصل مسئلہ ہے۔ تمام سرکاری ادارے سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں مگر ان پڑھ یا کم تر سطح کے لوگ نہیں، اچھے خاصے پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ بھی ان ہدایات پر عمل پیرا نہیں، تفریحی مقامات پر بچوں کے ساتھ پکنک منانے والے غریب اور پسماندہ لوگ نہیں زیادہ ترمتوسط طبقہہے جس کے گھر میں ٹی وی ہے اور جو اِدھر اُدھر سے بھی کورونا کی تباہ کاریوں کے بارے میں سنتااور ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اُڑا دیتا ہے۔
عوام کی اخلاقی تربیت سیاستدان نے کی نہ استاد اور مولوی نے اور نہ معاشرے کو رہنمائی فراہم کرنے کے دعویدار میڈیا نے۔ زلزلہ زدگان اور سیلاب متاثرین کا مال جب ارب پتی حکمرانوں کو ہڑپ کرتے شرم نہ آئی تو عام آدمی سے، جو ظاہر ہے ان میں سے کسی کا پیرو کار ہے، کوئی آخر کیا توقع کرے۔ غالباً 1975-76ء میں بشام کا تباہ کن زلزلہ آیا تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر الزام لگا کہ انہوں نے امدادی رقوم میں خرد برد کی اور فرانس میں اکائونٹ کھولے قائد عوام کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ سیلاب زدگان کے لئے ترک صدر طیب رجب اردگان کی اہلیہ محترمہ کے قیمتی ہار اور برطانوی امداد کا قصّہ قارئین بخوبی جانتے ہیں پرانی بات نہیں، اعلیٰ مناصب پر فائز ہمارے متمول حکمران امدادی سامان دیکھ کر طمع اور لالچ پر قابو نہیں پا سکتے، کمینگی پر اُتر آتے ہیں تو ایسے شخص سے کیا گلہ جسے پیٹ بھر کر کھانا بھی کسی مالدار کی بیٹی کی شادی یا بیگم کے قلوں پر نصیب ہوتا ہے، اپنی شبانہ روز محنت سے وہ روکھی سوکھی کھا لے تو غنیمت ہے، تاہم یہ دوسروں کی حق تلفی کر کے زیادہ سے زیادہ راشن سمیٹنے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح سرکاری امداد میں خرد بُرد کا جواز نہیں کہ حکومت چشم پوشی کرے، سرکاری خزانے سے اربوں روپے کی امداد کے بعد تعمیراتی شعبے کو لاک ڈائون سے مستثنیٰ قرار دینے کی منطق بھی سمجھ سے بالاتر ہے، اگر چین کا تجربہ یہ ہے کہ سماجی فاصلہ، گھروں میں موجودگی اور احتیاط ہی کورونا سے بچائو کی تدبیر ہے تو پھر لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد کو گھروں سے نکال کر گلی محلوں میں لانا کہاں کی دانش مندی ہے، تعمیراتی شعبے سے کم و بیش بیس پچیس کاروبار وابستہ ہیں، جب مارکیٹیں کھل گئیں، آمدو رفت شروع ہو گئی، ویگنوں، بسوں میں جانوروں کی طرح انسانوں کو ٹھونس کر منزل پر پہنچانے کا سلسلہ چل پڑا تو کہاں کا سماجی فاصلہ اور کون سی احتیاط؟ ۔ زائرین، تبلیغی جماعت اور مذہبی اجتماعات کو روک کر مستری، مزدوروں کے ہجوم کو جمع ہونے کی اجازت دینا، وبا سے بچائو کی تدبیرہے یا پھیلانے کا اقدام؟ ایک بار پھر سوچ لیا جائے؟ اللہ نہ کرے کہ بھوک کے بجائے انسان طمع، لالچ، اور بے تدبیری کی بھینٹ چڑھ جائیں۔