Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Thokrain Khate Phiro Ge Un Ke Dar Per Per Raho

Thokrain Khate Phiro Ge Un Ke Dar Per Per Raho

یہ وقت بھی آنا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ عرب امارات کا حاصل یہ ہے کہ دونوں ممالک دفاعی اور تجارتی روابط بڑھانے پر متفق ہیں۔ شیخ زید بن سلطان النہیان پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے اور ہر سال کئی ماہ رحیم یار خان میں گزارتے۔ دوسری عرب ریاستوں کے حکمرانوں کو بھی پاکستان میں سیاحت اور شکار کی سہولتیں حاصل ہیں۔ متحدہ عرب امارات سے ہمارے تعلقات صرف ایک بار بگڑے جب نواز حکومت نے سعودی عرب کی طرف سے تعاون کی فرمائش کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لا کر دوست ملک کی تضحیک کا سامان کیا۔ سعودی عرب تو خیر اس موقع پر خاموش رہا مگر متحدہ عرب امارات کی قیادت نے برملا ردعمل ظاہر کیا۔ جوابی اقدام کے طور پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو بلا کر غیر معمولی پذیرائی کی۔ ساٹھ کے عشرے میں عرب ریاستوں کے حکمرانوں کے لیے صرف کراچی نہیں پاکستان کے کئی دیگر شہر بھی پرکشش تھے۔ آج کل دولت مند پاکستانی جتنی کشش دبئی میں محسوس کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ۔ کراچی کی ترقی تو چینیوں کو بھی مسحور کرتی تھی۔ ابوظہبی کے حکمران شیخ زاید بن سلطان النہیان کی دوستی سکھر کے قبائلی سرداروں سے تھی اور فیلڈ مارشل ایوب خان سے تفصیلی ملاقات ان کی آرزو۔ الطاف گوہر نے فیلڈ مارشل کو قائل کیا کہ وہ نوجوان شیخ زاید سے ملیں جو اپنے ترقی پسندانہ خیالات کی وجہ سے ابوظہبی کو جدید، خوشحال اور سیاحوں کے لیے پرکشش ریاست میں تبدیل کرنے کے خواہش مند ہیں، تیل کی دریافت کے سبب دولت سے مالا مال یہ ریاست جلد ہی خوشحال مملکت میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایوب خان راضی ہو گئے۔ شیخ زاید بن سلطان النہیان سرکاری طیارے پر سکھر سے راولپنڈی پہنچے۔ ان کا استقبال کمشنر راولپنڈی نے کیا۔ معزز مہمان سٹیٹ گیسٹ ہائوس میں ٹھہرائے گئے اور چند روزہ آئو بھگت کے بعد یہ کہہ کر رخصت کر دیئے گئے کہ صاحب صدر خاصے مصروف ہیں۔ شیخ زاید کا رحیم یار خان اور سکھر میں استقبال ہمیشہ ڈپٹی کمشنر عہدے کا سرکاری افسر کرتا اور 1973ء کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں پہلی بار انہیں صدر فضل الٰہی چودھری اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ ایئر پورٹ پر خوش آمدید کہا۔ ناروے اور کئی دیگر ممالک کی طرح ابوظہبی کے حکام اور عوام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی شہری تعمیر و ترقی اور اداروں کی تشکیل میں پاکستانی ہنرمندوں اور ماہرین کا کردار مثالی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں پاکستان نے ترقی معکوس کا سفر شروع کیا تو پاکستانی مزدوروں اور ہنر مندوں کے علاوہ امرا بھی متحدہ عرب امارات بالخصوص دبئی کی طرف لپکے، ایک وقت آیا کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت کے اجلاس بھی دبئی میں ہونے لگے اور پاکستان کے متمول سیاسی خاندانوں زرداری، بھٹو اور شریف کو کاروبار کے لیے یہ محفوظ جگہ لگی۔ پاکستان کا سرمایہ تیزی سے دبئی منتقل ہوا اور میاں نواز شریف کو دبئی کے اقامہ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ شریف خاندان کے عروج کے ساتھ زوال میں بھی عرب ریاست کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ یہ تعلّی ہے نہ خود فریبی کہ متحدہ عرب امارات کی ترقی میں پاکستان کے حکمرانوں، سیاستدانوں، تاجروں، صنعتکاروں کی دولت اور محنت کشوں، ہنرمندوں کی ریاضت و صلاحیت کا قابل قدر حصہ ہے۔ اگر ہمارے حکمران اور مالدار طبقات پاکستان پر توجہ دیتے، قوانین کو صنعتی و تجارتی فروغ کے لیے مددگار اور ماحول کو سازگار بناتے، محنت کشوں کو اپنے ہی ملک میں محنت کا جائز اور معقول معاوضہ ملتا اور ہنر مندوں کی حوصلہ افزائی ہوتی، اشرافیہ اور اس کا ہمنوا و فیض یافتہ مالدار طبقہ مال حرام کی خواہش سے مغلوب اندرون ملک لوٹ مار کو ترجیح دیتا نہ حرام کی کمائی کی بیرون ملک منتقلی میں عافیت محسوس کرتا، محنت کی عظمت پر یقین رہتا اور پوری قوم کے دل و دماغ پر راتوں رات امیر بننے کی دھن سوار نہ ہوتی، بیورو کریسی حب الوطنی کے جذبے سے اپنا فرض ادا کرتی اور وہ حکمرانوں کی تابعدار و وفادار بن کر اپنے ملک اور عوام سے بے وفائی کی مرتکب نہ ہوتی تو آج پاکستانی قوم کو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا کہ بائیس کروڑ آبادی کی نیوکلیئر اسلامی ریاست کا غیرت مند حکمران ادائیگیوں کا توازن بہتر بنانے کے لیے متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں سے امداد مانگنے پر مجبور ہے۔ امداد بھی کتنی؟ باشعور پاکستانی قوم کے چار ماہی موبائل فون بل کے برابر۔ اخباری اطلاع کے مطابق پاکستانی سالانہ ساڑھے سات ارب ڈالر مالیت کی موبائل فون کالز کرتے ہیں جبکہ ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا دعویٰ ہے کہ اگر حکومت مہنگے موبائل فونز، پنیر اور دیگر اشیاء کی درآمد پر دو سال کے لیے پابندی لگا دے تو ہمیں قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے قرضے کی ضرورت نہیں مگر عیش و عشرت کی عادی اشرافیہ اور اس کے ناز نخرے برداشت کرنے پر مامور حکمران تیار نہیں۔ چین، ملائیشیا، کوریا تو بڑے ممالک ہیں وسیع زرعی رقبہ بھی ہے۔ معدنیات اور محنت کش افرادی قوت بھی، مگر متحدہ عرب امارات کے پاس کیا ہے؟ تیل، جذبہ اور درست منصوبہ بندی۔ عرب حکمران تیل کی دولت سے مالامال ہونے کی وجہ سے عیش و عشرت کے عادی ہیں ہم یہ عیاشی محنت کش عوام کا خون چوس کر، انہیں بھوکا، پیاسا، ان پڑھ اور بیمار رکھ کر کرتے ہیں اور ذرہ بھر نہیں شرماتے۔ متحدہ عرب امارات کے عوام خوش قسمت ہیں کہ انہیں پاکستانیوں جیسے حکمران نہیں ملے۔ ندیدے، حرام خور، لٹیرے اور بے رحم۔ پاکستان کے ساتھ حکمران اشرافیہ نے وہ سلوک کیا جو گھٹیا کرایہ دار کسی کے خوبصورت مکان کے ساتھ کرتا ہے۔ اپنی کئی نسلیں سنوارنے کے لیے ان ظالموں نے قوم کا مستقبل تباہ اور اگلی نسلوں کو مقروض کر دیا۔ دنیا کے بڑے اور قدرتی وسائل سے مالامال ملک کے حکمران ہوتے ہوئے چھوٹی سی ریاستوں میں جائیدادیں بنانے، سرمایہ کاری اورکاروبار کرنے سے کسی کو شرم آئی نہ ان کے سامنے اپنا اور اپنی قوم کا بھرم کھوتے کوئی حیا۔ بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن۔ غنیمت ہے کہ عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے کم از کم اس کا آئیڈیل کوئی شیخ، شاہ یا راک فیلر، عدنان خشوگی، نہیں مگر ریاست مدینہ کی تشکیل کے لیے ٹیم بھی تو درکار ہے۔ مخلص، ذہین، محنتی، نظریاتی اور بے لوث، اقبالؒ نے جواب شکوہ میں مسلمانوں کے عروج و زوال کی نقشہ کشی کی اور کامیابی کا نسخۂ کیمیا بتایا ؎کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں مالک دوجہاں ہمیں لوح و قلم عطا کرنے کا خواہاں ہے۔ خلوص، لگن، ریاضت، جہد مسلسل اور منصوبہ بندی کے عوض مگر ہمیں یعنی ہماری اشرافیہ کو حرام خوری، کام چوری اور سینہ زوری سے فرصت نہیں اور ہم خیرات کے چند ٹکوں پر راضی ہیں۔ خدائی اصول ابدی ہیں اور ہر قوم کے لیے مشعل راہ۔ ٹھوکریں ہم عرصہ سے کھا رہے ہیں۔ جن ریاستوں کے سربراہ ہمارے حکمرانوں سے ہاتھ ملانے کو ترستے تھے۔ وہ اب ہمارے آقا ئے ولی نعمت ہیں، وہ دینے والوں میں شامل ہیں اور ہم لینے والے۔ سبق ہم نے پھر بھی نہیں سیکھا۔ خدا کا شکر ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے ریاست مدینہ کو آئیڈیل بنایا۔ پورے ملک میں جشن عید میلادالنبی ﷺ برپا ہے۔ سرکاری سطح پر تقریبات ہو رہی ہیں۔ لاہور کے گورنر ہائوس میں گورنر چودھری محمد سرور نے محفل نور مصطفیٰ کا اہتمام کیا۔ جہاں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری، صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان اور صوبائی وزیر اوقاف صاحبزادہ سعید الحسن رونق محفل تھے۔ جسٹس(ر) نذیر احمد غازی کی نظامت نے لطف دوبالا کیا اور فیاض الحسن چوہان کی نعت خوانی نے رنگ جمایا۔ محکمہ اوقاف پنجاب نے الحمرا ہال میں سالانہ سیرت کانفرنس میں پورے صوبے کے علماء مشائخ اور دانشوروں کو جمع کر کے نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ یہ ڈاکٹر طاہر بخاری کی مخلصانہ کاوش تھی۔ جس کی سرپرستی سیکرٹری اوقاف ذوالفقار گھمن نے کی مگر جب تک ہم اقبالؒ و قائدؒ کے تصورات کے مطابق پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے تقاضے پورے نہیں کرتے، حصول منزل مشکل ہے ؎ٹھوکریں کھاتے پھرو گے، ان کے در پر پڑ رہوقافلہ تو اے رضا، اوّل گیا، آخر گیا