رات کا تیسرا پہر، اسلام آباد کے پوش سیکٹر میں سڑک کنارے ڈھابہ، بارش تھم کر پھر سے برسنے والی، تیز بھیگی ہواؤں کے تھپیڑے، میں اور رؤف کلاسرا آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے، "اب قہوہ نہ منگوائیں؟"، چائے سموسے کنارے لگانے کے بیس پچیس منٹ بعد میں نے رؤف سے پوچھا۔ بولا "آئیڈیا برا نہیں"، میں نے دیسی اسٹائل کے جدید، لذیذ ڈھابے کے باوردی ویٹر کو آواز دے کر قہوے کا آرڈر دیا، کرسی سے ٹیک لگائی، چند لمحے تیز ہوا میں جھومتے درختوں کو دیکھا، ایک نظر موبائل بازی میں گم رؤف کلاسرا پر ڈالی اور نجانے کیوں اس کی دکھتی رگ دبا دی، دوست تیرے ساتھ تو ہاتھ ہوگیا، ریلوے کا رائل پام کلب اسکینڈل تو نے بریک کیا، تمام بے ضابطگیاں، گھپلے تم سامنے لائے، مشرف حکومت کی پابندیاں تم نے سہیں، چند دن پہلے عدالت نے معاہدہ کینسل کیا، کلب واپس حکومت کو ملا تو کریڈٹ شیخ رشید نے لے لیا، شیخ صاحب مٹھائی کا ڈبہ پکڑے عمران خان کے پاس جا پہنچے، فتح بھرے ٹی وی شو کھڑکائے، جشن بھری وڈیو ریکارڈ کرائی، پوری قوم کو مبارکباد دے ڈالی، حالانکہ جب تم مشرف حکومت کے عین دورِ شباب میں یہ اسکینڈل بریک کرکے اسکینڈل بھگت رہے تھے، تب شیخ صاحب وزارت کے مزے لوٹ رہے تھے، پھر تم شاہد خاقان عباسی کا ایل این جی ٹرمینل اسکینڈل سامنے لائے، اس اسکینڈل کو زندہ رکھا، اب اسی ایل این جی ٹرمینل گھپلے میں نیب نے عباسی صاحب کو گرفتار کیا تو 90 فیصد میڈیا نہ صرف اس سکینڈل سے انکاری ہوا بلکہ آنسوؤں سے رونے لگ گیا، ہائے معصوم کو پکڑ لیا گیا، ہائے بے گناہ نیب گردی کا شکار ہوگیا، ہائے ایک اور منتخب وزیراعظم اندر ہو گیا، ہائے جمہوریت پر پھر وار ہو گیا، حالانکہ مجھے یاد تم نے کئی مرتبہ اپنے شو میں کہا عباسی صاحب آئیں اور مجھے جھوٹا ثابت کریں، سوالنامہ بھی بھجوایا مگر کوئی جواب نہیں، کہنے کا مطلب یہ کہ تمہارے ایک اسکینڈل کا کریڈٹ کوئی اور لے گیا، دوسرا سکینڈل کوئی مان ہی نہیں رہا، دوست تیرے ساتھ تو ہاتھ ہوگیا۔
منطق کا تقاضا تھا کہ میری اس گفتگو کے بعد رؤف کلاسرا کے سینے پر سانپ لوٹ جائیں اور ایسا ہی ہوا، میری بات مکمل ہوتے ہی رؤف کلاسرا نے موبائل گود میں رکھا، عینک اتار کر میز پر رکھی، پہلے سرائیکی، پھر پنجابی اور آخر میں انگریزی زدہ اردو میں لذیذ صلوٰتوں سے نظام کی عزت افزائی کی، لمحہ بھر پہلے آئے قہوے کے کپ میں لیموں نچوڑا، قہوے کا ایک گھونٹ بھرا، بولا "وہاں کیا جلنا، کڑھنا، جہاں لاکھوں شاعر، ایک بھی حبیب جالب کے نقشِ قدم پر نہیں، جہاں 90 فیصد دانشور کرپٹ ہوچکے، جہاں میڈیا کے اپنے مسائل، اپنے چہیتے، اپنی ترجیحات، جہاں قوم لوٹنے والوں کو کندھوں پر بٹھائے، قاتلوں کو ہار پہنائے، مستقبل چرانے والوں سے مستقبل کی امیدیں لگائے، جہاں پانامے، اقامے، کرپشن، کمیشن داستانیں بھی سچی اور اسحاق ڈار سے نواز شریف تک بھی سب سچے، جہاں جے آئی ٹی منی لانڈرنگ رپورٹ بھی سچی اور بلاول، زرداری صاحب بھی جمہوریت کی جنگ لڑ رہے، چھوڑو یار ہر کسی نے قبر میں اپنا حساب دینا"، یہ کہہ کر رؤف نے قہوے کا گھونٹ بھرا، عینک پہنی، موبائل اٹھایا اور پھر سے موبائل بازی میں گم۔
رؤف کی زبان رُکی، میرا دماغ چل پڑا، عباسی صاحب گناہگار یا معصوم، یہ کام تو عدالت کا، مگر یہ کیا ارے شاہد خاقان عباسی تو بڑی سادہ زندگی گزارنے والا، وہ تو عاجزی پسند، خوش اخلاق، کیا سادہ زندگی گزارنے والے غلط کام نہیں کر سکتے، جہاں تک خوش اخلاقی کی بات، کسی کو یاد نہ رہا، قومی اسمبلی میں ایک وزیر کی تقریر کا جواب دیتے عباسی صاحب نے ہی کہا تھا "اگر آپ نے مجھے چور کہا ہے تو میں آپ کے والد کو چور کہتا ہوں" یہ بھی عباسی صاحب تھے جن کو جب الیکشن ٹریبونل جج نے وقتی طور پر الیکشن لڑنے سے روکتے ہوئے نااہل کر دیا تو اسی شام ایک ٹی وی انٹرویو میں فرمایا "یہ جج مینٹلی ڈسٹرب ہے، میں اس پر پبلکی حملہ کروں گا"، عاجزی ایسی عقلمند کہ ایک طرف تو میں مریم نواز کے ماتحت خوشی خوشی کام کر لوں گا، دوسری طرف نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ سیدھا جائے گا ردی کی ٹوکری میں، پھر ابھی عباسی صاحب نے تو اپنے دفاع میں ایک لفظ نہیں کہا، یار لوگ دفاع کے دریا بہا چکے اور پھر لمحہ بہ لمحہ یہ فخریہ پیشکشیں کہ دیکھا عباسی صاحب نے پہلے ہی کہہ دیا تھا، میں گرفتار ہونے والا ہوں، دیکھا عباسی صاحب نے تو ضمانت بھی نہیں کروائی، دیکھا عباسی صاحب نے تو وکیل لینے سے بھی انکار کر دیا۔
ہم پی آئی اے خسارے، ائیر بلیو منافع کی بات نہیں کرتے، پاک قطر معاہدے کو بھی رہنے دیتے ہیں، عمران الحق سے عظمیٰ عادل تک اور شاہد اسلام سے کراچی کے سیٹھ تک، سب کچھ ایک طرف رکھتے ہیں، سوئی سدرن، سوئی نادرن پر کیا کیا دباؤ، پورٹ قاسم اتھارٹی کون کون سے خط لکھ لکھ مر گئی، کیا کیا بے ضابطگیاں، بورڈ آف ڈائریکٹرز سے کیسے منظوری لی گئی، تب سینیٹ، قومی اسمبلی، قائمہ کمیٹیوں میں کیا اعتراضات ہوئے، اعتزاز احسن، فرحت اللہ بابر، الیاس بلور، شیری رحمٰن سمیت بیسیوں ارکان اسمبلی و سینیٹ کی تقریریں، یہ سب رہنے دیں، صرف بات کر لیتے ہیں ایل این جی ٹرمینل معاہدے کی، عباسی صاحب نے کراچی کی کمپنی کو ایل این جی ٹرمینل کا ٹھیکہ دیا، منصوبہ تھا 3 ارب کا، کیوں ہوا 13 ارب کا، عباسی صاحب کی وزارت نے کمپنی سے معاہد ہ کیا 2 لاکھ 72 ہزار ڈالر روزانہ، ٹرمینل استعمال ہو یا نہ ہو، حکومت کو روزانہ 2 لاکھ 72 ہزار ڈالر دینے اور 15 سال تک دینے، یہ ظلم کیوں، پھر کمپنی کا لگایا پیسہ ڈیڑھ سال میں پورا، باقی ساڑھے تیرہ سال منافع، اتنا منافع بخش معاہدہ کیوں، دنیا بھر میں آئل و گیس سیکٹر میں شرح منافع 18 سے 20 فیصد، یہاں 44 سے 60 فیصد منافع کیوں اور پھر معاہدہ ہوا پاکستانی حکومت اور پاکستان کی ایک کمپنی کے مابین، ادائیگی ڈالروں میں کیوں، 4 سال پہلے جب یہ معاہدہ ہوا تب ڈالر تھا 103 روپے آج ڈالر 160 روپے کا، یعنی کمپنی کے مزید وارے نیارے اور یہ سب وارے نیارے سادہ، خوش اخلاق اور بھلے مانس عباسی صاحب کی وجہ سے۔
نجانے ابھی دماغ اور کہاں کہاں بھٹکتا، اچانک بارش شروع ہوگئی، سوچوں کا سلسلہ ٹوٹا، میں اور رؤف کلاسرا اُٹھے، ویٹر کو بل دیا، گاڑی کی طرف چل پڑے، اچانک بارش میں بڑے مزے سے چلتے رؤف کلاسرا کو دیکھا تو بے اختیار اس کی کہی بات پھر سے یاد آگئی کہ "چھوڑو جلنا، کڑھنا، ہر کسی کو قبر میں اپنا حساب دینا ہے"۔