Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Pak America Taluqat

Pak America Taluqat

فیض احمد فیض کے بقول

دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے

ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہیں

تم کیا گئے، کہ روٹھ گئے دن بہار کے

قیام پاکستان کے بعد حکمرانوں نے دو کارنامے کیے، ایک قرارداد مقاصد منظور کرکے آئین کا حصہ بنایا اور دوسرے امریکیوں کے کیمپ میں چھلانگ لگا کر سوشلسٹ کیمپ کے خلاف ان کے دفاعی معاہدوں میں شامل ہوگئے، میں کون خواہ مخواہ؟ کے مصداق ہمارا سوویت یونین سے کوئی جھگڑا نہیں تھا، اس نے پاکستان کو تسلیم کیا تھا اور کوئی اختلاف بھی نہیں تھا اس وقت تیسری دنیا میں سامراج دشمن فضاء قائم ہو رہی تھی، جو ممالک دونوں کیمپوں میں شامل ہونے سے انکاری تھے انھوں نے بنڈونگ میں "غیر جانبدار کانفرنس "کی بنیاد رکھی اور سامراجی کیمپ اور سوشلسٹ کیمپ دونوں سے غیر جانبدار ر ہ کر دونوں سے اچھے تعلقات رکھے، لیکن ہم نے رجعت پسندی اور امریکا نوازی کے سیاہ کمبل اوڑھ لیے اور سوچا کہ اب ہم محفوظ اور طاقتور ہو گئے ہیں۔

ایشیاء میں جاپان اور جنوبی کوریا، یورپ میں مغربی یورپ کے ممالک اور خاص کر جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور دیگر ممالک نے ترقی کا راستہ اپنایا لیکن ہم بدری جمال پری کے عاشقوں کی طرح رہے۔ کہتے ہیں کہ جب شہزادہ سیف الملوک اپنی محبوبہ بدری جمال کی تلاش میں کوہ قاف جا رہا تھا، تو راستے میں جگہ جگہ مختلف ملکوں کے شہزادے پڑے ہوئے ملے، اس نے پوچھا تم لوگ کیوں راستے میں پڑے ہو تو ایک شہزادے نے جواب دیا کہ پری بدری جمال سال میں ایک دفعہ یہاں سے گزرتی ہے اس کے بدن کی خوشبو سے ہم سارا سال زندہ رہتے ہیں، ہم یہاں اس کے انتظار میں پڑے ہیں۔ پاکستان بھی امریکا کی خوشبو سے خوش تھا اور کوئی فائدہ نہیں اٹھایا الٹا قرض کی لت پڑگئی، ہم صرف ایشیاء سبز ہے کے نعروں پر زندہ رہے۔

یہ ساری کہانی امریکا کی نائب وزیر خارجہ وینڈی آر شرمن کی حالیہ دورہ پاکستان کی روداد پڑھ کر یاد آئی، اس دورے کی درخواست ہمارے قابل وزیر خارجہ نے امریکی وزیر خارجہ سے کی تھی، مطالبے تو بہت تھے لیکن منظور یہی ایک ہوا، وزیر صاحب کا خیال تھا کہ 1978 میں افغان انقلاب اور2001 میں 9/11کے بعد جس طرح پاکستان امریکا کا راج دلارہ تھا، اسی طرح آج بھی ہو گا لیکن جناب اب امریکا کو پاکستان کی ضرورت نہیں ہے۔

اس کا اظہار نائب وزیر خارجہ نے دورہ پاکستان سے قبل ممبئی میں پریس کانفرنس میں کیا، انھوں نے بھارت سے پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی ممبئی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے واضح کردیا تھا کہ " امریکا افغانستان کے سوا کسی اور معاملے پر پاکستان سے بات چیت اور وسیع البنیاد روابط میں دلچسپی نہیں رکھتا، میرا دورہ پاکستان ایک خاص مقصد کے لیے ہے، امریکا آنے والے دنوں میں پاکستان کے ساتھ وسیع تعلقات کا قیام نہیں دیکھتا، ہمیں اس دور کے واپس آنے میں کوئی دلچسپی نہیں، جب پاکستان اور بھارت سے یکساں سطح پر امریکا کے روابط ہوا کرتے تھے "۔

اس طرح وینڈی آر شرمن نے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی پاکستان کے حوالے سے اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی کا یہ بنیادی نکتہ واضح کردیا کہ " امریکا اب پاکستان سے تعلقات میں خود کو صرف افغانستان کی صورت حال تک محدود رکھے گا"۔

اب صورت حال بدل چکی ہے، امریکا افغانستان سے بھاگ گیا، افغانستان میں کامیابی کے لیے پچھلے چالیس سال سے امریکا پاکستان کے آمروں کے نخرے برداشت کرتا رہا، اب امریکا کی ساری توجہ ابھرتے ہوئے چین اور روس کو ختم کرنے یا پسماندہ رکھنے پر ہے، امریکا کی کارپوریٹ انڈسٹری کو ہمیشہ ایک دشمن کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے خلاف وہ جنگی اور دوسرے حربے استعمال کرسکے۔ چین کے خلاف امریکا نے دو اتحاد قائم کیے ہیں، QUADمیں امریکا، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔

دوسرا اتحادAUKUSہے جو امریکا نے آسٹریلیا اور انگلینڈ کے ساتھ مل کر چین کے مقابلے کے لیے بنایا ہے، اب جب کہ پاکستان چین کا اتحادی ہے تو امریکا اس کا کیا کرے گا؟ ، حالانکہ پاکستان نے حالیہ ملاقات میں امریکا کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ وسیع البنیاد اور پائیدار تعلقات قائم کرنے کے لیے پر عزم ہے، جو معاشی تعاون، علاقائی رابطے اور خطے میں امن کے لیے ضروری ہیں۔ افغانستان صرف ایک مسئلہ ہے لیکن امریکا اس کو بنیادی اہمیت دے رہا ہے اور اب تو افغانستان میں فوجی کاروائیوں کے لیے پاکستان کے ساتھ اڈوں کی بات چیت چل رہی ہے، اس پر افغانستان کیا ردعمل دے گا۔؟

امریکا نواز حلقے جو ماضی کی یادوں کے سہارے زندگی گزار رہے ہیں وہ اب بھی ان دنوں کو یاد کیا کریں جب پاکستان، پوری دنیا کے سامراجیوں کا پیارا اور امریکا کا " نان ناٹو اتحادی" ہوا کرتا تھا، اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ حکمران صدر بائیڈن کے فون کے انتظار میں دن رات گزار رہے ہیں۔ حالانکہ ممبئی میں اپنے دل کی بات کہنے کے بعد اسلام آباد میں بھی محترمہ وینڈی شرمن نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ "ان کے اس مخصوص دورے کا مقصد خاص طور پر یہ ہے کہ ہم افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کو کیسے دیکھ رہے ہیں؟ ، یہ بہت اہم ہے کہ پاکستان سے مشاورت کی جائے کہ آگے کیسے بڑھا جائے اور ہم طالبان سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔

ان کے ساتھ کس نوعیت کا رابطہ کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پاکستان، افغانستان یا کسی بھی ملک میں اور دنیا میں دہشت گردی نہ ہو"۔ ایک وقت تھا کہ سوشل ازم کے خطرے کی وجہ سے پاکستان عالمی اتحاد کا پیارا تھا، سیٹو، سینٹو کی ممبرشپ اور پشاور سے (U-2)یو ٹو جہاز کے اڑان کی حماقتوں پر تالیاں بجاتے تھے اور امریکا ہمیں داد دیتے تھے، غیر ملکی رسالے کالجوں اور یونیورسٹی کے لڑکوں کے تکیوں کے نیچے پڑے ہوتے تھے، اب یہ حالت ہوگئی کہ پاکستان کی اہمیت صرف اس لیے ہے کہ افغانستان کا ہمسایہ اور طالبان کا ٹرانزٹ کیمپ ہے۔

امریکا نواز دوستوں کی حالت زار پر رونا آرہا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو توقع تھی کہ افغانستان سے امریکی انخلاء سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورت حال اور دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر امریکا پھر سے پاکستان کے ساتھ نان ناٹو اتحادی ہونے کے سابقہ تعلق کو نہ صرف کسی نہ کسی صورت برقرار رکھے گا بلکہ ان تعلقات کو وسیع البنیاد بنانے پر مجبور ہوگا۔ پاکستان کے حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ نئی عالمی صف بندیاں ہو چکی ہیں، امریکا ابھی تک یونی پولر دنیا کے خواب دیکھ رہا ہے حالانکہ اب دنیا ملٹی پولر ہوچکی ہے۔

چین اور روس اب اس کے مقابل آگئے ہیں، اس میں اصل مسئلہ چین کو قابو کرنا ہے، چین کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سرد جنگ کا باقاعدہ اعلان ہو گیا ہے، ایشیاء اور بحر الکاہل کے علاقے میں امریکا نے بھارت کو چین کے خلاف بنیادی اتحادی کے طور پر منتخب کر لیا ہے، چاہے پاکستان کے امریکا نواز حلقے کیسی تاویلیں دیتے رہیں۔

افغانستان کے بارے میں امریکی موقف بہت وضاحت سے انھوں نے پیش کیا، انھوں نے کہا کہ امریکا چاہتا ہے کہ طالبان جامع افغان حکومت، آزادی، نقل و حرکت، انسانی حقوق بشمول خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق اور انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی اور افغانستان کو پھر سے دہشت کی آما جگاہ نہ بننے دینے کے وعدے پورا کرے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، انھوں نے یہ باتیں اصل میں پاکستان کے حکمرانوں کو سنائی ہیں اور صاف صاف کہہ دیا کہ پاکستان اس وقت تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرے جب تک وہ کیے گئے وعدے نہ پورے کرے۔

افغان طالبان کے طرز حکومت کو دیکھتے ہوئے یہ بڑا مشکل ہے کہ وہ ان مطالبات پر عمل کریں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ "نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی"۔ جس طرح پاکستان کی حکومت طالبان کی وکالت ہر پلیٹ فارم پر کر رہی ہے، تو دنیا بھی پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوگی، افغانستان کا نزلہ پاکستان پر گرنے سے قبل پاکستان کو اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، افغان طالبان کا وکالت نامہ واپس کرنے میں ہی ہماری خیر ہے، کیونکہ طالبان ابھی فتح کے نشے میں مخمور ہیں، انھیں ذرا حقائق کا سامنا کرنے دیں۔

انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہر مسئلہ خود کش حملوں یا گھات لگا کر حملہ کرنے سے حل نہیں ہوتا، اب صورت حال یہ ہے کہ ماضی کی طرح امریکا اپنا مقصد پورا کرکے چلتا بنا اور افغانستان کو پاکستان کی جھولی میں ڈال دیا، اب پاکستان جانے اور طالبان۔