شرجیل فاروق میرے معاون ہیں، ہم دونوں پچھلے سال سے دلچسپ ریسرچ کر رہے ہیں، شرجیل کا خیال ہے پاکستان میں 1999سے قدرت کا خفیہ ہاتھ ایکٹو ہے، یہ ہاتھ لوکل اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے ناکام بنا دیتا ہے، منصوبہ بندی کچھ ہوتی ہے لیکن نتائج اس کے برعکس نکل آتے ہیں، یہ ہاتھ ملک میں تبدیلی کی سوچ کوتوانا کرتا جا رہا ہے، میں شرجیل کی بات سے اتفاق کرتا ہوں مگر مجھے سال پر اعتراض ہے، میرا خیال ہے قدرت کا یہ خفیہ ہاتھ 1999 کے بجائے 2007 میں ایکٹو ہوا اور یہ خاموشی سے چیزوں کو غلط مقامات سے اٹھا کر اصل جگہ پر رکھتا جا رہا ہے، یہ ہاتھ پاکستان کو مضبوط بھی بنا رہا ہے اور بہتر بھی اور یہ ہاتھ اگر اسی طرح ایکٹو رہا تو ہم پانچ دس سال بعد حقیقتاً نئے پاکستان میں ہوں گے، ایک ایسے پاکستان میں جس میں ہر چیز درست سمت چل رہی ہو گی، میں 2007 سے لے کر ستمبر 2014 تک سات سال کے چند بڑے واقعات آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور آپ کو دعوت فکر دیتا ہوں۔
جنرل پرویز مشرف 2007میں انتہائی مضبوط تھے، ملک کے تمام چھوٹے بڑے ادارے ان کے کنٹرول میں تھے، ملک کی کسی سیاسی جماعت میں ان کے خلاف کھڑے ہونے کی جرات نہیں تھی، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جلاوطنی سے سمجھوتہ کر چکے تھے، جنرل پرویز مشرف نے 9 مارچ 2007 کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کر دیا، چیف جسٹس زیادہ مقبول نہیں تھے، یہ جنرل مشرف کے دوست بھی سمجھے جاتے تھے، جنرل مشرف کا خیال تھا، یہ چیف جسٹس کو ہٹائیں گے، نیا چیف جسٹس آئے گا اور یہ حکومت کا ایجنڈا آگے بڑھاتا چلا جائے گا لیکن قدرت کا خفیہ ہاتھ ایکٹو ہوا اور افتخار محمد چوہدری گیم چینجر بن گئے۔
جنرل مشرف ملک کے بااختیار ترین شخص تھے، یہ اپنے تمام تر اختیارات کے باوجود افتخار محمد چوہدری اور ان کی تحریک کو نہ روک سکے، یہ تحریک آگے چل کر اسٹیبلشمنٹ کے اختیارات اور منصوبہ بندی کے لیے بہت بڑا جھٹکا ثابت ہوئی، آپ اس تحریک کو سماجیات کا طالب علم بن کر پڑھیں، آپ کا اللہ تعالیٰ کے معجزوں پر ایمان تازہ ہو جائے گا،۔
دوسرا واقعہ ملاحظہ کریں، جنرل مشرف نے جولائی 2007میں ابوظہبی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ملاقات کی، اس ملاقات میں دو فیصلے ہوئے، حکومت نے این آر او کے تحت محترمہ کے خلاف تمام مقدمے واپس لینے کا فیصلہ کیا، محترمہ کو پاکستان واپس آنے کی اجازت بھی دے دی گئی، مشرف کا خیال تھا محترمہ کی واپسی سے افتخار چوہدری کی تحریک بھی کمزور ہو جائے گی اور پاکستان مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی مل کر حکومت بھی بنائیں گے۔
اپوزیشن کا اتحاد بھی ٹوٹ جائے گا، میاں نواز شریف اکیلے رہ جائیں گے لیکن جوں ہی محترمہ پاکستان پہنچیں قدرت کا خفیہ ہاتھ ایکٹو ہو گیا، وکلاء تحریک بھی تیز ہو گئی اور ملک بھی جمہوریت کی طرف بڑھنے لگا، محترمہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے راستے کی رکاوٹ تھیں، محترمہ کو 27 دسمبر کو راستے سے ہٹا دیا گیا، محترمہ کے بعد چوہدری پرویز الٰہی نے وزیراعظم بننا تھا لیکن الیکشن ہوئے اور پاکستان مسلم لیگ ق کو مار پڑ گئی، قومی اسمبلی نے یوسف رضا گیلانی کو متفقہ وزیراعظم بنا دیا، گیم الٹ گئی، لوکل اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا، یوسف رضا گیلانی وزیراعظم رہیں گے اور جنرل پرویز مشرف 58(2B) کے ساتھ صدر لیکن قدرت کا ہاتھ ایکٹو ہوا، میاں نواز شریف 12مئی 2008 کو حکومتی اتحاد سے نکل گئے۔ جنرل مشرف اور زرداری پر دباؤ ڈالا، مشرف فارغ ہو گئے، آصف علی زرداری صدر بن گئے،۔
تیسرا واقعہ، آصف علی زرداری نے پنجاب پر قابض ہونے کے لیے 25 فروری 2009 کو نواز شریف اور شہباز شریف کو سپریم کورٹ سے نااہل کروا دیا، میاں برادران فارغ ہو گئے، قدرت کا ہاتھ ایکٹو ہوا، میاں نواز شریف نے 16 مارچ کو لانگ مارچ کیا، چیف جسٹس بھی بحال ہو گئے اور میاں شہباز شریف کی حکومت بھی۔ اس واقعے نے آصف علی زرداری کو طرز سیاست تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا، زرداری صاحب نے اس کے بعد کسی کے مینڈیٹ پر حملہ نہیں کیا، چوہدری افتخار نے واپس آ کر آمریت کا گند صاف کیا، این آر او اور مشرف ایمرجنسی کے خلاف فیصلے دے کر آئین بھی سیدھا کر دیا اور مارشل لاء کا راستہ بھی روک دیا،۔
چوتھا واقعہ، امریکا نے 2010 اور 2011 میں پاکستان میں اثرورسوخ بڑھا دیا، امریکا گرینڈ پلان کے ذریعے پاکستان کے تمام بڑے ادارے اپنے ہاتھ میں لے رہا تھا، فوج اور امریکا براہ راست ہو گئے، حکومت درمیان سے نکل گئی، حکومت تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی ہو گیا لیکن پھر قدرت کا ہاتھ ایکٹو ہوا، ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ پیش آیا، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن آپریشن ہوا اور سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ ہو گیا، امریکا اور پاک فوج کے تعلقات خراب ہو گئے اور صدر زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی حکومت بچ گئی۔
عمران خان نے 30 اکتوبر 2011ء کو لاہور میں فقید المثال جلسہ کیا، یہ عمران خان کی سیاست میں بڑی لانچنگ تھی، عمران خان نے اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، پاکستان پیپلز پارٹی اور ریٹائر جرنیل انھیں سپورٹ کر رہے تھے، عمران خان دو برسوں میں بڑی سیاسی قوت بن گئے، مجھ سمیت زیادہ تر صحافیوں کا خیال تھا عمران خان دونوں روایتی جماعتوں کو اڑا کر رکھ دیں گے، میں نے 2013 کی الیکشن ٹرانسمیشن کے دوران یہ دعویٰ بھی کر دیا " لاہور میاں برادران کے ہاتھ سے نکل گیا ہے" عمران خان کوبھی جیتنے کا یقین تھا اور ان کے خفیہ اور ظاہری سپورٹروں کو بھی لیکن جب نتائج سامنے آئے تو دنیا حیران رہ گئی، آج 2013کے الیکشنوں میں جنرل اشفاق پرویز کیانی، فخر الدین جی ابراہیم اور نگران حکمرانوں پر دھاندلی کے الزامات لگ رہے ہیں لیکن ہم میں سے زیادہ تر لوگ جانتے ہیں سابق فوجی قیادت میاں نواز شریف کو ناپسند کرتی تھی، میاں نواز شریف 25 نومبر 2007کو پاکستان آئے اور 2013 تک جنرل کیانی کے ساتھ ان کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
جنرل کیانی اور ان کے کور کمانڈرز عمران خان کو پسند کرتے تھے، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا کے بھی عمران سے تعلقات اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہے، آپ ڈیفنس کے علاقوں کے ووٹ بھی نکال کر دیکھ لیں، آپ کو وہاں عمران خان کی واضح برتری نظر آئے گی، فخر الدین جی ابراہیم اور نگران حکمران بھی عمران خان کو پسند کرتے تھے چنانچہ میرا خیال ہے اگر جنرل کیانی اور فخرو بھائی نے دھاندلی کرائی ہوتی تو عمران خان کو بھٹو سے زیادہ ووٹ ملنے چاہیے تھے مگر ایسا نہیں ہوا، میاں نواز شریف واضح اکثریت سے جیت گئے، میاں نواز شریف کی جیت کے بے شمار فیکٹرز میں سے ایک فیکٹر ٹکٹوں کی تقسیم بھی تھا، میاں برادران پانچ برس پنجاب کے حلقوں پر ریسرچ کرتے رہے، یہ اس ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے، ووٹ بہرحال برادریاں ہی لیتی ہیں چنانچہ انھوں نے برادریوں کو سامنے رکھ کر ٹکٹ دیے، حلقے میں اگر جاٹ، گجر اور راجپوت ہیں تو انھوں نے ایم این اے کی نشست جاٹوں کو دے دی اور ایم پی اے کی دونوں سیٹیں راجپوتوں اور گجروں میں تقسیم کر دیں اور یوں یہ لوگ جیت گئے۔
خان صاحب حلقوں کی اس سیاست پر توجہ نہ دے سکے چنانچہ یہ مار کھا گئے، 2008 سے 2013 کے درمیان سیاست میں ایک نیا عنصر بھی داخل ہوا، ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے ملکی سیاست کے بجائے علاقائی اور صوبائی سیاست شروع کردی، یہ جماعتیں جان گئیں تھیں، آپ کی پارٹی خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو آپ کے پاس بہرحال ایک صوبہ ضرور ہونا چاہیے چنانچہ پیپلز پارٹی نے سندھ پر کام کیا، ن لیگ نے پنجاب کو ہاتھ میں رکھا اور قوم پرست جماعتوں نے بلوچستان کی سیاسی نبضیں تھام لیں، عمران خان کے پاس کوئی صوبہ نہیں تھا، یہ یہاں بھی مار گئے، اللہ تعالیٰ نے انھیں اب صوبہ دے دیا ہے چنانچہ انھیں خیبرپختونخواہ کو کسی صورت ہاتھ سے نہیں نکالنا چاہیے کیونکہ اگر یہ صوبہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر ان کی سیاست ناکامیوں کے گھنے جنگلوں میں بھٹک کر رہ جائے گی۔
ہم اب آخری اور بڑے واقعے کی طرف آتے ہیں، علامہ صاحب اور عمران خان کا لانگ مارچ ایک جامع منصوبہ تھا، یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں تمام گھوڑے اتار دیے گئے تھے، پنجاب حکومت نے دھرنے والوں کو 14 لاشیں بھی دے دیں، منصوبہ یہ تھا عمران خان اور علامہ صاحب پانچ لاکھ لوگوں کو لے کر لاہور سے نکلیں گے، یہ لوگ جوں ہی راوی کا پل عبور کریں گے حکومت کو گھر بھجوا دیا جائے گا لیکن قدرت کا ہاتھ ایکٹو ہوگیا، لوگ اکٹھے نہ ہو سکے، 14 اگست کا جلوس 16 اگست کو اسلام آباد پہنچا، بارشوں کا موسم شروع ہو گیا، دھرنے دے دیے گئے۔
اگلے منصوبے میں ریڈزون میں لاشیں گرنی تھیں لیکن میاں نواز شریف نے عین وقت پر پولیس کو غیر مسلح بھی کرا دیا اور پیچھے بھی ہٹا لیا، دھرنے ریڈزون پہنچ گئے لیکن لاشیں نہ ملیں، اگلے مرحلے میں وزیراعظم ہاؤس، ایوان صدر اور پارلیمنٹ ہاؤس پر قبضہ ہونا تھا، یہاں بھی تصادم کا امکان تھا جس میں عورتوں اور بچوں کی نعشیں گرنی تھیں، قبضہ ہوا، تصادم بھی ہوا لیکن نعشیں نہ گر سکیں، آخری کوشش پی ٹی وی پر قبضہ تھی، یہ قبضہ بھی ہوا، آرمی چیف نے وزیراعظم سے ملاقات بھی کی مگر وزیراعظم سے استعفیٰ نہ مانگا گیا اور اب آخری اطلاعات کے مطابق دھرنے کے اندر کچھ ہونے کی خبریں آ رہی ہیں لیکن مجھے یقین ہے یہ سازش بھی ناکام ہو جائے گی کیونکہ قدرت کا ہاتھ ایکٹو ہے اور یہ ہاتھ عین وقت پر نتائج بدل دیتا ہے اور نتائج اس بار بھی بدل جائیں گے۔
پاکستان حقیقتاً نئے دور میں داخل ہو رہا ہے، عمران خان کامیاب ہوں یا ناکام لیکن مجھے یقین ہے نیا پاکستان ضرور بنے گا، ایسا نیا پاکستان جس میں قانون بھی ہو گا، انصاف بھی اور دھاندلی سے پاک مینڈیٹ بھی، کیوں؟ کیونکہ قدرت ایکٹو ہو چکی ہے اور قدرت بہرحال اسٹیبلشمنٹوں سے مضبوط ہوتی ہے، قدرت منصوبے نہیں بدلتی، یہ ان کے نتائج تبدیل کرتی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں 2007 سے منصوبوں کے نتیجے بدل رہے ہیں، آپ تحقیق کر لیں آپ کو بھی یقین آ جائے گا، آپ بھی مان جائیں گے یہ کوئی اور ہے جو سب کچھ بدل دیتا ہے اور منصوبے بنانے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔