اور ایک ظہیر ماڈل بھی ہے، ظہیر صاحب کراچی کے بڑے بزنس مین ہیں، آج سے 22 سال قبل ان کا اکلوتا بیٹا حادثے کا شکار گیا، بیوی دوسری بار ماں بننے کی صلاحیت سے محروم تھی، ظہیر صاحب کے پاس دو آپشن تھے، یہ نئی شادی کرتے یا پھر باقی زندگی اولاد کے بغیر گزار دیتے لیکن ظہیر صاحب تیسرے آپشن کی طرف چلے گئے، یہ ایک دن کراچی کے بڑے یتیم خانے میں گئے، اپنے مرحوم بیٹے کا ہم عمر تلاش کیا، بچہ گود لیا، گھر لائے، بچے کا نام بدل کر اپنے مرحوم بیٹے کا نام رکھ دیا اور بچے کو اسی اسکول میں داخل کرا دیا۔
جس اسکول میں ان کا بیٹا پڑھتا تھا، نیا بیٹا سال گزرنے کے بعد ان کا پورا بیٹا بن گیا، یہ دونوں میاں بیوی مرحوم بیٹے کو بھول گئے، ظہیر صاحب کا لے پالک بیٹا جوان ہوا، اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سارا کاروبار سنبھال لیا، یہ بیٹا شائستہ بھی ہے، مہذب بھی، خوف خدا سے مالامال بھی اور خدمت گزار بھی۔ آپ نے اگر کسی بیٹے کو ماں باپ کے پاؤں دھو کر پیتے دیکھنا ہو تو آپ ظہیر صاحب کے لے پالک بیٹے کو دیکھئے، ظہیر صاحب کے بیٹے نے والدین کی محبت اور اطاعت میں مثال قائم کر دی، ظہیر صاحب اور ان کی اہلیہ آج اپنے اس فیصلے پر بہت خوش ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک بیٹا لے کر انھیں پہلے سے بہتر بیٹا دے دیا، دوست ظہیر صاحب کے اس فیصلے کو ظہیر ماڈل کہتے ہیں۔
ہماری دنیا میں کامیاب ہونے والے 82 فیصد لوگ یتیم، طلاق یافتہ والدین کے بچے یا پھر سنگل پیرنٹس کی اولاد ہوتے ہیں، سائنسی تحقیق نے ثابت کیا، یتیمی انسان کے اندر ایک عجیب فورس پیدا کرتی ہے، یہ فورس انسان کو کہیں سے کہیں لے جاتی ہے، آپ آج دنیا کے 20 بڑے شعبوں کے بیس کامیاب ترین لوگوں کی فہرست نکالیں اور ان کے پروفائل پڑھیں، آپ کو میری بات پر یقین آ جائے گا، اگریتیمی بڑی طاقت نہ ہوتی تو اللہ کے آخری نبیؐ یتیم نہ ہوتے، یتیمی میں کوئی نہ کوئی ایسی طاقت تھی۔
جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی کو یتیم پیدا کیا اور پھر چھ سال کی عمر میں ان کے سر سے والدہ کا سایہ بھی اٹھا لیا، آپ تاریخ کا مطالعہ کریں، آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے، دنیا کے زیادہ تر بڑے لیڈر، بڑے سپہ سالار بچپن میں یتیم ہو گئے تھے، وہ یتیمی میں بڑے ہوئے اور پھر جوان ہو کر پوری دنیا کی شکل بدل دی، محرومی شاید انسان کی صلاحیتوں کے لیے کک ثابت ہوتی ہے اور یتیم کیونکہ اپنی زندگی کے ابتدائی حصے میں دنیا بھر کی محرومیاں دیکھ لیتا ہے چنانچہ یہ جوان ہونے تک زمانے کی تمام گرم ہواؤں کا ذائقہ چکھ لیتا ہے، ہم دوست اپنے دوستوں کو مشورے دیتے ہیں آپ زندگی میں کم از کم ایک بچہ یا بچی ضرور گود لیں، یہ بچی یا بچہ آپ کے اپنے بچوں سے بہتر ثابت ہو گا، ہمارے جن دوستوں نے ظہیر ماڈل پر کام کیا وہ آج جھولی پھیلا کر دعائیں دے رہے ہیں۔
پشاور کا واقعہ پاکستان کی تاریخ کا المناک ترین واقعہ تھا، دہشت گردوں نے 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول کے 132 بچوں کو قتل کر دیا، اس واقعے نے پوری دنیا کے انسانوں کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا، پوری دنیا پاکستان کے ساتھ اس وقت مغموم ہے، ہم لوگ کوشش کے باوجود اپنے اندر سے دکھ نہیں نکال پا رہے، ہم اس غم میں دوسری اور تیسری صف کے لوگ ہیں، آپ ان والدین کی حالت کا اندازہ لگائیے جو صبح خود اپنے بچوں کو اسکول چھوڑ کر آئے اور سہ پہر اور شام کے وقت انھیں بچوں کی کٹی پھٹی لاشیں ملیں، یہ اپنے مرے ہوئے بچوں کے چہرے تک نہ دیکھ سکے، یہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ عملاً فوت ہو چکے ہیں، یہ اب نفسیاتی لحاظ سے کبھی بحال نہیں ہو سکیں گے۔
میری ان والدین سے درخواست ہے آپ اگر ظہیر ماڈل پر چلے جائیں، آپ اگر ملک کے مختلف یتیم خانوں سے اپنے بچوں کے ہم عمر اور ہم نام تلاش کرلیں، آپ ان بچوں کو گود لیں، آپ انھیں اسی اسکول میں پوری مراعات کے ساتھ داخل کرائیں اور آپ ان یتیم بچوں کے وہ سارے نخرے برداشت کریں جو آپ اپنے بچوں کے برداشت کرتے تھے تو یقینا آپ کے غم میں کمی آ جائے گی، یہ حقیقت ہے ہمارے بچے ہمارے جگر کا ٹکڑا ہوتے ہیں اور آپ کسی دوسرے کے جگر کے ٹکڑے کو اپنے جگر کا حصہ نہیں بنا سکتے لیکن اللہ تعالیٰ نے یتیم بچوں میں ایک عجیب صلاحیت رکھی ہے، انسان جب کسی یتیم بچے کو اپنے بچے کی جگہ دیتا ہے تو یتیم بچہ نہ صرف جلد مرحوم بچے کی جگہ لے لیتا ہے بلکہ یہ انسان کی زیادہ محبت اور زیادہ توجہ کھینچ لیتا ہے چنانچہ مجھے یقین ہے اگر مرحوم بچوں کے والدین ظہیر ماڈل پرآ جائیں تو انھیں اپنے کھوئے ہوئے بچے بھی واپس مل جائیں گے، ان کی نفسیاتی بحالی کا عمل بھی تیز ہو جائے گا اور یہ غم اور دکھ سے بھی جلد چھٹکارہ پا جائیں گے۔
ہماری ریاست بھی 68 سال میں پہلی بار دہشت گردی کے خلاف متحد اور متحرک ہوئی ہے، حکومت نے اگر اسی طرح اپنا دباؤ قائم رکھا، یہ دن رات دہشت گردوں کی سرکوبی کرتی رہی تو پاکستان چھ ماہ میں تبدیل شدہ ملک ہو گا لیکن حکومت کو دہشت گردی کے خلاف جامع پالیسی بنانی ہو گی اور پالیسی بناتے وقت چند نقطوں کا خیال رکھنا ہوگا، حکومت اگر ان نقطوں کو سمجھ گئی اور اس نے پالیسی میں اگر ان کو شامل کر لیا تو ہمارا ملک دو برسوں میں اس عفریت پر مکمل قابو پا لے گا بصورت دیگر یہ بیماری ایک دوبرسوں میں زیادہ شدت کے ساتھ ملک پر حملہ کرے گی اور ہم شاید اس وقت اس پر قابو نہ پا سکیں، ہمارے ملک میں دہشت گردی کی چار بڑی وجوہات ہیں۔
حکومت کوان چاروں وجوہات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنانا ہو گی، ہمارے ملک میں دہشت گردی کی پہلی وجہ مذہب کی غلط تشریح ہے، دنیا کے تمام مذاہب پرامن ہیں، ہم اسلام کے پیرو کار ہیں، اسلام کا مطلب سلامتی ہے اور سلامتی امن کے بغیر نہیں ہوتی مگر ہمارے علماء کرام بدقسمتی سے اسلام کی اصل اسپرٹ معاشرے تک نہیں پہنچا سکے، ہم نے اسلام کو امن اور سلامتی کے بجائے نفاق، فرقہ پرستی اور قتال کا ذریعہ بنا دیا، دنیا میں آج تک کوئی مذہبی ریاست قائم نہیں رہ سکی، دنیا میں صرف وہ معاشرے قائم رہتے ہیں جن میں جمہوریت پہلے آتی ہے اور مذہب بعد میں لیکن ہمارے معاشرے میں مذہب کو جمہوریت، قانون، آئین اور سماجی اخلاقیات چاروں پر فوقیت حاصل ہے اور ترتیب کی یہ خرابی ہے۔
جس کی وجہ سے آج اسلام کے نام پر بننے والا ملک اسلام ہی کے نام پر ٹوٹ رہا ہے، حکومت کو فوری طور پر یہ ترتیب بدلنا ہوگی، حکومت مذہب کو اجتماعی کے بجائے انفرادی حق ڈکلیئر کرے، ملک میں کسی کے عقائد پر انگلی اٹھانا قتل جتنا بڑا جرم ہونا چاہیے، ہمارے نام صرف نام ہونے چاہئیں، ان سے فرقے کی شناخت نہیں ہونی چاہئیں، حکومت کو نقوی، جعفری، کاظمی، صدیقی، بریلوی اور فاروقی تمام تخلص، تمام سابقوں اور لاحقوں پر پابندی لگا دینی چاہیے، کوئی شخص کسی سرکاری دستاویز میں فرقے کی نشاندہی کرنے والا سابقہ یا لاحقہ نہ لکھوا سکے، پورے شہر میں صرف ایک وقت اذان ہو، یہ اذان اگر قومی نشریاتی رابطے سے ہو تو سونے پرسہاگہ ہو گا، مساجد سے لاؤڈ اسپیکر اتروا دیے جائیں۔
جمعہ کے لیے علماء کرام سے 52 خطبے تیار کروائے جائیں اور یہ خطبے بھی تربیتی ہونے چاہئیں اختلافی نہیں، امام حضرات جمعہ کو ان خطبوں میں سے کوئی ایک خطبہ دے سکیں، یہ ان سے باہر ایک لفظ نہ بول سکیں، مساجد صرف سرکاری اجازت سے قائم ہو سکیں، مؤذن اور امام کا فیصلہ حکومت کرے، مدارس رجسٹر کرائے جائیں اور سلیبس سرکار فراہم کرے، ملک بھر سے تمام اختلافی مواد ضبط کر لیا جائے، انٹر نیٹ پر جس مولوی کا اختلافی بیان ملے اسے عمر قید دے دی جائے، توہین رسالت کا فیصلہ ریاست کرے، جو شخص یہ فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے، اسے پھانسی دی جائے اور ملک میں مذہبی جلوسوں اور اجتماعات پرپابندی لگا دیں، دہشت گردی کی دوسری وجہ اسلحہ ہے، یہ ملک اسلحے کا ڈپو بن چکا ہے، حکومت فوری طور پر اسلحے پر پابندی لگا دے، ملک میں ڈنڈے اور چاقو کے علاوہ کوئی اسلحہ نہیں ملنا چاہیے۔
حکومت اسلحے پر پابندی بھی لگائے اور کڑی سزا بھی تجویز کرے، ملک میں جب تک اسلحہ موجود ہے، آپ دہشت گردی نہیں روک سکیں گے، خواہ آپ ہر ماہ دس ہزار لوگوں کو پھانسی کیوں نہ دیں، تیسری وجہ نوجوان ہیں، ہمارے ملک میں نوجوان 40فیصد ہیں، ملک میں ان لوگوں کے لیے کوئی ایکٹویٹی نہیں، کھیل کے میدان نہیں ہیں، سینما گھر اور چائے خانے نہیں ہیں، حکومت فوری طور پر نوجوانوں کو مصروف رکھنے کی پالیسی بنائے، کھیل کے میدان بنائیں، پانچ سے بیس سال تک کے بچوں کے لیے کھیل لازمی قرار دیے جائیں اور جو بچہ جسمانی کھیل نہ کھیلتا ہو اسے ڈگری نہیں ملنی چاہیے۔
ہمارے نوجوان جسمانی لحاظ سے مصروف ہوں گے تو ملک میں شدت پسندی میں کمی آئے گی اور شدت کی کمی دہشت گردی کے خاتمے کا باعث بنے گی اور آخری وجہ ہم چالیس سال سے حالت جنگ میں ہیں، ہماری تیسری نسل جنگی حالات میں پرورش پا رہی ہے، آپ دنیا کی کوئی قوم بتائیے جو چالیس سال حالت جنگ میں رہی ہو اور وہ اس کے باوجود نارمل بھی ہو، ہم جنگ کی وجہ سے اندر سے ٹوٹ چکے ہیں، ہم متوازن اور نارمل نہیں رہے چنانچہ ریاست فوری طور پر تمام محاذ بند کرنے کا اعلان کر دے کیونکہ ہم جب تک یہ محاذ بند نہیں کریں گے ہمارے ملک میں گڈ طالبان موجود رہیں گے اورجب تک یہ لوگ موجود رہیں گے، ہمارے ملک سے دہشت گردی ختم نہیں ہو گی خواہ ہم کچھ بھی کر لیں۔
ہم فیصلے کی گھڑی تک پہنچ چکے ہیں، ہم نے اب عفریت کو قتل کرنا ہے یا پھر اس عفریت نے ہمیں نگلنا ہے، آپ یقین کیجیے ہم نے اگر اس عفریت کو نہ مارا تو یہ ایک دو سال میں ہمیں کھا جائے گا چنانچہ فیصلہ کیجیے کیونکہ ہم، ، اب یا کبھی نہیں، ، کی منزل تک پہنچ چکے ہیں، ہم نے فیصلہ نہ کیا تو عفریت کامیاب ہو جائے گا اور ہم مری ہوئی داستانوں میں ایک داستان بن کر رہ جائیں گے۔