مارچ 2022میں سری لنکا میں پٹرول کا آخری جہاز آیا، جہاز دو ہفتے سمندر میں کھڑا رہا لیکن حکومت کے پاس ڈالرز نہیں تھے، جہاز واپس چلا گیا اور اس کے ساتھ ہی سری لنکا کا ڈیفالٹ شروع ہوگیا، ملک میں پٹرول ختم ہوا، پٹرول کی وجہ سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور ٹرانسپورٹ بند ہوئی، فیکٹریاں بھی رک گئیں۔
ٹرانسپورٹ کی وجہ سے خوراک کا بحران بھی پیدا ہوگیااور رہی سہی کسر بے روزگاری نے پوری کر دی یہاں تک کہ حکومت نے 12اپریل 2022 کو ڈیفالٹ ڈکلیئر کر دیا اور اس کے بعد پورا ملک سڑکوں پر نکل آیا اورعوام کے ہاتھوں جو بھی چڑھ گیا وہ حکومت ہو یا اپوزیشن، وہ بیوروکریٹ ہو یا تاجر اس کو پھینٹا پڑ گیا اور سری لنکا آج اپنی بندر گاہیں، سڑکیں، جنگل، پہاڑ اور عمارتیں بیچ کر گزارہ کر رہا ہے۔
ہم بھی یقین کریں یا نہ کریں اس وقت اسی عمل سے گزر رہے ہیں، پٹرولیم منسٹری نے تین دن قبل اسٹیٹ بینک کو خبردار کر دیا ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت شروع ہونے والی ہے، تیل درآمد کرنے کے لیے ایل سیز نہیں کھل رہیں، پی ایس او کا ایک آئل کارگو کینسل ہو چکا ہے۔
دوسرے کی ڈیلیوری 23 جنوری کو متوقع تھی لیکن اس کی ایل سی بھی نہیں کھل سکی، پاک عرب ریفائنری کے پانچ لاکھ 35 ہزار بیرل کے دو آئل کارگو بھی لائین میں ہیں۔
پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کا ایک کارگو پانچ لاکھ 32 ہزار بیرل تیل لے کر 30 جنوری کو پہنچے گالیکن ان کی ایل سی بھی نہیں کھل پا رہی لہٰذا فروری میں تیل کا بحران شروع ہو جائے گا اور مارچ اور اپریل میں یہ کرائسیس شدید ہو جائے گا اور اگر خدانخواستہ یہ ہوگیا تو پٹرول پمپوں پر بھی لائنیں لگ جائیں گی۔
خوراک کی سپلائی بھی بند ہو جائے گی، پبلک ٹرانسپورٹ، میٹرو، ٹرین اور جہاز بھی رک جائیں گے، بجلی کی خوف ناک لوڈ شیڈنگ بھی شروع ہو جائے گی اور رہی سہی فیکٹریاں بھی بند ہو جائیں گی، یہ ایک صورت حال ہے جب کہ دوسری طرف سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی رکنا شروع ہو چکی ہیں۔
جنوری میں آدھے سرکاری محکموں کی تنخواہ دس دن لیٹ ہوئی، فروری میں کیا ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا، پاکستان کے سفارت خانوں کو ستمبر سے تنخواہیں اور کرائے نہیں مل رہے جس کی وجہ سے سفارتی مشنز تقریباً بندش کے قریب ہیں۔
آپ خود اندازہ کیجیے اگر ایمبیسی کو کرائے، پٹرول، یوٹیلٹی بلز اور تنخواہوں کی رقم نہیں ملے گی تو پھریہ کیسے چلیں گے چناں چہ سفارت خانوں کے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں، انڈسٹری کی صورت حال دیکھنی ہو تو آپ فیصل آباد، سیالکوٹ اور کراچی کا چکر لگا لیں، 75فیصد کارخانے بند ہو چکے ہیں اور ان سے ملک میں بے روزگاری کا خوف ناک طوفان آ رہا ہے، آٹے کا بحران بھی پیدا ہو چکا ہے۔
کوکنگ آئل بھی مفقود ہوتا جا رہا ہے اور ڈالر منہ مانگی قیمت دینے پر بھی نہیں مل رہا چناں چہ اگر یہ کہا جائے پاکستان تقریباً ڈیفالٹ کر چکا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔
یہ حالات ہیں اور دوسری طرف کراچی سے لے کر خیبر پختونخواہ تک ایک سیاسی سرکس چل رہا ہے، عمران خان نے خیبر پختونخواہ اور پنجاب اسمبلی توڑ کر ملک کی قبر کھود دی اور پی ڈی ایم کی حکومت نے اپوزیشن کے استعفے منظور کر کے مردے کو نہلانا شروع کر دیا، کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی الیکشن ہوئے اور پارٹیاں ڈنڈے لے کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہیں۔
پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کے انتخاب نے بھی کھڑکیاں توڑنا شروع کر دی ہیں، محسن نقوی چوہدری برادران کے رشتے دار ہیں، یہ چوہدری شجاعت حسین کی بھانجی کے خاوند ہیں اور چوہدری پرویز الٰہی انھیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، پی ٹی آئی دعوے کر رہی ہے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی سازش محسن نقوی کے گھر تیار ہوئی تھی، میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری ان کے گھر ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تھے اورنقوی صاحب ان کے پیغامات جنرل باجوہ کو پہنچاتے تھے۔
پی ڈی ایم اور چوہدری برادران کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی محسن نقوی کے گھر سے اسٹارٹ ہوا تھا اور ان ملاقاتوں کے نتیجے میں ق لیگ نے پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا چناں چہ پی ٹی آئی بھی انھیں ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور اگر یہ انھیں نہیں مانتے تو پھر پنجاب میں نگران حکومت نگرانی کیسے کرے گی اور یہ الیکشن کیسے کرائے گی؟ دوسرا ملک میں مردم شماری بھی شروع ہو چکی ہے، یہ 30 ستمبر کو مکمل ہوگی۔
الیکشن کمیشن مردم شماری کے بعد 4 مہینوں میں نئی حلقہ بندیاں کرے گا اور یوں اگست میں ملک نئے الیکشن کے قابل ہوگا، اب سوال یہ ہے کیا دو صوبوں میں پرانی مردم شماری اور پرانے حلقوں کے تحت الیکشن ہوں گے اور باقی دو صوبوں اور وفاق کے الیکشن نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ہوں گے؟ تیسرا، کیا ملک میں اپریل میں کے پی اور پنجاب کے الیکشن ہوں گے اور پھر اکتوبر میں سندھ، بلوچستان اور وفاق کے الیکشن اور کیا۔
اس دوران عمران خان قومی اسمبلی کے 70 حلقوں سے ضمنی الیکشن بھی لڑیں گے اور کیا یہ 70 سیٹیں جیت کربھی قومی اسمبلی نہیں جائیں گے اور کیا 70 سیٹوں کے یہ ضمنی الیکشن بھی ضایع ہو جائیں گے اور اگر ایسا ہوگا تو کیا حکومت الیکشن، الیکشن کھیلے گی یایہ پٹرول، بجلی، گیس، خوراک اور برآمدات کا بندوبست کرے گی؟
ہماری حالت یہ ہے ہم آئی ایم ایف کے بغیر نہیں بچ سکتے اورآئی ایم ایف کی شرائط کے بعد بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بھی دگنی ہو جائیں گی اور بے روزگاری کے شکار عوام پر ٹیکس بھی بڑھ جائیں گے اور اس سے مہنگائی المیے کی شکل اختیار کر جائے گی، آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے ملک میں ڈیڑھ کروڑ لوگ بے روزگار ہو جائیں گے اور لوگوں کا کھانا پینا تین سے ایک وقت پر آ جائے گا، ہمارے دوست ملک سعودی عرب، یو اے ای اور چین بھی ہماری مدد کر کر کے تھک چکے ہیں۔
ہمیں ان کی طرف سے بھی صاف انکار ہو چکا ہے اور امریکا مدت پہلے ہم سے منہ موڑ چکا ہے چناں چہ اب ہمارے پاس بیچنے کے لیے صرف دو اثاثے بچے ہیں، ایٹم بم اور فوج، ہم اگر بین الاقوامی طاقتوں کی شرائط مانتے رہے، ہم اگر اسی طرح قرضے لیتے رہے تو پھر ہمیں بالآخر ان کی یہ دونوں شرائط ماننا پڑیں گی۔
ایٹمی پروگرام سرینڈر کرنا پڑے گا اور فوج کی تعداد کم کرنا ہوگی اور ان دونوں شرائط کی اپنی قیمت ہے، ہم اس کے بعد کشمیر بھی نہیں لے سکیں گے اور ابھی نندن جیسے پائلٹس کے جہاز بھی نہیں گرا سکیں گے اور ہم اس کے بعد سری لنکا، نیپال اور بھوٹان بن کر رہ جائیں گے۔
ہم یہاں فرض کر لیتے ہیں آرمی چیف جنرل عاصم منیر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، سعودی عرب اور چین کو منا لیتے ہیں اور یہ ملک آخری بار ہماری مدد کر دیتے ہیں تو کیا یہ رقم بھی الیکشنز اور اس سیاسی بحران کا لقمہ نہیں بن جائے گی اور کیا ہم اگلے سال آج سے بھی زیادہ بدتر پوزیشن میں نہیں ہوں گے چناں چہ اب سوال یہ ہے اس صورت حال کا آخر حل کیا ہے؟ اس کا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے۔
فوج ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا بٹھائے، اپنی غلطیاں تسلیم کرے، معذرت کرے، سیاست دانوں کو ان کی غلطیاں بتائے اور پھر ایک چارٹر آف پاکستان سائن کرائے اور اس کے بعد بحرانوں کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے، ہم فیصلہ کر لیں ملک میں آج کے بعد کوئی ایکسٹینشن نہیں ہوگی، چیف جسٹس آف پاکستان کی طرح سینئر موسٹ جنرل اپنے وقت پر آرمی چیف بن جائے گا اور یہ اختیار آج کے بعد کسی وزیراعظم کے پاس نہیں ہوگا۔
آرمی چیف اپنے وقت پر ریٹائر بھی ہو جائے گا اور ملک کا کوئی عہدیدار اس کی مدت میں اضافہ نہیں کر سکے گا، حکومتیں خواہ بدلتی رہیں لیکن اسمبلیاں ہر صورت اپنی مدت پوری کریں گی، الیکشن کمیشن سو فیصد آزاد اور خود مختار ہوگا، الیکشن کمشنر کا فیصلہ بھی سو فیصد میرٹ اور خودکار نظام کے تحت ہوگا۔
ٹیکس پالیسی 20 سال کے لیے بنائی جائے گی اور اس میں کوئی ردوبدل نہیں کیا جائے گا تاکہ سرمایہ کار اس کے مطابق سرمایہ کاری کر سکیں، مذہب عوام کا ذاتی معاملہ ہوگا اور کوئی شخص کسی بھی شخص کو مذہبی بنیاد پر ہدف نہیں بنا سکے گا، مذہبی جلسوں اور جلوسوں پر پابندی لگا دی جائے، لاؤڈ اسپیکر کی آواز صرف مسجد کے اندر تک رہے گی۔
نماز کا وقت پورے ملک میں ایک ہوگا، اذان قومی سطح پر ہوگی اور ایک ہی وقت ہوگی، بچوں کا نصاب پورے ملک کے لیے ایک ہوگا، سڑکیں ہر صورت کھلی رہیں گی، آبادی کنٹرول کی جائے گی، بیوروکریسی میں دو سال کے اندر ریفارمز کی جائیں گی اور پورا سسٹم آن لائین اور آسان کر دیا جائے گا، پی آئی اے، ریلوے، ریڈیو، پی ٹی وی اور اسٹیل مل جیسے ادارے سالانہ 1400 ارب روپے نگل جاتے ہیں۔
یہ ایک سال کے اندر فروخت کر دیے جائیں گے اور ان سے حاصل ہونے والی رقم ملازمین میں تقسیم کر دی جائے گی اور آخری فیصلہ ہم ہر صورت ہر سال 200 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کریں گے اور اس کے لیے سالڈ اور فول پروف سسٹم بنائیں گے اگر ہالینڈ جیسا ملک صرف پھول یا کولمبیا صرف کافی بیچ کر اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکتا ہے تو ہم یہ کیوں نہیں کر سکتے؟
ہم نے اگر یہ فیصلے کر لیے تو ہم بچ جائیں گے ورنہ کنفیوژن کا یہ بحران اس ملک کوکھا جائے گا اور ہم اس سال کے آخر تک خانہ جنگی کا شکار ہو چکے ہوں گے۔