Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Argentine Ki Aabshaaren

Argentine Ki Aabshaaren

"ویزے کے بغیر دو ملکوں میں جانا خطرناک ہو سکتا ہے" ڈرائیور نے کندھے اچکا کر جواب دیا، سہیل مقصود نے حیران ہو کر پوچھا "کیا مطلب، تمام سیاح ہمارے سامنے جا رہے ہیں" ڈرائیور نے ہنس کر جواب دیا "لیکن ان میں کوئی پاکستانی نہیں ہے۔

تمہارا دوست پاکستانی ہے اور القاعدہ کو برازیل اور پیرا گوئے دونوں جانتے ہیں" میں نے سن کر قہقہہ لگایا اور آگے چل پڑا، ہمارا ڈرائیور بھی کندھے اچکا کر پیچھے پیچھے چل پڑا۔

ڈرائیور کا نام ماریو تھا اور وہ ایک روایتی ارجنٹائنی تھا، صاف ستھرا، مہذب، گفتگو کا رسیا اور قانون کا پابند، ہم اس کے ساتھ اگواسو (Iguazu) کی آبشاریں دیکھنے گئے تھے، اگواسو ریڈ انڈین زبان کا لفظ ہے جس کے معانی ہیں"بہت زیادہ پانی" یہ شہر ارجنٹائن کے شمال میں برازیل اور پیرا گوئے کے بارڈر پر ہے، یہ شہر دنیا کے سب سے بڑے جنگل ایمازون کا نقطہ انتہا ہے۔

ایمازون یہاں پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے تاہم یہ ختم ہوتے ہوتے برازیل، ارجنٹائن اور پیرا گوئے تین ملکوں کو ساڑھے تین سو آب شاریں دے جاتا ہے، پانی کی یہ دھاریں درجن بھر دریاؤں سے نکلتی ہیں اور شور مچاتی ہوئی میدانوں میں جا گرتی ہیں، اگواسو تین ملکوں کی سرحد بھی ہے، اس کی ایک سائیڈ پر برازیل، دوسری پر پیرا گوئے اور تیسری پر ارجنٹائن ہے۔

اگواسو کی آب شاریں دنیا کی سب سے بڑی آب شاروں میں شمار ہوتی ہیں اور یہ تینوں ملکوں کو ہر سال اربوں ڈالر کما کر دیتی ہیں، ارجنٹائن نے جنگل میں آب شاروں کے اوپر لوہے کے "واک وے" بنا رکھے ہیں، ہزاروں لوگ روزانہ آتے ہیں، ٹکٹ خریدتے ہیں اور واک وے سے ہوتے ہوئے، گھنے جنگل سے گزرتے ہوئے آب شاروں کے اوپر پہنچ جاتے ہیں۔

برازیل نے اپنی سائیڈ پر ہیلی کاپٹر اور کروز سروس شروع کر رکھی ہے، سیاح ڈیڑھ سو ڈالر ادا کرکے ہیلی کاپٹر سے آب شاریں دیکھتے ہیں اور پھر کروز میں سوار ہو کر آب شاروں کے نیچے قدرتی پانی کا شاور لیتے ہیں جب کہ پیرا گوئے نے آب شاروں کے نیچے غار بنا رکھے ہیں اور پانی کے ساتھ ہوٹل اور ریستوران کھول رکھے ہیں یوں تین مختلف ملکوں میں مختلف قسم کی سیاحتی سرگرمیاں چلتی ہیں، بارڈرپر سختی نہیں ہے۔

لہٰذا سیاح ٹیکسی پر ایک ملک سے دوسرے میں آتے جاتے رہتے ہیں، ہم نے بیونس آئرس (ارجنٹائن کا دارالحکومت) سے ماریو کا انتظام کر لیا تھا، وہ ایک کاری گر شخص تھا، ٹیکسی بھی چلاتا تھا، ہوٹل اور ریستوران بھی اور ساتھ ساتھ کرنسی کا کام بھی کرتا تھا، بیونس آئرس سے روزانہ 12 فلائٹس اگواسو جاتی ہیں، یہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے جہاں سے آپ برازیل، پیرا گوئے، یوروگوئے اور بولیویا بھی جا سکتے ہیں۔

دارالحکومت سے اگواسو کے لیے پونے دو گھنٹے کی فلائٹ ہے، شہر صاف ستھرا اور درمیانے سائز کا ہے، چاروں طرف گھنا جنگل ہے، مٹی سرخ اور چپکاؤ ہے، جوتوں اور ٹائروں کے ساتھ چپک جائے تو پیچھا نہیں چھوڑتی، ماریو نے بتایا زمین میں آئرن کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے مٹی کا رنگ سرخ ہے، جنگل میں گیدڑ، چیتے، خرگوش، ہرن، رینو اور عقاب ہیں لہٰذا پولیس سیاحوں کو جنگل میں نہیں جانے دیتی، سڑک اونچی نیچی اور ناہموار ہے۔

فضا میں تازہ کٹے ہوئے چارے جیسی خوشبو رہتی ہے، ایئرپورٹ سے شہر جاتے ہوئے راستے میں ریڈ انڈینز کے گاؤں بھی پڑتے ہیں، انڈین انتہائی افسوس ناک اور غربت سے لتھڑی ہوئی زندگی گزار رہے ہیں۔

ان کے دیہات میں کیچڑ، بیماری اور عسرت کے سوا کچھ نہیں، یہ لوگ کبھی اس ساری سرزمین کے مالک تھے لیکن پھر کولمبس نے امریکا دریافت کر لیا، یورپی لوگ آئے اور یہ اپنے ملک سے محروم ہوتے چلے گئے، یہ اب کیمپ نما دیہات میں رہتے ہیں، پھل، لکڑی اور پودے بیچتے ہیں اور دائیں بائیں بہتی ہوئی شان دار زندگی کو حسرت سے دیکھتے ہیں۔

ماریو پہلے دن ہمیں شہر سے آگے پیرا گوئے کے بارڈر پر لے گیا، سرحد کے قریب قیمتی پتھروں اور ہیروں کی مائین تھی، یہ علاقہ وانڈا (Wanda) کہلاتا ہے، مائین پرائیویٹ تھی، مجھے زندگی میں پہلی بار ہیروں اور قیمتی پتھروں کی مائین دیکھنے کا اتفاق ہوا، مائین کے اوپر گھنا جنگل ہے، نیچے خشک تالاب ہے اور تالاب کے دائیں بائیں مائین تھی، گائیڈ نے بتایا قیمتی پتھروں کی مائین میں صرف اور صرف ہاتھوں سے کام کیا جاتا ہے۔

چٹانوں کے درمیان قیمتی پتھر شہد کے چھتے کی طرح ہوتے ہیں، ان چھتوں کو پتھر کاٹ کر پورے کا پورا باہر نکالا جاتا ہے اور پھر اسے چھتے سمیت بیچا جاتا ہے، ہم نے جگہ جگہ پتھروں کے چھتے دیکھے، ان کے اندر انار کے دانوں اور مگر مچھ کے جبڑے کی طرح قطار اندر قطار پتھر جڑے ہوئے تھے، ان کی نوکیں نکلی ہوئی تھیں اور یوں محسوس ہوتا تھا یہ چٹان کے دانت ہیں اور قدرت نے یہ دانت چٹانوں کے آرام میں خلل ڈالنے والوں کو سزا دینے کے لیے بنائے ہیں۔

چھتوں کے اندر مختلف رنگوں کے پتھر تھے، ان پر جب روشنی پڑتی تھی تو آنکھیں چندھیا جاتی تھیں، گائیڈ نے بتایا یہ چھتے ہزاروں لاکھوں سال قبل اس وقت بنے جب زمین بہتا ہوا لاوا تھی، لاوے میں بلبلے بنتے تھے اور یہ بلبلے بعدازاں چھتوں میں تبدیل ہو جاتے تھے، گائیڈ نے یہ بھی بتایا چٹان میں جس جگہ سفید رنگ کی لکیر ہوتی ہے چھتے صرف وہاں پائے جاتے ہیں لہٰذا کاری گر صرف لائنوں کا تعاقب کرتے ہیں اور لکیروں کو کھود کھود کر چھتے تلاش کرتے ہیں، گائیڈ ہمیں مائین کے بعد شو روم میں لے گیا۔

وہاں درجنوں چھتے پڑے تھے، ہم نے ایک کی قیمت پوچھی توبتایا گیا اڑتیس لاکھ پیسو، یہ ون ملین ڈالرز بنتے تھے اور وہاں سو کے قریب ایسے چھتے موجود تھے، گویا صرف ایک ہال میں 100 ملین ڈالرز کے پتھر پڑے تھے جب کہ وہاں ایسے کئی ہال تھے، قیمتی جیولری اور ڈیکوریشن پیس بھی رکھے ہوئے تھے لیکن وہ انتہائی قیمتی تھے، ماریو ہمیں اس کے بعد پیرو کے بارڈر پر لے گیا، وہ ایک عام سی باڑ تھی، ایک سائیڈ پر گھر بنے ہوئے تھے، یہ ارجنٹائنی سائیڈ تھی، اس کے ساتھ دریا بہہ رہا تھا اور دریا کی دوسری طرف پیرا گوئے تھا۔۔

ہم سرحد پر چلتے چلتے نیچے دریا تک آ گئے، وہاں ایک نوجوان مچھلیاں پکڑ رہا تھا، نوجوان نے بتایا پیرا گوئے کے تاجر صبح سبزیاں اور فروٹ لے کر دریا کی اس طرف آجاتے ہیں، ارجنٹائنی تاجر یہ اشیاء خریدتے ہیں اور گاڑیوں میں بھر کر شہر لے جاتے ہیں، صبح یہاں منڈی کا سماں ہوتا ہے، ہم نے پوچھا کیا ہم یہاں سے پیرا گوئے جا سکتے ہیں، اس کا جواب تھا آپ اگر صبح آ جائیں تو سبزی اور فروٹ کے بحری جہاز میں بیٹھ کر جا سکتے ہیں اور ایک دو دن رہ کر بے شک واپس آ جائیں، میں نے زندگی میں بے شمار بارڈر دیکھے ہیں لیکن اتنا سادا اور فوج اور پولیس کے بغیر بارڈر پہلی بار دیکھا، میں نے سوچا ہم بھی پاک انڈیا، افغان پاکستان، پاکستان ایران اور پاکستان چین بارڈر پر ایسی ٹیکس فری منڈیاں کیوں نہیں بناتے؟

ان سے اشیائے صرف کی قیمتیں بھی کم ہو جائیں گی اور غیر قانونی تجارت بھی لیگل ہو جائے گی، ہم نے واپسی پر شہر جاتے ہوئے شراب کی بے شمار دکانیں دیکھیں، ماریو نے بتایا برازیل اور پیرا گوئے کے لوگ شراب خریدنے کے لیے روزانہ یہاں آتے ہیں، ارجنٹائن کی شراب کوالٹی میں بہتر اور سستی ہے اور یہ ہمسایہ ملکوں میں مقبول بھی ہے۔

اس لیے اگواسو میں سیکڑوں اسٹورز ہیں، ہم نے راستے میں پٹرول پمپس پر گاڑیوں کی قطاریں بھی دیکھیں، پتا چلا ارجنٹائن میں پٹرول سستا ہے لہٰذا پیرا گوئے اور برازیل کے لوگ پٹرول ڈلوانے کے لیے یہاں آ جاتے ہیں اور یوں قطاریں لگ جاتی ہیں۔

اگواسو سیاحتی ٹاؤن ہے، شہر میں ہوٹلوں کے 30 ہزار کمرے ہیں، لوگوں نے اپنے گھروں میں بھی ایک دو کمرے کرائے کے لیے رکھے ہوئے تھے، آپ کسی بھی گھر یا فلیٹ میں جا کر کرائے پر کمرہ لے سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود کمرہ ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ہمیں بھی کمرے کے لیے ٹھیک ٹھاک خواری برداشت کرنا پڑی، بہرحال کمرہ مل گیا، ہمارا ہوٹل سرحد پر واقع تھا، ہمیں کمرے کی کھڑکی سے برازیل کا پل اور پیرا گوئے کا بڑا سا ویل (جھولا) نظر آتا تھا، ہمارا اگلا دن آب شاروں کے لیے وقف تھا، ماریو کا کہنا تھا آپ اگر تینوں سائیڈز دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر صبح ساڑھے سات بجے نکلنا ہوگا۔

ہم نے اس کے ساتھ وقت طے کر لیا، شہر کے سینٹر میں ہمیں حلال شوارما بھی مل گیا، مالک مراکو سے تعلق رکھتا تھا اور حلیے اور وزن سے استاد نصرت فتح علی خان کا چھوٹا بھائی محسوس ہوتا تھا، ہمیں بہرحال حلال شوارما اور اسے مسلمان گاہک مل گئے۔

سینٹر اچھا اور بھرپور تھا، ریستورانوں، کافی شاپس اور آئس کریم پارلرز میں ٹھیک ٹھاک رش تھا تاہم مارکیٹ کے درمیان ریڈانڈینز نے اپنے ٹھیلے لگا رکھے تھے، وہ آوازیں دے کر اشیاء بیچ رہے تھے، فضا میں ایک بساند سی رچی ہوئی تھی، یہ غالباً مردہ جانوروں کی بو تھی۔

ہمارا دوسرا دن آب شاروں کا دن تھا، ماریو نے ہمیں وہاں پہنچا دیا، یہ لوگ اپنی زبان میں آب شاروں کو "قاتاراتا" کہتے ہیں، یہ لوگ آنکھ کے موتیے کو بھی "قاتاراتا" کہتے ہیں، آب شاریں کیوں کہ سبز ایمازون میں موتیا کی طرح محسوس ہوتی ہیں، شاید اسی لیے انھیں قاتا راتا کہا جاتا ہے، ارجنٹائن کی سائیڈ پر جنگل میں ریل گاڑی بھی چلتی ہے جب کہ وہاں درجنوں ٹریکس بھی ہیں۔

ٹریکس کے ذریعے پورا علاقہ دیکھنے میں کم از کم چھ گھنٹے لگتے ہیں جب کہ ہمارے پاس صرف ساڑھے تین گھنٹے تھے لہٰذا ہم نے آدھا سفر ٹرین پر کیا اور آدھا پیدل، جنگل میں جگہ جگہ آب شاروں کے ویو پوائنٹس تھے اور ہر ویو پوائنٹ نظروں کو کھینچ لیتا تھا، اوپر نیلا آسمان تھا، دائیں بائیں بھورجنگل اور قدموں میں نیچے گہرائی میں گرتا ہوا پانی تھا، وہ جگہ حقیقتاً طلسم ہو ش ربا تھی، ایک ایسا طلسم جو انسان کو اندر سے ہرا کر دیتا ہے، جو انسان کو ماڈرن زمانے سے دور قبل مسیح کے زمانے میں لے جاتا ہے اور ہم اس وقت ایسے دور اور حالات سے گزر رہے تھے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.