Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Argentine Tamam

Argentine Tamam

ترتونی فیملی (Tortoni) کا تعلق اٹلی سے تھا، یہ لوگ اٹھارہویں صدی میں اٹلی سے فرانس شفٹ ہوئے اور خوراک اور کافی کے بزنس میں قدم رکھ دیا، خاندان نے 1800 میں پیرس کے بلیوارڈ ڈی اٹالینز پر کیفے ترتونی کے نام سے پہلی کافی شاپ کھولی، یہ کیفے اپنی کافی، کیک، پیسٹریوں، چاکلیٹ، آئس کریم اور سینڈوچز کی وجہ سے چند ہی برسوں میں فرانس کی ایلیٹ فیملیز میں مشہور ہوگیا اور شاہی خاندان کے لوگ تک وہاں روزانہ آنے اور بیٹھنے لگے۔

1845میں ترتونی فیملی کا ایک نوجوان جین تون (Jean Touan) بیونس آئرس گیا اور اس نے 1858 میں ایونیو مائیو پر کیفے ترتونی کے نام سے کافی شاپ کھول لی، یہ بیونس آئرس کا پہلا فائیو اسٹار کیفے تھا، اس کے لیے فرنیچر اٹلی اور فرانس سے منگوایا گیا، انٹیریئر ڈیکوریٹر اور آرکی ٹیکٹ بھی پیرس سے آئے جب کہ کراکری چین، جاپان اور اسپین سے منگوائی گئی، یہ کیفے دیکھتے ہی دیکھتے ارجنٹائن کی ایلیٹ فیملیز، سیاست دانوں، مصوروں، موسیقاروں اور کھلاڑیوں میں مقبول ہوگیا، لوگ قطار میں لگ کر میز بک کراتے تھے اور اپنی شامیں بیونس آئرس کے اعلیٰ طبقے کے ساتھ گزارتے تھے۔

کیفے نے سو سال قبل لیچے میری نیگاڈا (Leche Merengada) کے نام سے اپنی آئس کریم لانچ کی، ارجنٹائن کی مشہور شاعرہ، ناول نگار اور موسیقار ماریا ایلینا ویلش نے اس آئس کریم پر گانا بنا کر اسے پوری دنیا میں مشہور کر دیا، ترتونی کیفے مشہور گلوکار کارلوس گارڈل (Gardel) کو اتنا پسند تھا کہ اس نے کیفے میں اپنے لیے ایک میز مستقل طور پر ریزرو کرا لی، یہ میز آج بھی اس کے لیے ریزرو ہے اور لوگ اس کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں بنواتے ہیں۔

ہم بیونس آئرس کے دوسرے دن کیفے ترتونی پہنچ گئے، کیفے صدارتی محل سے دس منٹ کی واک پر ہے، آپ صدارتی محل کی طرف پشت کرکے چلنا شروع کر دیں ٹھیک دس منٹ بعد آپ کے دائیں ہاتھ پر کیفے ترتونی ہوگا، ایونیو مائیو کی دونوں طرف کلونیل اسٹائل کی بڑی بڑی عمارتیں ہیں، تمام عمارتیں سڑک کی طرف کھلتی ہیں اوران کے درمیان کیفے ترتونی کی چھوٹی سی تختی لگی ہے، ہمیں یہ تختی نظر نہیں آئی لیکن ہم اس کے باوجود ٹھیک کیفے کے سامنے پہنچ گئے، کیسے؟

یہ نسخہ ہمیں ڈرائیور نے بتایا تھا، اس کا کہنا تھا آپ ایونیو مائیو پر چلنا شروع کر دیں، آپ کو جس عمارت کے سامنے لائین نظر آئے وہ کیفے ترتونی ہوگا اور ہمیں ٹھیک دس منٹ بعد سڑک پر لمبی قطار نظر آ گئی، ہم وہاں رک گئے اور وہ واقعی کیفے ترتونی تھا، سیاح اور ارجنٹائن کے اپنے لوگ ترتونی میں بیٹھنا اعزاز سمجھتے ہیں، یہ قطاروں میں کھڑے ہو کر کیفے میں داخل ہوتے ہیں، ہمیں 40 منٹ قطار میں کھڑا ہونا پڑا، اس دوران کیفے کا منیجر باہر آتا تھا اور باری باری لوگوں کو اندر لے کر جاتا تھا۔

ہماری باری آئی تو میں سہیل مقصود کے ساتھ کیفے میں داخل ہوگیا، کیفے اندر سے قدیم لیکن انتہائی خوب صورت تھا، فرش، دیواریں اور چھت آبنوسی لکڑی کی تھیں اور فرنیچر فرنچ اسٹائل تھا، ویٹر بھی انتہائی مہذب اور خدمت گزار تھے، ہمیں بتایا گیا شام کے وقت یہاں روزانہ جاز میوزک اور ٹینگو ڈانس ہوتا ہے، ہم نے کافی منگوائی اور اسے دیر تک انجوائے کیا، یہ لوگ ایک خاص قسم کے بسکٹ الفاہور(Alfajor) بھی بناتے ہیں، یہ دو پرتوں پر مشتمل ہوتے ہیں جن کے درمیان میں مختلف اشیاء کا پیسٹ ہوتا ہے اور یہ انتہائی خستہ اور میٹھے ہوتے ہیں، ترتونی کے الفاہور ان کا شیف خود بناتا ہے۔

ترتونی میں کیک رس ٹائپ کا ایک لمبا بسکٹ بھی بنایا جاتا ہے، لوگ اسے بہت پسند کرتے ہیں، دیواروں پر پرانی تصویریں اور پینٹنگز لگی تھیں، مجھے دنیا کی قدیم ترین کافی شاپس میں جانے کا اتفاق ہو چکا ہے، پیرس کی قدیم ترین کافی شاپ کیفے پروکوپ (Procope) ہے (یہ 1652 میں بنی تھی)۔

ترکی کے شہر غازی انتب کا تہامس کیفے، بڈاپسٹ کا نیویارک کیفے، روم کی قدیم ترین کافی شاپ اینٹیکو (Antico) (یہ 1760 میں بنی تھی)، آکسفورڈ کی 1652ء کی کافی ہو یا پھر پیرس کے کیفے ڈی فلورا اور فوگٹ ہوں یا پھر وارسا کا کیفے شیبے (Shabby) یا پھر قاہرہ کے خان خلیلی بازار اور تیونس شہر کی نیلی دیواروں کے کیفے ہوں مجھے دنیا کے قدیم ترین اور شان دار ترین کافی شاپس میں جانے کا اتفاق ہوا، کافی شاپس کے اس البم میں کیفے ترتونی بھی شامل ہوگیا اور میں نے اسے ٹھیک ٹھاک انجوائے کیا۔

ارجنٹائن اس وقت انفلیشن میں دنیا کا بدترین ملک ہے، ہم 7 اکتوبر 2023کو بیونس آئرس پہنچے تو اس دن ایک ڈالر 850 پیسو کے برابر تھا، ہم آٹھ دن وہاں رہے، اس دوران کرنسی 1100 پیسو تک پہنچ گئی، ایجنٹ بازاروں اور چوکوں میں کھڑے ہو کر ڈالر ڈالر کی صدائیں لگاتے تھے، ہم تین سو یوروز یا ڈالرز تبدیل کراتے تھے اور ہمارے لیے نوٹ اٹھانا مشکل ہو جاتے تھے، سب سے بڑا نوٹ دو ہزار پیسو کا تھا اور یہ بھی مئی 2023 میں لانچ ہوا تھا، بھکاری بھی ڈالر مانگتے تھے۔

ڈالر کا سرکاری ریٹ 350 جب کہ اوپن مارکیٹ میں 1100 پیسو تھا چناں چہ ہم اگر کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے تھے یا ہوٹلوں اور ریستورانوں میں ڈالرز میں ادائیگی کرتے تھے تو ساڑھے تین سو پیسو کے حساب سے کٹوتی ہوتی تھی، یہ حقیقت مجھے ارجنٹائن کے سفیر نے اسلام آباد میں بتائی تھی مگر میں نے اسے سیریس نہیں لیا تھا لیکن ہم نے جب ائیرپورٹ پر ٹیکسی لی اور وہ ہمیں 58 یوروز میں پڑی تو اپنی حماقت کا احساس ہوگیا کیوں کہ ہم اگر لوکل کرنسی میں ادائیگی کرتے تو یہ رقم 12 یوروز ہوتی۔

ہم نے ائیرپورٹ سے کافی بھی لی، کریڈٹ کارڈ سے اس کی رقم 14 ڈالر تھی جب کہ لوکل کرنسی میں یہ 6 ڈالر تھی مگر اس ہائی انفلیشن کے باوجود لوگ مزے سے زندگی گزار رہے ہیں۔

ارجنٹائن اب تک 9 بار ڈیفالٹ کر چکا ہے لہٰذا اگر ڈیفالٹ دیکھے جائیں، انفلیشن (مہنگائی) دیکھی جائے یا پھر دنیا کے امیر ترین ملک کو غریب ترین ملک میں بدلتے ہوئے دیکھا جائے تو بھی دنیا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے اگر ارجنٹائن خوف ناک معاشی بحران کے باوجود زندہ ہے اور یہ چل بھی رہا ہے تو پھر ہمیں کوئی خطرہ نہیں، ہم پاکستانی اس سے کہیں بہتر پوزیشن میں ہیں، ہمارے ملک میں ڈالر آج بھی 280 روپے میں ملتا ہے چناں چہ فکر کی کوئی بات نہیں۔

ارجنٹائن پاکستانیوں کو ویزے نہیں دیتا، کیوں؟ اس کی تین وجوہات ہیں، پاکستان اور ارجنٹائن کے درمیان کبھی بہت اچھے تعلقات ہوتے تھے مگر پھر یہ تعلقات خراب ہو گئے اور کسی نے انھیں ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی، ارجنٹائن نے اسلام آباد میں 1973 میں پارک تک بنوا کر دیا تھا، یہ پارک آج بھی میلوڈی میں پولی کلینک اسپتال کے قریب واقع ہے اور اس پر ارجنٹینا پارک لکھا ہے، 1990 کی دہائی میں ارجنٹائن ایمبیسی کے ایک افسر کو گرفتار کیا گیا تھا، اس پر اسرائیل کے لیے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی جاسوسی کا الزام تھا، اس کی گرفتاری کے بعد تعلقات خراب ہو گئے۔

دوسرا مرحلہ یوں آیا، بیونس آئرس میں غالباً1994 میں دھماکے ہوئے، ان میں ایران کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا لیکن پولیس نے ارجنٹائن میں موجود کئی پاکستانیوں کو گرفتار کر لیا، ان میں گجرات کے لوگ بھی شامل تھے، چوہدری شجاعت حسین اس وقت وزیر داخلہ تھے، انھوں نے ارجنٹائن حکومت کے سامنے پاکستانیوں کی گرفتاری کا ایشو اٹھایا لیکن دوسری طرف سے کوئی حوصلہ افزاء جواب نہیں ملا، اس کے نتیجے میں سفارتی تعلقات صفر ہو گئے اور یہ اب تک زیرو ہیں، حکومت کو اب اس پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا، ارجنٹائن میں ہمارے سفیر کی پوسٹ خالی ہے، ہمیں فوری طور پر وہاں کوئی سینئر سفیر بھی بھجوانا چاہیے اور دونوں ملکوں کے درمیان ویزا سروس بھی بحال کرانی چاہیے۔

ارجنٹائن میں پوری دنیا سے سیاح جاتے ہیں، پاکستانیوں کو بھی ان میں شامل ہونا چاہیے، وہاں ہنرمندوں کی بھی ٹھیک ٹھاک گنجائش ہے، بزنس کے مواقع بھی ہیں، ارجنٹائن دو سال میں نیشنلٹی بھی دے دیتا ہے لہٰذا ہم اگر اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کر لیں تو ہمارے ہنرمند بھی جا سکتے ہیں، بزنس بھی شروع ہو سکتا ہے اور سیاحتی سرگرمیاں بھی ہو سکتی ہیں، میری ارجنٹائن میں پاکستان کے چارج ڈی افیئر شفیع اعوان سے ملاقات ہوئی، یہ مثبت اور متحرک انسان ہیں، لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں۔

ارجنٹائن کی دو اور روایات بھی حیران کن ہیں، پورے ملک میں ٹیکسی اور بسوں کے لیے قطاریں بنائی جاتی ہیں، لوگ اسٹینڈ پر پہنچ کر چپ چاپ قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنی باری پر ٹیکسی اور بس میں سوار ہو جاتے ہیں، مجھے کسی جگہ کوئی ہڑبونگ نظر نہیں آئی، دوسرا ارجنٹائن میں ائیرپورٹس پر بورڈنگ پاس کے لیے الگ رقم وصول کی جاتی ہے اور جہاز کے اندر لے جانے والے بیگ کا کرایہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے، ہمیں یہ حرکت عجیب محسوس ہوئی۔

ائیرہوسٹسز میں شی میل بھی شامل ہیں اور لینڈنگ کے بعد پوری فلائیٹ تالی بجاتی ہے، قسطوں پر اشیاء خریدنے کا رجحان بھی عام ہے، سبزی تک قسطوں میں خریدی جاتی ہے لہٰذا پورا ملک مقروض ہے اور قسطیں دیتا رہتا ہے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.