Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ashiq Nahi Ummati

Ashiq Nahi Ummati

ہم جب تک نبی اکرم ﷺ سے اپنی آل، اولاد، مال، دولت اور جان سے زیادہ محبت نہ کریں ہم اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتے، یہ دنیا کے ہر مسلمان کا ایمان ہے، ہماری زندگی عشق رسولﷺ سے شروع ہوتی ہے اور عشق رسولﷺ پر ختم ہو جاتی ہے۔

دنیا کا شائد ہی کوئی مسلمان ہوگا جس کی آنکھیں نبی رسالتﷺ کے ذکر پر نم نہ ہوں اور جس کا دل ذکر رسولﷺ پر تڑپتا نہ ہو، میں ان حضرت احمد رضا خاں بریلویؒ کا ماننے والا ہوں جنھوں نے فرمایا تھا "میں اللہ کو اللہ اس لیے مانتا ہوں کہ اسے حضرت محمدﷺ اللہ کہتے ہیں" میں حضرت اویس قرنیؓ کو اپنا رول ماڈل سمجھتا ہوں جو زندگی بھر نبی اکرمﷺ کی زیارت نہیں کر سکے لیکن عشق رسولﷺ نے انھیں صحابی کے درجے پر فائز کر دیا، جو عشق رسولﷺ میں اس مقام تک چلے گئے کہ انھیں کسی نے بتایا جنگ احد میں آپﷺ کا دانت مبارک شہید ہوگیا، حضرت اویس قرنیؓ نے اپنے تمام دانت توڑ دیے اور جن کا عشق انھیں اس مرتبے تک لے گیا کہ آپﷺ نے اپنا خرقہ مبارک حضرت اویس قرنیؓ کو عنایت کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی فرمایا جو شخص انھیں یہ خرقہ دینے جائے وہ ان سے امت کی مغفرت کے لیے دعا کرائے۔

میں عشق رسولﷺ میں حضرت بلالؓ کی تقلید کا قائل بھی ہوں، آپﷺ کا وصال ہوا تو آپؓ کے حلق سے اذان نہیں نکلتی تھی، آپؓ اذان دینے لگتے تھے تو اشہد ان محمد الرسول اللہ پر پہنچ کر آپؓ کی آواز آنسوؤں میں ڈوب جاتی تھی اور یہ آپؓ کے عشق کی معراج تھی جب حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت خالدؓ بن ولید کی گرفتاری کا فیصلہ کیا تو آپؓ کو پورے عالم اسلام میں حضرت بلالؓ واحد شخص دکھائی دیے جو اسلام کے سب سے بڑے سپہ سالار کوخلیفہ کا حکم بھی پہنچا سکتے تھے اور اس حکم پر عملدرآمد بھی کرا سکتے تھے چنانچہ حضرت بلالؓ خلیفہ کا پیغام لے کر حضرت خالدؓ بن ولید کے پاس پہنچے، سپہ سالار کو گھوڑے سے نیچے اترنے کا حکم دیا، حضرت خالدؓبن ولید چپ چاپ گھوڑے سے اترآئے۔

حضرت بلالؓ نے انھیں اپنے ہاتھ آگے بڑھانے کا حکم دیا، حضرت خالدؓ نے اپنے دونوں ہاتھ حضرت بلالؓ کے سامنے کر دیے، آپؓ نے حضرت خالدؓ بن ولید کی پگڑی کھولی، اس پگڑی سے حضرت خالدؓ بن ولید کے دونوں ہاتھ باندھے اور فرمایا "تم خلیفہ کے حکم سے گرفتار ہو چکے ہو، تم اب مسلمانوں کے سپہ سالار بھی نہیں رہے" اور حضرت خالدؓ بن ولید سمیت دو لاکھ مجاہدوں کے اس لشکر میں سے کسی کو اس حبشی زادے کے سامنے انکار کی جرات نہ ہوئی اور حضرت بلالؓ حضرت خالدؓ بن ولید کو اسی عالم میں مدینہ مبارک لے آئے اور میں عشق رسولﷺ میں اس اسامہ بن زیدؓ کا مقلد ہوں جنھیں نبی اکرم ﷺ نے اپنے لشکر کا سالار بنایا اور آپﷺ کے وصال مبارک کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ لشکر روانہ کیا تو خلیفہ نے اس غلام زادے کے گھوڑے کی لگام تھام رکھی تھی اور مستقبل کے جید سپہ سالار اور خلفاء اس غلام زادے کے گھوڑے کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے اور میں عشق رسولﷺ میں ان عاشقوں کے عشق کا بھی قائل ہوں جو زندگی کی آخری ساعتوں تک پاؤں میں جوتا پہن کر مدینہ منورہ کی گلیوں میں داخل نہیں ہوئے کہ کہیں ان کا جوتا کسی ایسی جگہ نہ آ جائے جہاں کبھی نبی رسالتﷺ نے پائے مبارک رکھا ہو اور میں عشق میں ان لوگوں کی محبت کوبھی وضو کا درجہ دیتا ہوں جو نبی اکرمﷺ کی داڑھی مبارک کی طرح داڑھی رکھتے ہیں۔

جو سنت سمجھ کر روز آنکھوں میں سرما لگاتے ہیں، جو روز شہد کھاتے ہیں، جو سفید شلوار اور کُرتہ پہنتے ہیں، جو سر میں مہندی لگاتے ہیں، جو عربی کھسہ پہنتے ہیں اور جو سر پر سبز یا سیاہ پگڑی باندھتے ہیں اور میں عشق رسولﷺ میں ان لوگوں کو بھی اپنا رہنما سمجھتا ہوں جو لوکی کدو کھا کر زندگی گزار دیتے ہیں کہ آپﷺ نے لوکی کدو کو پسند فرمایا تھا۔

مجھے نبی اکرمﷺ کی ذات مبارکہ سے عشق ہے اور میں اس عشق میں غازی علم دین شہید کی موت مرنا چاہتا ہوں اور حضرت بلالؓ اور حضرت اویس قرنیؓ کی زندگی کا خواستگار ہوں لیکن اس کے باوجود ایک سوال اکثر میرے ذہن میں ابھرتا ہے اور رگ و پے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے، میں اکثر سوچتا ہوں میں عشق رسولﷺ میں جان دینے اور جان لینے پر تیار ہو جاتا ہوں لیکن میں نے آج تک نبی اکرمﷺ کے کسی فرمان، کسی حکم پر عمل نہیں کیا، میں عاشق ضرور ہوں لیکن میں نبی اکرمﷺ کا سچا اور کھرا امتی نہیں ہوں، میں شہ رگ تک آپﷺ کے عشق سے بھرا ہوا ہوں، آپﷺ کے ذکر پر میری آنکھیں چھلک پڑتی ہیں، میرا دل تڑپ کر سینے کی قید سے آزاد ہونے لگتا ہے لیکن میری زندگی میں نبی اکرمﷺ کے کسی حکم، کسی قول کی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔

میں اپنے اقوال سے لے کر افعال تک کسی پہلو سے محبوب خدا کا امتی دکھائی نہیں دیتا، مثلاً میرے رسولﷺ کی برداشت پر ساتوں آسمان قربان ہو جاتے تھے، آپﷺ حرم شریف کے صحن میں نماز ادا کر رہے ہوتے تھے، کفار آپ پر اونٹوں کی اوجھڑیاں ڈال دیتے تھے، آپ کی سانس اکھڑنے لگتی تھی یہاں تک کہ آپﷺ کی صاحبزادیاں بے تاب ہو کر گھروں سے نکل پڑتی تھیں، حرم شریف پہنچتی تھیں اورروتی جاتی تھیں اور آپﷺ کے سر مبارک سے اوجھڑیاں اور آنتیں اتارتی جاتی تھیں اور کفار کعبہ کے سائے میں کھڑے ہو کر قہقہے لگاتے جاتے تھے۔

آپﷺ کو طائف کے لوگوں نے پتھر مارے، خون آپﷺ کے سرمبارک سے نکل کر نعلین شریفین میں جم گیا، آپﷺ نے درخت کے ساتھ ٹیک لگائی، خادم نے نعلین شریفین اتاریں تو آپﷺ کی حالت دیکھ کر آنسو ضبط نہ کر سکا، اس وقت فرشتوں کی برداشت بھی جواب دے گئی، حضرت جبرائیل امینؑ تشریف لائے اور عرض کیا آپ اجازت دیں تو میں طائف کی ساری آبادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں، آپﷺ نے مسکرا کر فرمایا "نہیں شائد ان کی آنے والی نسلیں مسلمان ہو جائیں" آپﷺ روز اس گلی سے گزرتے تھے اور روز ایک مخصوص وقت پر وہ بوڑھی خاتون گھر بھر کا کوڑا آپﷺ کے اوپر گرا دیتی تھی مگر آپﷺ کی جبین نیاز پر کبھی شکن آئی، آپﷺ نے کبھی راستہ بدلا اور نہ ہی آپﷺ نے کبھی اس سلوک پر احتجاج کیا۔

میں آج اس ملک کے تمام عاشقان رسولﷺ کو چیلنج کرتا ہوں، آئیے گھر سے باہر نکلیے اور زندگی میں صرف دو تین بار اپنے سر پر کوڑا پھینکنے کی اجازت دے دیجیے، میں دیکھتا ہوں آپ کا صبرکب تک اپنی بنیادوں پر قائم رہتا ہے، سر پر کوڑا برداشت کرنا اور اس کے بعد مسکرانا بھی تو سنت ہے، آپ میں سے کون ہے جو یہ سنت ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور آپ نبی اکرمﷺ کی برداشت ملاحظہ کیجیے، فتح مکہ کے وقت آپﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ کا قاتل آپﷺ کے سامنے پیش ہوا، آپﷺ حضرت حمزہؓ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے اور حضرت حمزہؓ کی شہادت پر آپﷺ نے فرمایا تھا کیا اس پورے مدینہ میں حمزہؓ کو رونے والا کوئی نہیں اور نبی اکرمﷺ کے یہ لفظ اہل مدینہ کے دل میں تیر کی مانند لگے اور پورے شہر کے منہ سے آہیں ابل پڑیں۔

اس حضرت حمزہؓ کا قاتل آپﷺ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کیا "یا رسول اللہﷺ کیا آپﷺ نے مجھے بھی معاف فرما دیا" آپﷺ نے فرمایا "ہاں، میں نے تمہیں بھی معاف کر دیا لیکن کوشش کرنا تم کبھی میرے سامنے نہ آؤ"۔ میں اپنے آپ سے اکثر سوال کرتا ہوں، میرے اندر وہ صبر اور وہ برداشت کیوں نہیں جو نبی اکرمﷺ کی شخصیت کا حصہ تھی۔

ہم سب نبی اکرمﷺ کے عاشق ہیں لیکن نبی اکرمﷺ کے وہ عاشق کہاں ہیں جو برداشت کو سنت سمجھتے تھے، جو بڑے سے بڑے اختلاف کو ہنس کر سہہ جاتے تھے اور جو انسان کو آخری سانس تک اصلاح کا موقع دیتے تھے، ہم اس رسولﷺ کی طرف کیوں نہیں دیکھتے جنھوں نے منافق اعظم عبداللہ بن اُبئی کا جنازہ بھی پڑھایا تھا، اسے کرتہ مبارک کا کفن بھی عنایت کیا تھا اورجو اس کی مغفرت کے لیے دعا بھی کیاکرتے تھے اور ہم رسول اللہ ﷺ کی حیات کے ان پہلوؤں پر عمل کیوں نہیں کرتے جن میں آپﷺ مسکراتے دکھائی دیتے ہیں، جن میں آپﷺ پودوں سے لے کر اونٹوں تک سے شفقت کرتے ہیں اور جن میں آپﷺ کافروں کو آخری سانس تک اصلاح کی گنجائش بھی دیتے ہیں، یہ درست ہے ہمیں عاشق رسول ہونا چاہیے کیونکہ عشق رسولﷺ کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا لیکن ہمیں عاشق کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ کا امتی بھی تو ہونا چاہیے، ہماری زندگی میں رسول اللہﷺ کے کسی ایک قول کی جھلک بھی تو دکھائی دینی چاہیے۔

ہم اعمال میں دنیا کی بدترین قوم ہیں، ہماری زندگیوں میں خوف خدا دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی سنت رسولﷺ لیکن ہم اس کے باوجود عشق رسولﷺ کے دعوے بھی کرتے ہیں، ہم سے بڑا ظالم، ہم سے بڑا ستم گر کون ہے؟ ہمارے رسولﷺ کو اس وقت عاشقوں سے زیادہ امتیوں کی ضرورت ہے اور عالم اسلام میں عاشق تو کروڑوں اربوں ہیں لیکن امتی کوئی نہیں۔ مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے ہمارے رسولﷺ عاشقوں کی بھیڑ میں امتی تلاش کرتے ہوں گے، کاش ہم اپنے رسولﷺ کو چند امتی فراہم کر دیں، ہم اس عید پر ہی امتی بن جائیں، ہم خوشی کے اس موقع پر ہی رسول اللہ ﷺ کی کوئی ایک سماجی سنت اپنا لیں، ہم دوسروں کو برداشت کرنا شروع کر دیں، ہم مسکرانا ہی شروع کر دیں، کاش ایسا ہو جائے!

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.