ہمارے گائیڈ جاوید صاحب اندرون لاہور کی دائی ہیں۔یہ کئی نسلوں سے وال سٹی کے باسی ہیں۔یہ علاقہ سیکڑوں سال فن موسیقی کا گڑھ رہا۔ہندوستان کے موسیقی کے تمام بڑے گھرانے اندرون لاہور رہتے تھے۔لاہور کی ہیرا منڈی آج ملک میں بدنام ہے لیکن یہ کبھی فن موسیقی کی آکسفورڈ ہوتی تھی۔ہندوستان کے زیادہ تر مغنی اور مغنیات یہاں سے نکلتی تھیں۔ہیرا منڈی کی گلیوں میں سریلے لوگ رہتے تھے۔
گھروں سے طبلوں،سارنگیوں اور ہارمونیم کی آوازیں آتی تھیں۔گلیوں میں سر پیدا ہوتے اور تانیں جوان ہوتی تھیں۔ہندوستان کے رئیس خاندانوں کے چشم و چراغ شغل موسیقی کے لیے یہاں آتے تھے۔یہ بازار راجہ رنجیت سنگھ کے صاحبزادے ہیرا سنگھ نے آباد کیا اور یہ بعد ازاں اس کے نام سے"ہیرا منڈی"۔کہلایا،یہ بازار،بازار سے منڈی کیسا بنا؟ شاید اکبری منڈی کی وجہ سے بنا! سکھوں کی حکومت آئی تو سکھوں نے اکبر اعظم کے بنوائے بازار کو اکبری منڈی بنا دیا۔مسلمانوں نے شاید انتقام لیتے ہوئے ہیرا سنگھ کے بازار کو ہیرا منڈی مشہور کر دیا۔ہیرا منڈی کی بغلی گلیوں میں موسیقی کے آلات کی بہت بڑی مارکیٹ ہوتی تھی۔یہ مارکیٹ ختم ہو چکی ہے۔
تاہم آلات موسیقی کی چند دکانیں اور چند ورک شاپس آج بھی موجود ہیں۔دلی گیٹ کے باہر بینڈ باجوں کے دفاتر اور کھولیاں بھی موجود ہیں۔آپ نے پرانی شادیوں اور پرانی فلموں میں پیتل کے بڑے بڑے آلات موسیقی اور رنگ برنگی وردیوں میں ملبوس بینڈ ماسٹر دیکھے ہوں گے۔یہ لوگ لاہور میں دلی گیٹ کے باہر رہتے تھے۔یہ فن اور اس فن سے وابستہ فنکار ختم ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ابھی بینڈ باجوں کے چند دستے موجود ہیں اور یہ دستے آپ کو دلی گیٹ کے باہر نظر آتے ہیں۔جاوید صاحب کا تعلق فنکار گھرانے سے تھا لیکن جب موسیقی مذاق اور ہیرا منڈی گالی بن گئی تو جاوید صاحب نے فن سیکھنے کے بجائے گائیڈ بننے کا فیصلہ کر لیا۔یہ بہت اچھے گائیڈ ہیں۔انگریزی،اردو اور پنجابی تینوں زبانیں روانی سے بولتے ہیں۔
یہ علاقے کی ایک ایک گلی۔ایک ایک مکان اور ایک ایک مکین سے بھی واقف ہیں، چنانچہ یہ بور نہیں ہونے دیتے۔جاوید صاحب ہمیں سنہری مسجد لے گئے۔یہ مسجد اندرون لاہور کے ماتھے کا جھومر ہے۔یہ مسجد نواب سید بھکاری خان نے 1753ء میں بنوائی تھی۔یہ بلند ٹیلے پر واقع ہے۔مسجد کے گنبدوں پر سونے کا پانی چڑھا ہے۔یہ سورج کی روشنی میں چمکتے ہیں تو دل میں اتر جاتے ہیں۔بنانے والوں نے کمال کر دیا تھا لیکن ہم مسجد کو سنبھال نہیں سکے۔مسجد کے باہر گندگی کے ڈھیر لگے تھے۔یہ ڈھیر ہمارے گندے باطن کی نشانی ہیں۔ سنہری مسجد کی پشت پر سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو کا باؤلی باغ ہے۔آپ مسجد سے باغ میں نہیں جا سکتے۔
آپ کو باغ تک جانے کے لیے رنگ محل آنا پڑتا ہے۔رنگ محل کی بنیاد شاہ جہاں کے وزیراعظم نواب سعد اللہ خان نے رکھی لیکن یہ مکمل اس کے صاحبزادے میاں خان کے عہد میں ہوا۔میاں خان لاہور کا گورنر تھا۔یہ محل دو مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا تھا۔انگریزوں نے رنگ محل کو مشن اسکول میں تبدیل کر دیا۔رنگ محل کے سامنے سڑک کی دوسری جانب محمود غزنوی کے خادم خاص اور لاہور کے گورنر ایاز کا مقبرہ ہے۔علامہ اقبال نے "ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز" لکھ کر ملک احمد ایاز کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔یہ مقبرہ ہزار سال سے قائم ہے۔مقبرے کے گرد باغ تھا۔
باغ غائب ہو گیا تاہم ایک مسجد رہ گئی۔آپ ایاز کے مقبرے سے ذرا سا آگے بڑھیں تو دکانوں کے درمیان دو فٹ چوڑی گلی ملتی ہے۔گلی میں داخل ہوتے ہیں تو آپ حیران رہ جاتے ہیں۔آپ کے سامنے ایک قدیم باغ آ جاتا ہے۔یہ باغ باؤلی باغ کہلاتا ہے۔یہ باغ گرو ارجن دیو سے منسوب ہے۔باغ سنہری مسجد سے متصل ہے مگر آپ باغ سے مسجد میں داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ دونوں کے درمیان بارہ فٹ اونچی دیوار حائل ہے۔باغ میں دو تین سو سال پرانے درخت آج بھی موجود ہیں۔ ہم باؤلی باغ سے آگے چل پڑے۔راستے میں دو اہم عمارتیں آئیں۔پہلی عمارت پانی کا تالاب تھا۔یہ عمارت پنجاب کے انگریز گورنر ایچی سن نے 1883-84ء میں بنائی تھی۔یہ بنیادی طور پر لاہور کے لیے واٹر سپلائی اسکیم تھی۔یہ عمارت ستونوں پر کھڑی ہے۔ستونوں کے اوپر لوہے کے چار بڑے واٹر ٹینک ہیں۔
ہر ٹینک میں اڑھائی لاکھ گیلن پانی آتا ہے۔یہ پانی مینار پاکستان کے پارک سے ٹیوب ویلوں سے نکالا جاتا ہے۔پائپوں کے ذریعے ٹینکوں میں لایا جاتا ہے اور پورے اندرون لاہور کو سپلائی کیا جاتا ہے۔آپ 130 سال سے قائم اس نظام کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔انگریز نے ٹینکوں میں موجود پانی کی سطح جانچنے کے لیے سسٹم بنایا تھا۔یہ سسٹم آج تک قائم ہے اور آپ یہ سسٹم دیکھ کر بھی حیران رہ جاتے ہیں۔دوسری عمارت میاں صلی کی حویلی ہے۔
یہ حویلی علامہ اقبال کے داماد میاں صلاح الدین کی ملکیت تھی۔یہ آج کل علامہ اقبال کے نواسے میاں یوسف صلاح الدین کی زیر نگرانی ہے۔یہ تین سو سال پرانی حویلی ہے۔یہ لاہور کی کلچرل ہسٹری بھی ہے۔آپ کو حویلی کی دیواروں۔جھروکوں۔صحنوں اور قدیم کمروں میں تاریخ کی آہٹیں سنائی دیتی ہیں۔یہ حویلی آپ کا دامن دل پکڑ کر بیٹھ جاتی ہے۔میں حویلی میں داخل ہوا تو میں دیواروں سے لپٹی بیلوں میں پھنس کر رہ گیا۔میں آج تک وہاں پھنسا ہوا ہوں اور شاید پوری زندگی وہیں پھنسا رہوں گا۔
سلطان ٹھیکیدار اندرون لاہور کا ایک تاریخی کردار تھا۔یہ انگریز دور میں ابھر کر سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پنجاب کے بڑے رئیسوں میں شمار ہونے لگا۔یہ ٹھیکیدار تھا۔یہ لاہور کی پرانی گلیوں اور حویلیوں سے چھوٹی اینٹیں نکال کر انگریزوں کو سپلائی کرتا تھا۔انگریز نے 1849ء میں سکھوں سے پنجاب کا قبضہ لیا۔قبضہ لینے کی تقریب شاہی قلعے کے شیش محل میں منعقد ہوئی۔سلطان ٹھیکیدار بھی اس تقریب میں موجود تھا۔انگریز نے لاہور پر قابض رہنے کے لیے دو چھاؤنیاں بنائیں۔ایک چھاؤنی حضرت میاں میر کے مزار کے قریب بنائی گئی۔یہ علاقہ آج کینٹ صدر کہلاتا ہے اور دوسری چھاؤنی انارکلی میں قائم کی گئی۔انگریز نے دونوں چھاؤنیوں کو ملانے کے لیے سڑک بنائی۔یہ سڑک 1851ء میں بنائی گئی اور یہ لندن کی اسٹریٹ پال مال کے نام سے منسوب کی گئی۔
پال مال آہستہ آہستہ مال روڈ بن گئی۔لاہور کے لوگ اسے بلند و بالا گھنے درختوں کی وجہ سے ٹھنڈی سڑک بھی کہتے ہیں۔سلطان ٹھیکیدار کو کینٹ صدر میں سرکاری عمارتیں بنانے کے ٹھیکے ملنے لگے۔یہ کمال بددیانت شخص تھا۔اس نے لاہور کے محلات۔مقبرے۔مساجد اور پرانی حویلیاں گرائیں اور اینٹیں نکال کر کینٹ تعمیر کر دیا۔لاہور میں 1860ء میں ہندوستان کا سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن بنا۔یہ قلعہ نما ریلوے اسٹیشن بھی سلطان ٹھیکیدار نے بنایا۔سلطان نے پرانے لاہور میں سلطان سرائے بھی بنائی۔یہ اس زمانے کا رئیس ترین شخص تھا لیکن پھر اس پر زوال آگیا۔یہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہوا اور عبرت ناک موت مرا۔سلطان نے شاہی گزر گاہ پر اپنی حویلی بھی بنائی تھی۔یہ حویلی بھی نابغہ تھی۔سلطان نے حویلی کی چھت پر شیش محل بھی بنوایا۔یہ لاہور کا واحد پرائیویٹ شیش محل تھا۔
وہ اس کمرے میں رقص و سرود کی محفلیں برپا کرتا تھا۔ہم یہ حویلی اور یہ شیش محل بھی دیکھنا چاہتے تھے لیکن حویلی بند تھی۔اندرون لاہور میں فقیر میوزیم بھی ہے۔یہ میوزیم لاہور کے مشہور فقیر خاندان کی ملکیت ہے۔یہ خاندان راجہ رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ تھا۔یہ لوگ اپنے زمانے کے کنگ میکر تھے۔یہ خاندان آج بھی اندرون لاہور موجود ہے۔یہ ذاتی عجائب گھر کے مالک ہیں۔ہم یہ عجائب گھر بھی نہ دیکھ سکے۔لاہور میں اس وقت انگریزوں کی بنائی 21 سڑکیں موجود ہیں۔یہ سڑکیں بدستور انگریزوں کے نام سے منسوب ہیں۔ہمیں یہ نام بدلنے بھی نہیں چاہئیں کیونکہ یہ تاریخ ہیں اور تاریخ اپنے اصل ناموں کے ساتھ زندہ رہے تو ہی اچھی لگتی ہے۔
ہمارے سفر کی آخری منزل فوڈ اسٹریٹ تھی۔یہ فوڈ اسٹریٹ شاہی قلعے کی دیوار کے ساتھ روشنائی دروازے کے سامنے قائم ہے۔مغل بادشاہ روشنائی دروازے کے ذریعے اندرون لاہور داخل ہوتے تھے۔یہ دروازہ چراغوں کی وجہ سے روشنائی کہلاتا تھا کیونکہ حکومت ہر شام یہاں سیکڑوں ہزاروں چراغ روشن کروا دیتی تھی۔روشنائی دروازے کے اندر شاہی محلہ تھا۔شاہی محلے میں اپنے زمانے کی نامور گلوکارائیں اور رقاصائیں ہوتی تھیں۔
یہ گانے والیاں شاہی وقت کے ساتھ ہی تاریخ میں غروب ہو گئیں لیکن ان کی حویلیاں۔مکان اور کوٹھے آج بھی سلامت ہیں۔یہ حویلیاں اور کوٹھے اب ریستوران بن چکے ہیں۔یہ سلسلہ کو کو نام کے ایک مصور نے شروع کیا۔یہ طوائف زادہ تھا۔سارا بچپن شاہی محلے اور ہیرا منڈی میں گزرا۔جوان ہو کر مصور بن گیا تو اس نے یہاں پہلا ریستوران کھولا۔یہ ریستوران کامیاب ہو گیا۔
آج یہ پورا علاقہ فوڈ اسٹریٹ بن چکا ہے۔ہم فوڈ اسٹریٹ کے فورٹ ویو ہوٹل کی چھت پر چلے گئے۔چھت پر وقت ٹھہرا ہوا تھا۔ہمارے سامنے روشنائی گیٹ تھا اور گیٹ سے آگے شاہی قلعہ تھا۔شاہی قلعے میں تاریخ کبھی قہقہہ لگاتی تھی۔کبھی بین کرتی تھی۔کبھی اٹھ کر ناچنے لگتی تھی۔کبھی چیختی تھی اور کبھی سرگوشیاں کرنے لگتی تھی۔ہمارے سامنے حضوری باغ تھا۔بارہ دری کی خاموش سفید عمارت تھی۔
راجہ رنجیت سنگھ کی سفید موڑھی تھی اور ہماری نظر وہاں سے پھسلتی ہوئی بادشاہی مسجد کے میناروں اور گنبدوں پر آ کر رک جاتی تھی اور ان گنبدوں کے بعد تاریخ کے اندھیرے میں سانس لیتا ہوا لاہور تھا اور اس کی بلند چھتیں اور بھربھری حویلیاں تھیں اور اس کی ٹھنڈی پرانی گلیاں تھیں اور ان گلیوں میں تھکے قدموں سے چلتا ہوا وقت تھا اور وقت کے اندر دور اندر گئے زمانوں کی باس تھی اور ہم چھت پر کھڑے ہو کر گئے زمانوں کی وہ باس محسوس کر رہے تھے۔
مسجد کے مینار جاگے اور وقت کی اس وسیع پینٹنگ میں ظہر کی اذان گونجنے لگی۔طلسم ٹوٹ گیا۔میں نے جھرجھری سی لی اور اپنا سارا دھیان اذان کے الفاظ پر لگا دیا۔موذن دنیا کو بتا رہا تھا۔دنیا میں صرف اللہ کا نام دائمی ہے۔باقی سب بلبلہ ہے۔اکبر بھی۔رنجیت سنگھ بھی اور ایچی سن بھی۔یہ سب بلبلے ہیں۔یہ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔پیچھے صرف اللہ کا نام رہ جاتا ہے اور سلطان ٹھیکیدار کی حویلیاں رہ جاتی ہیں اور وزیر خان کے حمام رہ جاتے ہیں اور ایازوں کے مقبرے رہ جاتے ہیں اور ان مقبروں۔ان حماموں اور ان حویلیوں کے فرشوں سے لپٹی ہوئی عبرت رہ جاتی ہے اور اس عبرت پر بعد ازاں ہم جیسے حقیر سیاحوں کے گندے جوتے اور لرزتے کانپتے قدم رہ جاتے ہیں۔
ہم انسان کتنے بدنصیب ہیں۔ہم جانتے ہیں لیکن مانتے نہیں ہیں اور اگر مانتے ہیں تو پھر ہم جانتے نہیں ہیں۔انسانی تہذیب کے ہر دور میں ماننے یا جاننے میں سے کسی ایک چیز کی کمی بہر حال رہتی ہے۔