Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Badam Ka Darakht

Badam Ka Darakht

میں نے ایک دن خواجہ صاحب سے عرض کیا "ہم لوگوں کے دھوکے سے کیسے بچ سکتے ہیں" فرمایا " یہ کام بہت آسان ہے، آپ لالچ ختم کر دو، دنیا کا کوئی شخص آپ کو دھوکا نہیں دے سکے گا" میں نے عرض کیا "جناب ذرا سی وضاحت کر دیں"۔ فرمایا " ہم دوسروں کے ہاتھوں دھوکا نہیں کھاتے، ہمیں ہمارا لالچ دھوکا دیتا ہے، آپ اگر لالچی اور کنجوس ہیں تو آپ کو ہر روز دھوکا دیا جائے گا اور آپ روز دھوکا کھائیں گے بھی"۔ میں نے عرض کیا " یہ بات لالچ کی حد تک درست ہے کیوں کہ لالچی کے طمع کی زبان ہر وقت باہر لٹکی رہتی ہے لیکن کنجوس تو اپنے پیسوں کو ہوا نہیں لگنے دیتا، یہ گرہ کھولے گا تو اس کے ساتھ دھوکا ہوگا ناں"۔

فرمایا "لالچ اور کنجوسی جڑواں بہنیں ہیں، یہ ہمیشہ اکٹھی رہتی ہیں، لالچی کنجوس ہوتا ہے اور کنجوس لالچی، دنیا کے تمام کنجوس دولت چھپانے کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں، یہ ایسے گھونسلے تلاش کرتے رہتے ہیں جہاں یہ اپنے اثاثوں کے انڈے رکھ سکیں، ان کی یہ تلاش انہیں فراڈیوں کے پاس لے جاتی ہے، فراڈیے انہیں یقین دلا دیتے ہیں، ہمارے پاس نہ صرف آپ کا سرمایہ محفوظ رہے گا بلکہ یہ دوگنا اور چار گناہ بھی ہو جائے گا، یہ لوگ ان کے ٹریپ میں آتے ہیں اور یوں عمر بھر کے لیے کمائی سے محروم ہو جاتے ہیں چناں چہ آپ اگر دھوکے سے بچنا چاہتے ہیں تو کنجوسی ختم کر دیں، لالچ مٹا دیں، آپ کو کوئی شخص دھوکا نہیں دے سکے گا"۔

میں نے عرض کیا " جناب دولت کا دھوکا اتنا تکلیف دہ نہیں ہوتا جتنی اذیت ناک دوستی، رشتے داری اور تعلق دار کی چیٹنگ ہوتی ہے" خواجہ صاحب نے قہقہہ لگایا اور فرمایا " دنیا کا جو بھی رشتہ لالچ پر مبنی ہوگا اس کا اختتام تکلیف پر ہوگا، آپ رشتوں میں سے لالچ نکال دو، بیٹے کوبیٹا رہنے دو، بیٹی کو بیٹی، ماں کو ماں، باپ کو باپ، بہن اور بھائی کو بھائی بہن اور دوست کو دوست رہنے دو، آپ کو کبھی تکلیف نہیں ہوگی، ہم جب بیٹے یا بیٹی کو انشورنس پالیسی بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا والد صاحب کو تیل کا کنواں سمجھ بیٹھتے ہیں یا پھر دوستوں کو لاٹری ٹکٹ کی حیثیت دے دیتے ہیں تو ہماری توقعات کے جسم پر کانٹے نکل آتے ہیں اور یہ کانٹے ہمارے تن من کو زخمی کر دیتے ہیں، رشتے جب تک رشتوں کے خانوں میں رہتے ہیں یہ دھوکا نہیں دیتے۔

یہ انسان کو زخمی نہیں کرتے، یہ جس دن خواہشوں اور توقعات کے جنگل میں جا گرتے ہیں، یہ اس دن ہمیں لہو لہان کر دیتے ہیں، یہ یاد رکھو دنیا کی ہر آسائش اور ہر تکلیف اللہ کی طرف سے آتی ہے، دنیا کا کوئی شخص ہمیں نواز سکتا ہے اور نہ ہی ہماری تکلیف کا ازالہ کر سکتا ہے، ہمیں جو ملتا ہے اللہ کی طرف سے ملتا ہے، جو چھن جاتا ہے، اللہ کی رضا سے چھینا جاتا ہے، ہمارا چھینا ہوا کوئی واپس دلا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی شخص اللہ کی مرضی کے بغیر ہم سے کوئی چیز چھین سکتا ہے اور دنیا کے کسی شخص میں اتنی مجال نہیں وہ ہمیں اللہ کی مرضی کے بغیر نواز سکے، جب دیتا بھی وہ ہے اور لیتا بھی وہ ہے تو پھر لوگوں سے توقعات وابستہ کرنے کی کیا ضرورت؟"۔

خواجہ صاحب نے اس کے بعد ایک حکایت سنائی، ان کا کہنا تھا، کسی محلے میں ایک خاندان آ کر آباد ہوا۔

یہ سادہ سے لوگ تھے، ان لوگوں نے ایک دن ہمسائے سے چاول پکانے کے لیے دیگچہ مانگا، ہمسایوں نے دیگچہ دے دیا، ان لوگوں نے چاول پکائے، دیگچہ واپس کیا تو اس کے ساتھ جست کا ایک چھوٹا سا پیالہ بھی تھا، ہمسایوں نے کہا " یہ پیالہ ہمارا نہیں" دیگچہ مانگنے والوں نے جواب دیا، آپ کے دیگچے نے رات بچہ دیا تھا، یہ پیالہ وہ بچہ ہے، یہ آپ کا حق ہے، ہم آپ کا حق نہیں مار سکتے، ہمسائے اس عجیب و غریب لاجک پر حیران رہ گئے لیکن انہوں نے نئے آباد ہونے والوں کو بے وقوف سمجھ کر پیالہ رکھ لیا، ان لوگوں نے چند دن بعد دیگچی مانگی، یہ دیگچی اگلے دن واپس آئی تو اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی پلیٹ تھی، یہ پلیٹ اس دیگچی کی بچی تھی، ہمسایوں نے ان لوگوں کی بے وقوفی پر قہقہہ لگایااور یہ پلیٹ بھی رکھ لی، اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا، ہمسائے کوئی نہ کوئی برتن مانگتے اور واپسی پر اس کا کوئی نہ کوئی بچہ پیدا ہو جاتا، ہمسائے یہ بچہ خوشی خوشی قبول کر لیتے، ان لوگوں کو ایک دن دیگ کی ضرورت پڑ گئی۔

آج سے تیس سال قبل دیگ بڑی لگژری ہوتی تھی، یہ چند لوگوں کے پاس ہوتی تھی اور لوگ انہیں رشک کی نظروں سے دیکھتے تھے، لوگ اس زمانے میں اپنی بیٹیوں کو جہیز میں دیگیں بھی دیتے تھے، بہوئوں کی دیگوں کی تعداد ان کے میکوں کی خوش حالی کا ثبوت ہوتا تھا، ان لوگوں نے دیگ مانگی، دو دن گزر گئے لیکن دیگ واپس نہ آئی، تیسرے دن ہمسائے نے ان کا دروازہ بجایا، صاحب خانہ باہر نکلا، دیگ کے مالک نے اپنی دیگ کا مطالبہ کیا، ہمسائے نے افسوس سے سر جھکایا اور دکھی لہجے میں بولا " کل رات آپ کی دیگ انتقال فرما گئی، ہم نے اسے قبرستان میں دفن کر دیا" دیگ کے مالک نے حیران ہو کر پوچھا "دیگ کیسے مر سکتی ہے؟" ہمسائے نے جواب دیا "جناب جیسے سارے برتن مرتے ہیں"۔ دیگ کا مالک معاملے کو پنچایت میں لے گیا۔

پنچایت بیٹھی تو مدعی نے پنچایت کے ارکان سے کہا " یہ شخص کہتا ہے، میری دیگ مر گئی، کیا دیگ مر سکتی ہے؟" پنچایت نے ملزم کی طرف دیکھا، ملزم نے نہایت ادب سے عرض کیا " میں جب بھی اس سے کوئی برتن لیتا تھا، وہ برتن میرے گھر میں بچہ دے دیتا تھا، میں اس برتن کے ساتھ وہ بچہ بھی اس کے حوالے کر دیتا تھا، آپ اس سے پوچھیے کیا میری بات درست ہے؟" پنچایت نے مدعی کی طرف دیکھا، مدعی نے ہاں میں سر ہلا دیا، ملزم نے مسکرا کر عرض کیا " جناب اگر کوئی برتن بچہ دے سکتا ہے تو وہ مر بھی سکتا ہے اور اس کی دیگ کل رات رضائے الٰہی سے انتقال فرما گئی" پنچایت نے قہقہہ لگایا اور کیس ڈس مس کر دیا، وہ ہمسایہ بیچارہ اپنے لالچ کے ہاتھوں مارا گیا تھا، برتن ادھار لینے والا بنیادی طور پر فراڈیا تھا اور یہ دوسرے فراڈیوں کی طرح ہمسائے کا لالچ بڑھاتا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنا ٹارگٹ اچیو کر لیا۔

خواجہ صاحب نے بتایا " دنیا بھر کے فراڈیے لوگوں کو لالچ دیتے ہیں، یہ ہمیشہ چھوٹی سرمایہ کاری کا بڑا ریٹرن دیتے ہیں، آپ انہیں کھانا کھلاتے ہیں، چائے پلاتے ہیں اور یہ آپ کے بچوں کو پانچ دس ہزار روپے دے جاتے ہیں، آپ ان کے گھر چاول کی پلیٹ بھجواتے ہیں اور یہ آپ کے گھر کیک بھجوا دیں گے، یہ آپ سے سائیکل ادھار لیں گے اور جواب میں آپ کو نئی نکور گاڑی ادھار دے دیں گے، یہ آپ سے دس ہزار روپے قرض لیں گے اور بارہ ہزار واپس کریں گے، آپ اضافی دو ہزار روپے کے بارے میں پوچھیں گے تو یہ جواب دیں گے، میں نے آپ کے دس ہزار روپے فلاں کاروبار میں لگائے تھے، پانچ دن میں پانچ ہزار روپے منافع ہوگیا، میں نے تین ہزار روپے خود رکھ لیے، دو آپ کا حق ہے، آپ کو دے رہا ہوں، یوں آپ ان کی ایمان داری کے بھی قائل ہو جائیں گے۔

ان کے اخلاص اور نیکی کے بھی اور اس کاروبار کو بھی کریڈیبل سمجھ لیں گے جو دس ہزار روپے کی سرمایہ کاری پر پانچ دنوں میں پانچ ہزار روپے منافع دے دیتا ہے، یوں وہ شخص آپ کے دل میں لالچ کا پہلا بیج بونے میں کام یاب ہو جائے گا، وہ اس کے بعد آپ سے ادھار لیتا رہے گا، آپ کو منافع دیتا رہے گا یا وقت پر پیسے واپس کرتا رہے گا اور آپ کا اعتبار حاصل کرتا رہے گا یہاں تک کہ آپ اسے سرمایہ کے لیے خود رقم دینا شروع کر دیں گے، وہ آپ کی رقم پر آپ کو پورا منافع دے گا اور پھر ایک دن بڑی سرمایہ کاری کا موقع آ جائے گا، وہ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ آپ کے پاس آئے گا اور آپ کو بتائے گا اس کی کمپنی جہاز خرید رہی ہے، یہ جہاز آدھی قیمت میں مل رہا ہے، کمپنی جہاز خرید لے گی، یہ جہاز چار دن میں پی آئی اے خرید لے گی، کمپنی کو سو فیصد منافع ہوگا اور یوں ہمارا سرمایہ چار دن میں دگنا ہو جائے گا، وہ آپ کو بتائے گا۔

ہم دس لوگ اس سودے میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، ہم ایک ایک کروڑ روپے ڈال رہے ہیں، یہ کروڑ روپے چار دن میں دو کروڑ روپے ہو جائیں گے اور یوں آپ اس کے اس ٹریپ میں آ جائیں گے جو اس نے مہینوں کی محنت سے آپ کے اردگرد بنا تھا، آپ زیورات بیچیں گے، گھر نیلام کریں گے، گاڑی فروخت کر دیں گے اور جیسے تیسے کروڑ روپے پورے کرکے اس کے حوالے کر دیں گے لیکن چند دن بعد آپ کی دیگ بھی انتقال کر جائے گی، وہ شخص آپ کے کروڑ روپے لے کر فرار ہو جائے گا یا پھر آپ کو ایک ہفتے بعد اس جہاز کے کریشن ہونے یا کمپنی کے دیوالیہ ہونے یا پھر گھر یا بینک میں ڈاکازنی کی اطلاع ملے گی، یہ آپ کی مرحومہ دیگ کی تدفین بھی کر دے گا اور آپ اس وقت کچھ بھی نہیں کر سکیں گے، یہ دنیا کے تمام فراڈیوں کی تکنیک ہے، یہ کبھی سرمایہ کاری کے نام پر لوٹتے ہیں، یہ کبھی ڈبل شاہ بن جاتے ہیں، یہ کبھی اسلامی سرمایہ کاری یا مضاربہ کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔

یہ کبھی بانڈز کا کاروبار کرتے ہیں، یہ کبھی جعلی ڈالرز کے ذریعے لوگوں کو ان کے سرمائے سے محروم کر دیتے ہیں، کبھی سونے کی دیگ کی خوش خبری سناتے ہیں اور کبھی کسی مرحوم شہزادے کا خزانہ لے کر مارکیٹ میں آ جاتے ہیں اور اپنے اپنے حصے کے لالچی لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں، یہ سب لوگ دیگچی کے بچے دے کر آپ کی دیگ کھانے کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں، یہ لوگ جب بھی آپ کے سامنے آئیں، آپ ایک بات ذہن میں رکھ لیں، اگر بادام کا کوئی درخت سڑک پر لگا ہو اور یہ درخت باداموں سے لدا ہوا ہو تو آپ جان لیں اس کے تمام بادام کڑوے ہیں کیوں کہ بادام کا درخت اور اس کا میٹھا صرف آپ کا انتظار نہیں کر سکتا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.