Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Cambodia Mein Teen Din

Cambodia Mein Teen Din

میں سنگا پور سے تین دن کے لیے کمبوڈیا چلا گیا، یہ ملک آج کل سیاحوں کے لیے بہت پرکشش ہے، کیوں؟ اس کی تین وجوہات ہیں، یہ دنیا کے ان پانچ ملکوں میں شامل ہے جو آج بھی اپنی پرانی ہیت میں قائم ہیں تاہم ماہرین کا خیال ہے پانچ دس برسوں میں یہ بھی مکمل طور پر تبدیل ہو جائیں گے لہٰذا انھیں جتنا جلد ہو سکے دیکھ لینا چاہیے۔

دوسری وجہ، کمبوڈیا ٹورازم فرینڈلی ہے، دنیا بھر کے سیاح وہاں جاتے ہیں اور انھیں وہاں تمام سہولتیں سستی مل جاتی ہیں اور تیسری وجہ کمبوڈیا میں اینکور واٹ (Angkor Wat) کے ٹیمپل ہیں، یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلاتے ہیں اور ان کے بارے میں مشہور ہے یہ انسانی کام نہیں، یہ جنات نے بنائے اور پھر ان ہی کے ہاتھوں یہ ساری تہذیب ختم ہوگئی۔

میں کمبوڈیا کے دارالحکومت پونوم پین (Phnom Penh) پہنچا تو میں نے وہاں سبز وردیوں میں ڈھیلے ڈھالے فوجی دیکھے، ان کا گوروں کے ساتھ رویہ انتہائی شائستہ مگر ہم جیسے سیاحوں کے لیے ٹھنڈا تھا، امیگریشن کا سسٹم سلو اور پرانا تھا، یہ آج بھی پاسپورٹ پر واپسی کی چٹ لگاتے ہیں، چھوٹا سا کاغذ پاسپورٹ پرا سٹیپل کر دیتے ہیں اور یہ واپسی پر اتار لیا جاتا ہے۔

ائیرپورٹ پر غیرضروری سوال بھی ہوتے ہیں اور کسٹم کا عملہ سیاحوں کو عقابی نظروں سے بھی دیکھتا ہے، میں بہرحال ائیرپورٹ سے باہر آیا تو سڑک پر درجنوں رکشے دیکھے، یہ لوگ انھیں ٹک ٹک کہتے ہیں اور یہ پورے ملک میں سواری کا سب سے بڑا سورس ہیں، آپ کسی طرف نکل جائیں آپ کو وہاں ٹک ٹک ضرور ملے گا، ٹک ٹک کی ایپ بھی موجود ہے۔

آپ ایپ کے ذریعے بھی رکشے بک کرا سکتے ہیں، زیادہ تر رکشے انڈیا اور فرانس میڈ ہیں، کرنسی بہت کم زور ہے، ایک ڈالر کے چار ہزار رئیل (Riel)آتے ہیں لہٰذا پورے ملک میں امریکی ڈالر کے ذریعے لین دین ہوتا ہے۔

عام فقیر بھی ڈالر مانگتا ہے اور آپ سے بڑا نوٹ لے کر ڈالر ہی میں چھوٹے نوٹ دیتا ہے، تمام دکان دار، ریستوران، ہوٹل، ائیرپورٹ اور عجائب گھروں کے ٹکٹ تک ڈالروں میں ملتے ہیں، بارگیننگ عام اور ضروری ہے، دکان دار چار پانچ گنا زیادہ رقم مانگتے ہیں اور تھوڑی دیر کی تکرار کے بعد آپ کا سودا ہو جاتا ہے، لوگ مسکین اور عاجز ہیں۔

یہ لڑائی سے پرہیز اورسیاحوں کا خوش دلی سے استقبال کرتے ہیں، ہاتھ جوڑ کر ملیں گے، مسکرا کر بات کریں گے اور بارگیننگ کے بعد آپ کو چیزیں بھی فروخت کر دیں گے، میرا ہوٹل سینٹر میں دریائے میکانگ (Mekong) کے قریب تھا، یہ کمبوڈیا کا سب سے بڑا دریا ہے، چین سے بہہ کرکمبوڈیا اور پھرتھائی لینڈ چلا جاتا ہے۔

دریا میں کشتیاں بھی چلتی ہیں اور چھوٹے جہاز بھی، شہر میں ہڑبونگ، گردوغبار، بارش، شور اور گندگی بھی تھی، پتا چلا پونوم پین میں بڑے لیول پر تعمیرات جاری ہیں، پچاس پچاس منزل کے ٹاورز بن رہے ہیں، سڑکیں بھی کھلی ہو رہی ہیں اور دھڑادھڑ مارکیٹیں بھی بن رہی ہیں لہٰذا فضا میں گردوغبار ہے، مجھے اگلے دو دن تعمیرات کے مشاہدے کا اتفاق ہوتا رہا، میں رات کھانے کے لیے 25منزلہ ٹاور کی روف ٹاپ پر گیا تو اونچائی سے شہر کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔

دور دور تک بلند عمارتوں کا جنگل تھا، پچاس پچاس منزلہ عمارتیں بھی تھیں اور یہ رات کے وقت جگ مگ بھی کر رہی تھیں، پونوم پین کے مقابلے میں اسلام آباد میں صرف ایک بلند عمارت ہے اور ہم اسے بھی ہر دوسرے دن بند کر دیتے ہیں، پونوم پین میں سینٹورس جیسی تین چار درجن عمارتیں ہیں اور یہ آباد بھی ہیں۔

پتا چلا کمبوڈیا آج کل دنیا میں بلیک منی کی پارکنگ کا بڑا سینٹر ہے، آپ بے شک ایک ارب ڈالر لے آئیں آپ سے کوئی سورس نہیں پوچھے گا چناں چہ دنیا جہاں کی بلیک منی کمبوڈیا کی طرف دوڑ رہی ہے اور یہ دولت عمارتوں، سڑکوں اور مالز میں لگ رہی ہے، ملک میں بادشاہت بھی ہے اور جمہوریت بھی، بادشاہ نوروڈوم سیہامونی(Norodom Sihamoni) نے 2004 میں تخت سنبھالا اور یہ بے اولاد ہے۔

وزیراعظم ہن سین(Hun Sen)نے 1998 میں اقتدار سنبھالا اور مسلسل وزیراعظم چلے آ رہے ہیں، وزیراعظم نے اپوزیشن کا بھی صفایا کر دیا ہے، اپوزیشن لیڈرسیم رینزے(Sam Rainsy) فرانس میں پناہ گزین ہے، مخالف ارکان اسمبلی بھی مختلف ملکوں میں چھپے بیٹھے ہیں، سرکاری عہدے اور وزارتیں قابل فروخت ہیں۔

آپ ڈیڑھ دو ملین رقم خرچ کر کے اوکنوا (Oknua)کا عہدہ حاصل کر سکتے ہیں، یہ برطانیہ کے نائیٹ کے عہدے جیسا ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے کاروباری لوگوں کو بے شمار سہولتیں اور پروٹوکول مل جاتا ہے، بیوروکریسی بھی ڈائریکٹ بھرتی ہوتی ہے لہٰذا سیاست دان اپنی مرضی کے افسر لے آتے ہیں، تعلیم کا معیار بہت پست ہے۔

استاد اور شاگرد دونوں اچھے نہیں ہیں، اسپتال خوب صورت اور جدید ہیں لیکن ڈاکٹرز نکمے ہیں لہٰذا امراء اپنا علاج سنگا پور یا تھائی لینڈ سے کراتے ہیں، وزراء اور ڈپٹی وزراء کی فوج ظفر موج ہے، یہ لوگ اپنے بچوں اور رشتے داروں کو بھی پارلیمنٹ کا ممبر بنا دیتے ہیں، ملک میں بے شمار اعزازی وزراء بھی ہیں۔

فوج کرائے کے گارڈز کی خدمات بھی سرانجام دیتی ہے، چینی بزنس مینوں نے فوج کے اعلیٰ افسر ملازم رکھے ہوئے ہیں اور یہ لوگ سرکاری گاڑیوں اور سرکاری رائفلوں کے ساتھ ان بزنس مینوں کی حفاظت کرتے ہیں، کرپشن عام ہے، سرکاری ملازم سرعام پیسے مانگ لیتے ہیں اور کسی قسم کی شرمندگی کے بغیر یہ رقم جیب میں بھی رکھ لیتے ہیں۔

سری لنکا کی طرح کمبوڈیا کی پورٹس بھی چین کے پاس ہیں، چین ملک میں بڑی سطح پر سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے، پورے پورے شہر چینیوں کے پاس ہیں، مساج، کیسینو اور شراب خانے عام ہیں، خواتین سیاحوں کے ساتھ گھومنا پھرنا پسند کرتی ہیں، یورپ کے زیادہ تر ریٹائرڈ بوڑھے کمبوڈیا آتے ہیں۔

اپنی پسند کی خواتین کا نان نفقہ اٹھاتے ہیں اور عیاش زندگی گزارتے ہیں، چرس اور گانجا عام مل جاتا ہے اوراس کے استعمال پر بھی پابندی نہیں ہے چناں چہ سیاح ٹن ہو کر دریا کے کنارے پھرتے رہتے ہیں، لوگ شام پانچ بجے کام بند کر دیتے ہیں، تمام سرکاری اور غیرسرکاری دفتر بند ہو جاتے ہیں، پرائیویٹ کام بھی پانچ بجے بند ہو جاتے ہیں۔

لوگ کام میں بہت سست ہیں، دو گھنٹے کا کام دو دن میں کریں گے اور وہ بھی مکمل نہیں ہوگا، آپ نے اگر الیکٹریشن یا پلمبر بلا لیا تو وہ دو تین دن بعد آئے گا، وہ آدھا دن کام دیکھتا رہے گا، لنچ کے وقت کھانا کھائے گا اور اسی باتھ روم میں فرش پر ایک آدھ گھنٹہ قیلولہ کرے گا، اٹھے گا، چائے پیے گا، کام شروع کرے گا اور ٹھیک پانچ بجے آپ کی ٹونٹی یا لائیٹ کھلی چھوڑ کر چلا جائے گا اور آپ اس کی منتیں کرتے رہ جائیں گے۔

یہ لوگ شام کے وقت پورے خاندان کے ساتھ سڑکوں، پارکوں اور کافی شاپس میں آ جاتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور قہقہے لگاتے ہیں، فحاشی عام ہے، پونوم پین میں سیکڑوں خواتین سرِشام باہر بیٹھ جاتی ہیں اور آوازیں دے دے کر گزرنے والوں کو بلانے لگتی ہیں۔

یہ دوڑ کر لوگوں کے گلے بھی پڑ جاتی ہیں اور انھیں بازو سے پکڑ کر گھسیٹنا بھی شروع کر دیتی ہیں چناں چہ شرفاء رات کے وقت سیاحتی علاقوں سے پرہیز کرتے ہیں، مساج کی آڑ میں دھندہ بھی ہوتا ہے اور آخر میں شکار عزت کے ساتھ ساتھ اپنی رقم سے بھی محروم ہو جاتے ہیں، پولیس میں کمپلین کی جائے تو پولیس بھی کچھ نہیں کرتی، یہ بھی ان لوگوں کے ساتھ ملی ہوتی ہے۔

مجھے رات کے وقت دریا کے کنارے واک کا اتفاق ہوا، یہ ایک دل چسپ اور خوش گوار تجربہ تھا، دریا کے کنارے پکے ہیں اور دونوں سائیڈز پر چالیس فٹ چوڑا فٹ پاتھ ہے اور اس پر شام کے وقت ہزاروں لوگ گھوم رہے ہوتے ہیں، خوانچہ فروش ان لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگاتے ہیں اور لوگ ان سے چائے، کافی، فروٹ، ڈرائی فروٹ اور بیئر خرید کر پیتے ہیں۔

دریا کے دونوں کناروں پر کافی شاپس، چائے خانے اور ریستوران ہیں اور ان میں بھی ٹھیک ٹھاک رش ہوتا ہے، دریا میں فیری بھی چلتی ہیں اور لوگ ان میں سوار ہو کر بھی شام کا نظارہ کرتے ہیں۔

کمبوڈیا میں ایک بہت اچھی بات لوگوں کا برسرروزگار ہونا ہے، پورا ملک سست ہونے کے باوجود کام کرتا ہے، سب کو کوئی نہ کوئی ہنر آتا ہے اور یہ رات کو کچھ نہ کچھ کما کر بھی لاتے ہیں بالخصوص خواتین زیادہ کام کرتی ہیں۔

یہ لوگ جوتوں اور کپڑوں کے ایکسپرٹ ہیں، دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں فٹ ویئرز اور کپڑوں کی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں، آپ اگر شام کے وقت شہروں سے باہر جائیں تو آپ کو لاکھوں خواتین فیکٹریوں سے نکلتی نظر آئیں گی، خواتین گھروں میں رہ کر بھی کچھ نہ کچھ بنا کر فروخت کرتی رہتی ہیں، یہ اور کچھ نہ بھی کریں تو بھی یہ شام کے وقت کھانا بنا کر باہر بیٹھ جاتی ہیں اور گزرنے والوں کو بیچ کر اپنا نان نفقہ چلا لیتی ہیں۔

تنخواہیں بہت ہی کم ہیں، لوگ دو سو ڈالر ماہانہ پر چوبیس گھنٹے کے ملازم ہو جاتے ہیں، چاول بہت اگتا ہے اور یہ ان کی بڑی ایکسپورٹ ہے، بودھ مت ہیں لہٰذا بودھ کے مجسمے بنانے اور کچی مٹی کے برتن بنانے کے بھی ماہر ہیں، مسلمان سات فیصد ہیں اور ان کی حالت بہت پتلی ہے، کمبوڈین لوگوں میں بے انتہا قوت برداشت ہے۔

ہر قسم کے حالات میں کسی قسم کا احتجاج نہیں کرتے، بے تحاشا مہنگائی ہے، ڈالر چار ہزار رئیل کے برابر ہے اور پٹرول، گیس اور بجلی پاکستان سے زیادہ مہنگی ہے لیکن ملک میں کسی قسم کا احتجاج یا بے زاری دکھائی نہیں دیتی، لوگ اس کے باوجود خوش ہیں، یہ لوگ دراصل کم میں خوش رہنا سیکھ گئے ہیں۔

پونوم پین میں جینوسائیڈ (قتل عام) میوزیم دیکھنے کے لائق ہے، میں دوسرے دن وہاں چلا گیا اور دل تھام کر بیٹھ گیا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.