فوج اور عمران خان کے درمیان دوری کو آصف علی زرداری نے سب سے پہلے بھانپ لیا تھا، آصف علی زرداری کو اپنے ذرایع سے پتا چلا فروری2021 میں کور کمانڈرز کی اوپر نیچے طویل میٹنگز ہوئیں اور فوج نے ان میٹنگز کے بعد نیوٹرل اور اے پولیٹیکل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے، تین مارچ 2021 کو سینیٹ کے الیکشن تھے۔
عمران خان وزیرخزانہ حفیظ شیخ کو اسلام آباد کی جنرل نشست سے جتوانا چاہتے تھے، آصف علی زرداری نے فوج کی غیر جانب داری چیک کرنے کے لیے یوسف رضا گیلانی کو میدان میں اتار دیا، پی ڈی ایم نے مل کر الیکشن لڑا اور پی ٹی آئی اکثریت کے باوجود پانچ ووٹوں سے ہار گئی۔
یوسف رضا گیلانی جیت گئے یوں ثابت ہوگیا اسٹیبلشمنٹ واقعی حکومت کے پیچھے سے ہٹ گئی ہے لیکن پھر اچانک عمران خان نے اعلان کر دیا وہ 6 مارچ کو اعتمادکا ووٹ لیں گے اور اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر عمران خان کی سپورٹ پر مجبور ہوگئی، جنرل فیض حمید کو ذمے داری سونپی گئی اور یہ 72 گھنٹے مسلسل جاگ کر حکومت بچانے میں کام یاب ہو گئے، چوہدری شجاعت حسین اس وقت اسپتال میں تھے۔
چوہدری سالک حسین ان کو کھانا کھلا رہے تھے، ایک فوجی افسر گلدستہ لے کر اسپتال آئے، چوہدری صاحب کی عیادت اور اس کے بعد درخواست کی "سر بے شک چوہدری صاحب علیل ہیں لیکن آپ نے کل ہر صورت پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ کر وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ دینا ہے" سالک حسین دوسرے دن جب تک پارلیمنٹ ہاؤس نہیں پہنچ گئے۔
انھیں اس وقت تک فون آتے رہے، طارق بشیر چیمہ بہاول پور میں تھے، انھیں فون کر کے کہا گیا آپ خود آئیں گے یا آپ کو لانے کا بندوبست کیا جائے، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین (مرحوم) نے کیمرے پر کہہ دیا "میں آیا نہیں ہوں، مجھے لایا گیا ہے" بہرحال جنرل فیض حمید نے جیسے تیسے ایم این ایز پورے کر دیے، آخری ووٹ غلام بی بی بھروانہ تھیں، یہ نہیں مان رہی تھیں لیکن پھر آخر میں آرمی چیف کو بتایا گیا۔
یہ بھی جھنگ سے نکل پڑی ہیں اور ہماری گاڑی ان کے پیچھے پیچھے ہے یوں 6 مارچ کو اعتماد کا ووٹ ہوا اور پی ڈی ایم کو ایک بار پھر یہ میسج چلا گیا فوج نیوٹرل ہونے کے باوجود عمران خان کی حکومت نہیں گرنے دے گی، اعتماد کے ووٹ کے بعد آصف علی زرداری کی کراچی شفٹنگ کا واقعہ بھی پیش آ گیا۔
عمران خان نے جنرل باجوہ اور جنرل فیض سے پی ڈی ایم توڑنے کا مطالبہ کر دیا، میں یہ واقعہ29 دسمبر کے کالم "جنرل باجوہ کے دو این آر او" میں لکھ چکا ہوں، مجھے اس کے بعد زرداری صاحب کے وکیل اور سابق وزیر قانون سینیٹر فاروق ایچ نائیک کا فون آیا، ان کا کہنا تھا آصف علی زرداری کی باقاعدہ ضمانت ہوئی تھی اور یہ اس کے بعد کراچی شفٹ ہوئے تھے جب کہ ان کے مقدمات بدستور اسلام آباد ہی میں چلتے رہے، میں نائیک صاحب کا احترام کرتا ہوں۔
انھیں چیلنج نہیں کر رہا لیکن میری اطلاعات کے مطابق جنرل فیض نے عمران خان کی ہدایت پر آصف علی زرداری کو نیب اور عدالت سے رعایت لے کر دی تھی اور رعایت کے بعد دو واقعات ہوئے تھے، زرداری صاحب کراچی چلے گئے اور یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں حکومت کی اتحادی باپ پارٹی کے چارارکان کے ووٹ دے کر اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا تھا، یہ جنرل فیض کی مہربانی تھی اور یوں پی ڈی ایم ٹوٹ گئی۔
ستمبر2020 میں ایف اے ٹی ایف کے بل کی منظوری کے موقعے پر ایک بار پھر مداخلت ہوئی جس کے بعد اپوزیشن مایوس ہوگئی لیکن جنرل باجوہ نے ملک محمد احمد کے ذریعے ن لیگ کے قائدین کو پیغام بھجوایا "اب کسی کو کوئی فون نہیں آئے گا" اور یہ وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد چیزیں بدلنا شروع ہوگئیں، پی ڈی ایم دوبارہ ایکٹو ہوئی اور حکومت گرتی ہوئی دیوار کی طرح آہستہ آہستہ گرتی چلی گئی۔
مارچ 2022میں جب صورت حال کلیئر ہوگئی تو ایک دن فروغ نسیم جنرل باجوہ کے پاس گئے اور ان سے پوچھا "ہمیں کیا کرنا چاہیے؟" جنرل باجوہ نے مشورہ دیا "میری خواہش ہے حکومت اپنی مدت پوری کرے" فروغ نسیم کا جواب تھا "گویا ہمیں مزید ڈیڑھ سال اس پاگل پن میں رہنا ہوگا" فروغ نسیم نے چند دن بعد جنرل باجوہ کو فون کیا اور کہا "سر آپ سے خالد بھائی (خالد مقبول صدیقی) بات کرنا چاہتے ہیں" اور اس کے بعد فون خالد مقبول کے ہاتھ میں پکڑا دیا، خالد مقبول نے دو سوال کیے۔
کیا عمران خان ہمیں گورنر شپ دے سکتے ہیں؟ جنرل باجوہ کا جواب تھا "میں یہ وعدہ نہیں کر سکتا" انھوں نے پوچھا "کیا یہ کراچی میں ہمیں میئر شپ دے دیں گے؟" جنرل باجوہ نے دوسری بار بھی کہا "میں یہ وعدہ بھی نہیں کر سکتا" خالد مقبول نے اس کے بعد کہا "سر پھر ہمیں پی ڈی ایم میں جانے دیں، ہم نے ایک سال بعد الیکشن بھی لڑنا ہے۔
ہم خان کے ساتھ الیکشن کے قابل نہیں رہیں گے" جنرل باجوہ کا جواب تھا" یہ آپ کا اپنا فیصلہ ہے" اور یوں ایم کیو ایم چلی گئی اور اسے پی ڈی ایم نے گورنر شپ بھی دے دی اور یہ اب میئر شپ کے لیے کوشش کر رہے ہیں، یہ بھی حسب وعدہ اسے مل جائے گی اور یہ ایک بار پھر متحرک بھی ہو جائے گی اور اس کی پی ٹی آئی کو بہت تکلیف ہے۔
عمران خان کے دور میں دو اور حیران کن واقعات بھی پیش آئے، ندیم بابر اورینٹ پاور کے نام سے بجلی بنانے والی ایک کمپنی چلا رہے تھے، عمران خان نے انھیں 22 اپریل 2019کومعاون خصوصی برائے پٹرولیم بنا دیا، یہ سیدھا سادا کلیش آف انٹرسٹ تھا۔
اسٹیبلشمنٹ نے وزیراعظم کو اس تقرری سے روکا لیکن یہ نہیں مانے اور یوں ندیم بابر پٹرولیم کے معاون خصوصی بن گئے، ان کے دور میں تین خوف ناک واقعات پیش آئے، ان کے پلانٹس کو جلدی اور زیادہ پے منٹ مل جاتی تھی جس پر دوسرے مالکان شور کرتے تھے، دوسرا ایک دن افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر نے جنرل باجوہ کو فون کر کے بتایا، کراچی پورٹ پر تیل کی درآمد میں گڑ بڑ ہو رہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ نے ندیم بابر سے پوچھا، ان کا جواب تھا، نہیں سر یہ اطلاع غلط ہے، کراچی پورٹ پر کچھ نہیں ہو رہا، چند دن بعد امریکا کے چارج ڈی افیئر نے جنرل باجوہ کو فون کر کے دوبارہ شکایت کی، آرمی چیف نے آئی ایس آئی کو کراچی پورٹ بھجوا دیا، آئی ایس آئی نے پورٹ سے تیل کا بھرا ہوا جہاز پکڑ لیا، جہاز کے کاغذات اومان کے تھے لیکن اس میں پٹرول ایرانی تھا اور اس پٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 30 روپے کا فرق تھا اور یہ جہاز ندیم بابر نے اپنے لیے منگوایا تھا، وزیراعظم کو بتایا گیا لیکن یہ خاموش رہے۔
تیسرا واقعہ اس سے زیادہ خوف ناک تھا، جنرل باجوہ کے قطر کے شاہی خاندان سے قریبی تعلقات تھے، یہ پابندی کے دوران بھی قطر کا دورہ کرتے رہے تھے اور قطر کے شاہی خاندان کو اس بات کی بہت حیاء تھی، 2021 میں ملک میں گیس کا بحران تھا، ماہرین کی پیش گوئی تھی سردیوں میں لوگوں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔
جنرل باجوہ ندیم بابر کو لے کر قطر گئے اورشیخ سے ایل این جی کی درخواست کی، چین قطر سے گیس کا سب سے بڑا خریدار تھا، قطر اسے سوا گیارہ ڈالرمیں ایل این جی بیچتا تھا لیکن قطر نے ہمیں سوا دس ڈالر میں گیس دے دی مگر یہ سہولت ون ٹائم تھی، ہمیں کہا گیا آپ کو جتنی گیس چاہیے آپ ایک بار لے لیں۔
جنرل باجوہ نے ندیم بابر اور میجر جنرل محمد عرفان کو قطر کے وزیر گیس کے حوالے کر دیا، وزیر نے پاکستان کی ضرورت پوچھی، ندیم بابر نے کہا، ہمیں تین جہاز دے دیں، جنرل عرفان نے ندیم بابر کے کان میں کہا، ہم دس لے لیتے ہیں، ہمیں زیادہ ضرورت پڑے گی لیکن ندیم بابر کاکہنا تھا ہمارے لیے تین جہاز کافی ہیں، جنرل عرفان نے دوبارہ سوچنے کے لیے کہا لیکن ندیم بابر نہیں مانے، یہ ایکسپرٹ تھے، فوج گیس کی اصل ضرورت سے واقف نہیں تھی۔
لہٰذا جنرل عرفان خاموش ہو گئے اور یوں ہم صرف تین جہاز بک کرا کر واپس آ گئے لیکن جب سردیاں آئیں تو پورے ملک سے گیس اور بجلی دونوں غائب ہوگئیں اور حکومت اوپن مارکیٹ سے 30 ڈالرمیں ایل این جی خریدنے پر مجبور ہوگئی، یہ سیدھی سادی زیادتی تھی، تحقیقات کی گئیں تو پتاچلا ندیم بابر یہ کھیل اپنا فرنس آئل بیچنے کے لیے کھیلتے رہے چناں چہ فوج نے شدید احتجاج کیا اور یوں عمران خان نے ندیم بابر سے استعفیٰ لے لیا۔
ندیم بابر چلے گئے لیکن ان کی مہربانیوں کی فصل ملک آج بھی کاٹ رہا ہے، جنرل باجوہ تسلیم کرتے ہیں شاہد خاقان عباسی نے قطر سے ایل این جی کا سستا ترین سودا کیا تھا، وہ جاری رہنا چاہیے تھا، عمران خان نے وہ سلسلہ توڑ کر ملک پر ظلم کیا۔
فوج نے 2020میں نریندر مودی کو پاکستان آنے کے لیے بھی رضا مند کر لیا تھا، یہ کارنامہ جنرل فیض حمید کا تھا، یہ ایک عرب ملک میں بھارت کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزراجیت دوول سے متعدد مرتبہ ملے اور یہ فیصلہ ہوگیا نریندر مودی 9 اپریل 2021 کو پاکستان آئیں گے، مودی ہنگلاج ماتا کے پجاری ہیں، یہ سیدھا ہنگلاج ماتا کے مندر جائیں گے وہاں دس دن کا بھرت رکھیں گے، واپسی پر عمران خان سے ملیں گے۔
ان کا بازو پکڑ کر ہوا میں لہرائیں گے اور دوستی کا اعلان کر دیں گے، نریندر مودی یہ اعلان بھی کریں گے ہم تجارت بھی کھول رہے ہیں، ہم دونوں ایک دوسرے کے ملک میں مداخلت اور دہشت گردی نہ کرنے کا اعلان بھی کرتے ہیں اور کشمیر کا فیصلہ ہم 20 سال بعد مل بیٹھ کر کریں گے، یہ فیصلہ ہوگیا لیکن عین وقت پر شاہ محمود قریشی نے عمران خان کو ڈرا دیا، ان کا کہنا تھا آپ پر مہر لگ جائے گی آپ نے کشمیر کا سودا کر دیا، وزیراعظم پیچھے ہٹ گئے اور یوں یہ دورہ کینسل ہوگیا۔