Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Dafna Dein Ya Jaga Dein

Dafna Dein Ya Jaga Dein

وہ ایک پاگل تھا، اس کا کہنا تھا میں"جادو کا ایکسپرٹ" ہوں، وہ مختلف لوگوں پر جھاڑ پھونک کرتا رہتا تھا، لوگوں نے اس کی شکایت کی، پولیس آئی اور وہ 2019میں گرفتار کر لیا گیا، وہ دو سال جیل رہا، اس دوران اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی۔

وہ جون 2022میں جیل سے رہا ہوا، گھر واپس آیا اور اس نے یہ کام دوبارہ شروع کر دیا، وہ اب مقدس اوراق پر بیوی کی تصویر چپکاتا تھا، ورق کے ساتھ چھری رکھتا تھا اور منہ ہی منہ میں کچھ بدبداتا رہتا تھا، محلے کے لوگ اسے پاگل سمجھ کر اگنور کر دیتے تھے لیکن پھر اس نے یہ حرکت سر بازار کرنا شروع کر دی۔

وہ فروری کی ایک صبح بھی یہ حرکت کر رہا تھا، لوگ اکٹھے ہوئے اور اسے مارنا شروع کر دیا، پولیس کو اطلاع ہوئی، دو اہلکار موٹر سائیکل پر وہاں پہنچے، اسے چھڑایا، اپنے موٹر سائیکل پر بٹھایا اور اسے پولیس اسٹیشن لے آئے، پولیس کی "ایس او پیز" ہیں یہ ایسے ملزموں کو فوری طور پر دوسرے شہر شفٹ کر دیتی ہے۔

تھانے میں اس وقت زیادہ اہلکار بھی نہیں تھے اور گاڑی بھی نہیں تھی، پولیس نے اسے لا کر باتھ روم میں بند کر دیا، اس دوران بات شہر میں پھیل گئی، ہجوم اکٹھا ہوا، تھانے پہنچا اور تھانے کے دروازے اور کھڑکیاں توڑنے لگا، تھانے کا عملہ ہجوم کو دیکھ کر ڈر گیا اور وہ تھانہ چھوڑ کر بھاگ گیا۔

ہجوم نے باتھ روم کا دروازہ توڑ کر گستاخ کو باہر نکالا، اس کے کپڑے اتارے، اسے الف ننگا کیا، زمین پر لٹایا اور اسے گھسیٹنا شروع کر دیا، لوگ اسے ٹھڈے بھی مار رہے تھے اور ماں بہن کی گالیاں بھی دے رہے تھے، وہ تھوڑی دیر تشدد برداشت کرتا رہا اور پھر مر گیالیکن ہجوم کی نفرت کی آگ اس کے باوجود ٹھنڈی نہ ہوئی، وہ اسے مارتے اور گھسیٹتے رہے۔

وڈیو وائرل ہوئی، پولیس فورس پہنچی اور ہجوم سے بڑی مشکل سے اس کی لاش چھڑائی گئی، اس کے بعد نیا ایشو پیدا ہوگیا، لوگوں نے فتویٰ دے دیا ہم اسے شہر کی زمین میں دفن نہیں ہونے دیں گے۔

پولیس کے لیے لاش کی تدفین مسئلہ بن گئی، بڑی مشکل سے چار سو کلومیٹر دور رحیم یار خان کے ایک مولوی صاحب کو جنازے کے لیے قائل کیا گیا اور پھر اسے ایک گم نام قبرستان میں دفن کر دیا گیا مگر لوگ اب اس کی قبر تلاش کر رہے ہیں اور اس کی لاش نکال کر لٹکانا چاہتے ہیں۔

یہ واقعہ 12فروری 2022کو واربرٹن میں پیش آیا، یہ شہر انگریز کے زمانے کے ایڈیشنل آئی جی جان پال وار برٹن نے آباد کیا تھا، وہ مسلمان تھا، یتیم تھا اور اس کا نام جان داد خان تھا، انگریزوں نے جب پنجاب فتح کیا تو واربرٹن نام کی ایک اینگلو انڈین فیملی لاہور آئی اور اسے یہ یتیم بچہ پسند آگیا۔

انھوں نے اسے گود لے لیا، یہ بعدازاں عیسائی ہوگیا، اعلیٰ اداروں سے تعلیم حاصل کی، پولیس میں بھرتی ہوا اور ترقی کرتا ہوا ایڈیشنل آئی جی کے عہدے تک پہنچ گیا، حکومت نے ریٹائرمنٹ کے بعد اسے ننکانہ صاحب کے قریب زمینیں الاٹ کر دیں۔

جان پال نے انگلینڈ جانے کے بجائے اپنے نام سے واربرٹن کا قصبہ آباد کر دیا، قیام پاکستان کے بعد اس کا خاندان برطانیہ چلا گیا اور حکومت نے اس کے گھر کو ہائی اسکول بنا دیا، یہ اسکول آج تک قائم ہے، اس واربرٹن میں 12 فروری کو ہجوم نے اس پاگل شخص کو سڑک پر مار دیا۔

یہ واقعہ سیالکوٹ سے ملتا جلتا ہے، ہجوم نے جس طرح 3 دسمبر 2021 کو سری لنکا کے منیجر کو سڑک پر گھسیٹ کر آگ لگا دی تھی بالکل اسی طرح واربرٹن میں بھی 12 فروری کو گستاخ وارث کو بربریت کا نشانہ بنا دیا گیا۔

یہ واقعہ رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے، آپ اگر وڈیوز دیکھیں تو آپ کو ہجوم میں نوجوان لڑکوں کی تعداد زیادہ نظر آئے گی، ان نوجوانوں نے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ اور کندھوں پر بیگز لٹکا رکھے ہیں، گویا یہ پڑھے لکھے بھی ہیں اور یہ پڑھے لکھے لوگ کیا کر رہے ہیں؟ یہ گستاخی کا بدلہ ٹھڈوں، مکوں، پتھروں، ڈنڈوں اور گالیوں سے لے رہے ہیں۔

میں اپنے علماء کرام سے اکثر یہ سوال پوچھتا ہوں کیا دنیا کا کوئی شخص اللہ، قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کی توہین کر سکتا ہے؟ یہ حیرت سے میری طرف دیکھتے ہیں، میرا خیال ہے خدا، رسول اور آسمانی کتابیں گستاخی اور توہین سے بالاتر ہیں۔

دنیا کا کوئی شخص ان کی توہین نہیں کر سکتا، دوسرا دنیا کا کوئی صحیح الدماغ شخص بھی یہ جسارت نہیں کر سکتا، صرف پاگل اور فاتر العقل لوگ یہ حرکت کرتے ہیں اور تینوں آسمانی مذاہب میں پاگلوں پر حد نافذ نہیں ہوتی، تیسرا یہ حق ہجوم کو کس نے دیا یہ کسی کی جان لینے کا فیصلہ کرلے، یہ تین بنیادی سوال ہیں لیکن یہ سوال درد دل رکھنے والے سماج یا پھر انسانوں کے معاشرے کے لیے ہیں جب کہ ہم ثابت کر رہے ہیں ہم سماج اور انسان دونوں کہلانے کے قابل نہیں ہیں۔

ہم نے اس ملک کو موت کا کنواں بنا دیا ہے اور اس کنوئیں میں کس وقت کس کے ساتھ کیا ہو جائے کوئی نہیں جانتا، آپ صدر سے لے کر آئی جی تک کسی سے پوچھ لیں، کسی شخص کو اپنی عزت، جان، مال اور نوکری کے تحفظ کا یقین نہیں ہوگا، اس ملک میں کسی بھی وقت، کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اس کے بعد اس کے بچوں کو رونے کی اجازت بھی نہیں ملے گی۔

یہ 22 کروڑ پاگلوں کا ملک ہے جن کے پاگل پن میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے اور کوئی انھیں روکنے، سمجھانے اور راہ راست پر لانے والا نہیں، ملک میں عقل اور عقل کی بات دونوں فوت ہو چکی ہیں، آپ کسی سے بات کر کے دیکھ لیں وہ آپ کا منہ توڑ دے گا۔

میں نے آخری بار 2014ء میں اختلاف کیا تھا، میں 8 سال سے کسی سے اختلاف نہیں کرتا، میرے سامنے جو شخص جو کہہ دے میں اطمینان سے سنتا ہوں اور چپ چاپ اٹھ کر چلا جاتا ہوں، لوگوں سے روزانہ بیسیوں مرتبہ گالی کھانے کے بعد معافی مانگتا ہوں۔

میرے دوست مجھ سے کہتے ہیں تم سے کیا بات کی جائے تم ہر بات کی تائید کر دیتے ہو یا پھر فوراً معافی مانگ لیتے ہو، میں ہنس کران سے بھی معافی مانگ لیتا ہوں، چند دن قبل سڑک پر ایک نوجوان نے میری گاڑی تباہ کر دی، گاڑی میں میرا خاندان تھا، اللہ تعالیٰ نے کرم کیا بچے محفوظ رہے لیکن گاڑی مکمل طور پر ختم ہوگئی۔

میں نے گاڑی مارنے والے سے بھی جا کر معافی مانگی اور کہا، آپ ہمیں معاف کر دیں، ہم آپ کے ہوتے ہوئے سڑک پر آ گئے اور پھر آپ کی کوشش کے باوجود فوت ہونے سے بھی بچ گئے، میں نے اسے یقین دلایا ہم آیندہ سڑک پر نہیں آئیں گے، میرے ایک دوست نے کہا، تمہاری گاڑی تباہ ہوگئی اور تم نے الٹا اس سے معافی مانگ لی۔

میں نے اس سے کہا، سیدھی بات ہے تم نے اگر اس ملک میں رہنا ہے تو پھر اس کی عادت ڈال لو اور یہ بھی یاد رکھ لو اگر مکان اور گاڑی کے مالک ہو تو پھر اس پر حملہ اب دوسرے لوگوں کا حق ہے۔

میں دس برسوں سے کوئی مذہبی کتاب لے کر گھر سے نہیں نکلتا، خریدتا بھی نہیں ہوں کہ کہیں دیکھنے والے اسے بھی گستاخی نہ سمجھ لیں، میں عوامی مقامات پر تلاوت سننے سے بھی ڈرتا ہوں اور قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر بھی چھپا کر پڑھتا ہوں کہ کہیں اسے بھی کوئی گستاخی نہ سمجھ لے اور لوگ اگر مجھ سے مذہبی کتابوں کے بارے میں پوچھیں تو میں فوراً معذرت کر لیتا ہوں، میرے بے شمار دوست بھی اب گھروں میں نماز پڑھتے ہیں۔

ان کو یہ خوف ہے انھیں مسجد کی بنیاد پر کسی فرقے کے ساتھ نتھی نہ کر دیا جائے اور یوں ان کی جان نہ چلی جائے۔

یہ ہے آج کاپاکستان جس میں کسی بھی شخص کو فیکٹری، تھانے، گھر اور یونیورسٹی سے نکال کر سڑک پر قتل کیا جا سکتا ہے اور ریاست خاموشی سے تماشا دیکھتی رہ جاتی ہے لیکن نہیں رکیے، ریاست اب ہے کہاں؟ ریاست کو ریاست رہنے کس نے دیا ہے؟ ہم اب بٹے ہوئے تقسیم شدہ جذباتی ہجوم ہیں۔

ہم اب جس طرف چل پڑتے ہیں ہم چل پڑتے ہیں اور ریاست کے کسی ادارے میں ہمیں روکنے کی جرات نہیں ہوتی، آپ آج دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے، کیا آج اس ملک میں کسی چیز کی سیکیورٹی موجود ہے، کیا ہمیں یقین ہے ہمیں اگلے مہینے بجلی، گیس، پٹرول، انٹرنیٹ یا بینک کی سہولت مل سکے گی یا یہ حکومت اگلے مہینے بھی قائم رہے گی اور اگر کوئی شخص کسی شخص کی عزت، جان اور مال پر ہاتھ ڈالے گا تو کوئی ادارہ آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ روک لے گا؟ آپ یقین کریں میری عمر کے لوگ اب تھک چکے ہیں۔

ہماری مایوسی تک اب یہ سرکس دیکھ دیکھ کر بوڑھی ہو چکی ہے، خدا کی پناہ جس ملک میں نوجوان بھی کندھوں پر کالج بیگ لٹکا کر اور ہاتھوں میں لیپ ٹاپ اٹھا کر سڑک پر کسی شخص کو سرعام قتل کر دیں۔

اس میں باقی کیا بچ جاتا ہے؟ یہ معاشرہ یقین کریں اندر اور باہر دونوں جگہوں سے مر چکا ہے، خدا کے لیے اب اسے دفنا دیں یا پھر اسے جگا دیں ورنہ یہ یاد رکھیں آج لوگوں نے ملزم کو تھانے سے نکال کر مار دیا ہے کل یہ پارلیمنٹ ہاؤس سے لوگوں کو نکال نکال کر ماریں گے، کیا ہم اس کا انتظار کر رہے ہیں؟

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.