Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Dunya Ka Mehnga Tareen Qabristan

Dunya Ka Mehnga Tareen Qabristan

بیونس آئرس ارجنٹائن کا دارالحکومت بھی ہے اور سب سے بڑا شہر بھی، ملک کی کل آبادی ساڑھے چار کروڑ ہے اور اس میں سے ڈیڑھ کروڑلوگ بیونس آئرس میں رہتے ہیں، یہ ملک رقبے کے لحاظ سے پاکستان سے اڑھائی گنا بڑا جب کہ آبادی میں چارگنا چھوٹا ہے، آپ اس سے وسائل کی تقسیم بخوبی کر سکتے ہیں۔

بیونس آئرس اسپینش جہاز رانوں نے 1580میں آباد کیا تھا یوں یہ شہر محض443 سال پرانا ہے لیکن یہ اپنے طرز تعمیر، بودوباش اور انفرااسٹرکچر میں پیرس، لندن، فرینکفرٹ اور بارسلونا سے بھی آگے ہے، عمارتیں کلونیل اسٹائل کی ہیں اور بڑی ہیں، سڑکیں کھلی اور ہموار ہیں، گلیاں پتھریلی اور پکی ہیں، شہر میں مصنوعی جھیلیں اور بے تحاشا پارکس ہیں۔

پاکستان کے نام سے بھی ایک پارک منسوب ہے، پبلک ٹرانسپورٹ بھی ہے اور پورے شہر کے لیے دستیاب ہے، یہ پورا شہر دیکھنے لائق ہے لیکن تین جگہیں"مسٹ وزٹ" ہیں، پہلی جگہ لابوکا (La Boca) ہے۔

لابوکا بیونس آئرس کی پہچان ہے، پورا علاقہ کیروگیٹڈ شیٹس سے بنا ہوا ہے اور اپنے تیز مگر مختلف رنگوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، آپ جب بھی بیونس آئرس یا ارجنٹائن گوگل کریں گے تو لابوکا کے رنگین گھروں کی تصویریں آپ کے سامنے آ جائیں گی، یہ پورشن کبھی بندرگاہ ہوتا تھا، یورپ سے جب بھی لوگ ہجرت کرکے ارجنٹائن آتے تھے یہ سب سے پہلے لابوکا میں پناہ لیتے تھے۔

اس کی تنگ گلیوں اور چھوٹے مکانوں میں ماضی میں لاکھوں لوگ رہتے تھے، ان میں سے زیادہ تر کا پیشہ مچھلی پکڑنا تھا، سمندری ہوا کی وجہ سے ان کی کشتیاں جلد خراب ہو جاتی تھیں لہٰذا وہ لوگ ہر ہفتے انھیں رنگ کرتے تھے۔

اس دور میں پینٹ کو زیادہ عرصہ محفوظ نہیں رکھا جا سکتا تھا چناں چہ وہ کشتی رنگنے کے بعد اپنا اضافی رنگ مکانوں کی دیواروں اور دروازوں پر لیپ دیتے تھے، رنگ تھوڑا ہوتا تھا جس کی وجہ سے دروازے، دیواریں اور چھتیں مکمل طور پر نہیں رنگی جاتی تھیں، اگلی بار یہ اضافی رنگ سے باقی حصے بھی رنگ دیتے تھے یوں مکان "ڈب کھڑبے" ہو جاتے تھے۔

یہ "ڈب کھڑبے" مکان بعدازاں لابوکا کی پہچان بن گئے اور آج بھی پورے علاقے کے مکانوں کے مختلف حصوں کو مختلف رنگوں سے رنگا جاتا ہے اور یہ رنگ دیکھنے کے لیے پوری دنیا سے سیاح آتے ہیں، لابوکا فٹ بال اور ٹینگو ڈانس کی وجہ سے بھی دنیا میں مشہور ہے۔

ٹینگو نے انھی گلیوں میں جنم لیا تھا، مچھیرے روزانہ رات کے وقت یہاں گاتے اور ناچتے تھے، یہ گانا اور یہ ناچنا بعدازاں ٹینگو بن گیا، یہ لوگ فٹ بال لور بھی ہیں، لابوکا کا فٹ بال کلب اور اسٹیڈیم دونوں پوری دنیا میں پہچانے جاتے ہیں، لیونل میسی (Lionel Messi) بھی انھی گلیوں میں کھیلتا ہوا فٹ بال کا ورلڈ چیمپیئن بنا تھا، لابوکا میں آج بھی جگہ جگہ میسی کے مجسمے نصب ہیں۔

ہم پہلے دن ہی لابوکا پہنچ گئے، گلیاں پتلی اور گھر پرانے اور رنگین تھے جن میں سیاح گھوم رہے تھے، ہر دوسرے تیسرے گھر کے نیچے پب اور کافی شاپ تھی اور اس میں درجنوں لوگ بیٹھے تھے، گلیوں میں موسیقی کے روایتی آلات بجائے جا رہے تھے اور جوان عورتیں اور مرد دھن پر ٹینگو رقص کر رہے تھے، سیاح ان کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے۔

علاقے میں غربت ہے اور اس کے اثرات بھی دکھائی دے رہے تھے، لوگوں کے چہرے بجھے ہوئے تھے اور یہ رات کے وقت سیاحوں کو لوٹ بھی لیتے ہیں لہٰذا حکومت مغرب کے بعد پورے علاقے کو بند کرادیتی ہے اور سیاحوں کو لابوکا نہ جانے کا مشورہ دیتی ہے۔

ہماری موجودگی میں دکانیں، ریستوران اور پبس بند ہو رہے تھے اور سیاح ایک ایک کرکے علاقے سے نکلنا شروع ہو گئے تھے، لابوکا کے زیادہ تر لوگ فٹ بالرز اور فٹ بال کلبس سے منسوب شرٹس پہنتے ہیں۔

ہمیں ہر جگہ یہ شرٹس نظر آئیں، گھروں کے اندر بھی دکانیں ہیں اور ان میں آرگینک مصنوعات، چمڑے اور سوتی کپڑے کے ملبوسات اور ہینڈی کرافٹس بکتے ہیں، ہم آخر میں چلتے چلتے بندرگاہ تک آ گئے، بندر گاہ پرانی اور بند تھی اور اب یہ صرف تفریح گاہ ہے، ہم تھوڑی دیر وہاں رکے اور پھر واپس آ گئے۔

بیونس آئرس کا دوسرا "مسٹ وزٹ" مقام ری کولیٹا کا قبرستان ہے، یہ دنیا کا انوکھا ترین مقام ہے، میں آدھی سے زیادہ دنیا گھوم چکا ہوں لیکن میں نے ری کولیٹا جیسا قبرستان کسی ملک میں نہیں دیکھا، یہ شاید دنیا کا واحد قبرستان ہوگا جس میں داخلے کے لیے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے اور آپ کو گائیڈڈ ٹور کی ضرورت پڑتی ہے۔

ہم اس میں داخل ہوئے تو چند سیکنڈ میں سکتے میں چلے گئے، قبرستان میں 600 قبریں ہیں لیکن ہر قبر ایک محل، ایک حویلی اور ایک آرٹ پیس ہے، ہر قبر تعمیراتی معجزہ ہے اور یہ معجزہ دنیا کے نامور آرکی ٹیکٹس نے تخلیق کیا، قبروں کے درمیان باقاعدہ گلیاں ہیں اور یہ گلیاں چوکوں اور چوراہوں پر ختم ہوتی ہیں، فرش پر قیمتی اینٹیں اور پتھرجڑے ہیں، صرف اس چھوٹے سے کمپاؤنڈ میں جتنے مجسمے ہیں اتنے پورے پیرس میں نہیں ہوں گے اور ہر مجسمہ آرٹ پیس بھی ہے، قبرستان میں پہنچ کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

فن تعمیر کا یہ نمونہ بھی "فری میسن" نے تخلیق کیا تھا، بیونس آئرس کے شمالی حصے میں 1732میں پلر (Pilar) چرچ بنا، چرچ کے ساتھ وسیع باغ ہوتا تھا، اس کے پھل صرف چرچ کے خاص طالب علم اور پادری توڑ سکتے تھے، پھل توڑنے والوں کو اسپینش زبان میں ری کولیٹا کہا جاتا ہے لہٰذا اس نسبت سے پورا علاقہ "ری کو لیٹا" ہوگیا، 1822میں گونر مارٹن روڈرگز (Rodgiuez) نے فرنچ انجینئر بلوا کر باغ میں قبرستان بنوا دیا، 1822ء ہی میں بیونس آئرس کے پہلے امیر مردے کو اس قبرستان میں دفن کیا گیا۔

لواحقین نے اپنے والد کی قبر آرکی ٹیکٹ سے بنوائی تھی، یہ بیونس آئرس میں پہلی ڈیزائنر قبر تھی اور لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آتے تھے، مردوں میں اس کے بعد ڈیزائنر قبروں کا مقابلہ شروع ہوگیا، میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں ارجنٹائن ایک وقت میں دنیا کا امیر ترین ملک تھا اور امریکا، روس اور یورپ معاشی طور پراس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا، دولت کی یہ فراوانی 1940 تک برقرار رہی مگر پھر اس ملک کو نظر لگ گئی اور آج یہ انفلیشن میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے، شہر میں اس زمانے میں سیکڑوں امیر لوگ تھے۔

یہ امراء اپنی زندگی میں اپنی قبروں کے ڈیزائن بنوانے لگے، بعض امراء نے اپنی نگرانی میں اپنی قبریں بھی تیار کرا لیں یوں یہ دنیا کا امیر ترین ڈیزائنر قبرستان بنتا چلا گیا اور آج دنیا بھر سے سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں، قبرستان میں چھ سو قبریں ہیں، آپ کو ہر قبر تفصیل سے دیکھنے کے لیے پورا دن چاہیے۔

ایک قبر ایک دن، 600 قبریں 600 دن لہٰذا آپ کو قبرستان کو تفصیل سے دیکھنے کے لیے دو سال چاہییں، کمپاؤنڈ پر اب تک سیکڑوں ریسرچ پیپرز لکھے جا چکے ہیں جب کہ اس پر پی ایچ ڈی تک ہو چکی ہے اور یہ قبرستان اس معاملے میں انوکھا ہے۔

ہم قبرستان میں داخل ہوئے اور چند سیکنڈ بعد اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے، کیوں؟ کیوں کہ ہر قبر ایک حویلی، ایک محل یا ایک مینشن تھا، اس میں باقاعدہ بیسمنٹ، لابی اور فرسٹ فلور تھا، اندرڈرائنگ رومز اور فائر پلیس تک تھی، دروازے بھی ڈیزائنز تھے اور ریلنگس بھی، عمارتوں پر باقاعدہ کارونگ اور سنگ مر مر اور دھاتوں کے دیوہیکل مجسمے بھی تھے، بعض قبریں خاندانی تھیں، اندر خاندان بھر کے تابوت ریکس میں رکھے تھے۔

تابوت بھی اس قدر مہنگے اور خوب صورت تھے کہ انھیں دیکھ کر دل للچا جاتا تھا، قبروں میں باقاعدہ ہیٹنگ اور کولنگ سسٹم تھا، آبنوسی لکڑی کافرنیچر بھی تھا، بعض قبریں خستہ حال تھیں، میں نے وجہ پوچھی، گائیڈ نے بتایا یہ خاندان ختم ہو چکے ہیں یا نقل مکانی کر گئے ہیں، میں نے پوچھا آپ یہ نئے لوگوں کو الاٹ کیوں نہیں کر دیتے؟ اس کا جواب تھا یہ اب ورلڈ ہیرٹیج ہے، ہم اسے چھیڑ نہیں سکتے۔

بعض قبریں بہت قدیم لیکن صاف ستھری تھیں، پوچھنے پر معلوم ہوا یہ بابا اپنی قبر کی نگہداشت کے لیے ٹھیک ٹھاک پراپرٹی یا بینک بیلنس چھوڑکر گیا تھا، ایک قبر کے بارے میں پتا چلا مزار اسٹاف17 لوگوں پر مشتمل ہے، یہ روزانہ قبر پر آتا ہے۔

اس کی فائیو اسٹار لیول کی صفائی ستھرائی اور مینٹیننس کرتا ہے، ایئرفریشنر چھڑکتا ہے اور قبر پر تازہ پھول رکھتا ہے، میں نے پوچھا "یہ لوگ تنخواہ کہاں سے لیتے ہیں؟" بتایا گیا "بابا مرنے سے پہلے باقاعدہ بندوبست کرکے گیا تھا اور یہ انتظام 75 برسوں سے چل رہا ہے" ایک بوڑھی مائی کے بارے میں پتا چلا وہ پوری زندگی غیر شادی شدہ رہی لیکن پھر اس نے اپنی زندگی میں اپنی قبر بنوائی، اپنی ایک پراپرٹی قبر کے لیے وقف کی اور پھر وہ وصیت کر گئی میری قبر کے لیے شہر کے خوب صورت ترین جوانوں کو بھرتی کیا جائے اور یہ نوجوان روزانہ برہنہ حالت میں میری قبر کی صفائی کریں اور یہ صفائی آج تک ہوتی ہے۔

میں نے قبر کی نشان دہی کی درخواست کی لیکن گائیڈ نے معذرت کر لی، اس کا کہنا تھا ہم آپ کو وہ قبر نہیں دکھا سکتے، ایک قبر کسی نوجوان جہاز ران کی تھی، وہ 1895میں فوت ہوا تھا اور اس وقت سے آج تک اس کی قبر ارجنٹائن کی مہنگی ترین وائن سے دھوئی جاتی ہے جب کہ آدھی سے زیادہ قبروں پر مہنگے ترین پرفیوم اور ایئرفریشنر چھڑکے جاتے ہیں۔

ایک قبر کے اندر وارڈ روب بھی تھی اور اس وارڈروب میں ہر چھ ماہ بعد نئے کپڑے اور جوتے رکھے جاتے ہیں، ایک قبر میں بابے کے لیے روزانہ فائیواسٹار ہوٹل سے تین وقت کھانا آتا ہے، یہ کھانا باقاعدہ میز پر لگایا جاتا ہے اوردو ویٹر40 منٹ تک مودب ہو کر میز کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اور ایک قبر میں اف خدایا۔۔ (باقی اگلے کالم میں ملاحظہ کیجیے)

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.