آب شاروں کا علاقہ حیران کن تھا، چھوٹے سے علاقے میں ساڑھے تین سوآب شاریں بہہ رہی تھیں، ندیاں اور جھرنے ایمازون سے آتے ہیں اور پہاڑوں سے نیچے چھلانگ لگا دیتے ہیں، میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں ایمازون کے جنگل ارجنٹائن، پیراگوئے اور برازیل کے سرحدی علاقوں سے بلند ہیں چناں چہ دریا بہتے ہوئے اگواسو تک آتے ہیں اور پھر اچانک نیچے وادیوں میں چھلانگ لگا دیتے ہیں یوں آب شاروں کی ایک آرچ سی بن جاتی ہے۔
آپ جوں ہی اس آرچ کے درمیان پہنچتے ہیں تو آپ پر تین اطراف سے پانی گرنے لگتا ہے اور آپ اس وقت کیسا محسوس کرتے ہیں یہ ناقابل بیان ہے، مجھے نیاگرا فال بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا لیکن اگواسو فالز اس سے کہیں زیادہ بڑی اور خوب صورت ہیں مگر یہ مارکیٹنگ کی وجہ سے مار کھا گئی ہیں، شاید اسی لیے دنیا ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی۔
ہم ارجنٹائن کی سائیڈ پر لوہے کے واک ویز پر تین گھنٹے گھومتے رہے، ماریو نے ہمیں بارہ بجے پک کرنا تھا لہٰذا ہم بارہ بجے واپس آ گئے، جنگل کے درمیان ریستوران، کافی شاپس اور ایک ہوٹل بھی تھا جب کہ جگہ جگہ بیٹھنے کے لیے بینچ رکھے ہوئے تھے۔
ہم بارہ بجے کے بعد برازیل کی سائیڈ کے لیے روانہ ہو گئے، بارڈر پر رش تھا لیکن حکومت نے ٹیکسی ڈرائیورز کو خصوصی کارڈز جاری کر رکھے ہیں، ہم اس وجہ سے آدھ گھنٹے میں چیک پوسٹ پر پہنچ گئے، ارجنٹائن کے امیگریشن اسٹاف نے ہمارے پاسپورٹ پر آؤٹ کی مہر لگائی اور ہم برازیل میں داخل ہو گئے، برازیل کی سائیڈ پر پاسپورٹ چیک نہیں کیے گئے، ماریو نے بتایا، ارجنٹائن کے امیگریشن رولز زیادہ سخت ہیں۔
یہ نہیں چاہتے سیاح برازیل اور پیرا گوئے جائیں جب کہ دوسرے دونوں ملک زیادہ سے زیادہ سیاح کھینچنا چاہتے ہیں اس لیے ادھر سختی نہیں، بہرحال ہم برازیل پہنچ گئے، برازیل کا انفرااسٹرکچر اور کرنسی دونوں مضبوط ہیں، سڑکیں چوڑی اور عمارتیں زیادہ جدید ہیں، شہر کے شروع میں ہیلی کاپٹر سروس تھی، ہم نے اپنے نام رجسٹرڈ کرائے، فیس ادا کی اور دس منٹ کی رائیڈ لے لی، ہیلی کاپٹر جدید اور آرام دہ تھے۔
ایک گروپ میں آٹھ سیاحوں کو سیر کرائی جاتی ہے، فضا سے آب شاروں کا مشاہدہ، دور دور تک پھیلے ایمازون، دریا اور تین ملکوں کی سرحد یہ یادگار نظارہ تھا، ہم اس کے بعد آب شار کے لیے روانہ ہو گئے، برازیل سائیڈ پر بھی علاقے میں داخلے کی فیس ہے، ہمیں پہلے جنگل میں داخلے کی فیس ادا کرنا پڑی اور پھر کروز کی فیس، سیاح تین اسٹیجز میں منزل مقصود تک پہنچتے ہیں، انھیں پہلے بسوں میں بٹھا کر ایمازون کے گہرے حصے میں پہنچایا جاتا ہے۔
وہاں سے انھیں سفاری جیپوں میں مزید آگے لے جایا جاتا ہے اور پھر انھیں گائیڈز کے ساتھ پیدل مارچ کرایا جاتا ہے، گائیڈ نے سیاحوں کو بتایا آپ نے ریلنگ پر ہاتھ نہیں لگانا، اس کا کہنا تھا رات کے وقت سانپ اپنا زہر ریلنگ پر تھوکتے رہتے ہیں، یہ زہر ہاتھوں کے ذریعے جسم میں داخل ہو جاتا ہے، اس کا کہنا تھا ہر سال سیکڑوں لوگ جنگلوں کے زہر کی وجہ سے مر جاتے ہیں، ہمیں راستے میں سانپ اور سیاہ بندر بھی دیکھنے کا موقع ملا، جنگل گہرا اور گھنا تھا، اس سائیڈ پر بھی لوہے کا جالی دار واک وے تھا جس کے آخر میں پتھریلی سیڑھیاں تھیں۔
ہم واک وے اور سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے پورٹ پر پہنچ گئے، نیچے سو فٹ کی گہرائی میں دریا بہہ رہا تھا، ہمیں لاکرز میں سامان رکھنے کی ہدایت کی گئی، ہم نے دوسرے سیاحوں کی پیروی کرتے ہوئے جوتے اتار دیے اور اسٹور سے برساتی بھی خرید لی جس کے بعد ہمیں ڈولی میں بٹھا کر نیچے دریا تک لایا گیا، وہاں موٹر بوٹس کھڑی تھیں۔
ان میں بیس بیس لوگوں کوبٹھایا جاتا تھا اور اس کے بعد ہمارا خوف ناک سفر شروع ہوگیا، میں آج بھی جب اس سفر کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، موٹر بوٹ دریا اور چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی آب شاروں کے انتہائی قریب پہنچ گئی اور پھر سیکنڈز میں ہم پر سیکڑوں لیٹر پانی گر گیا، ہم بری طرح پانی میں گھر گئے۔
ہم پر اوپر سے بھی پانی گر رہا تھا اور دائیں بائیں سے بھی، ڈرائیور بار بار بوٹ کو پانی کی دھار کے نیچے لاتا تھا اورپھر پوری بوٹ سے چیخوں اور قہقہوں کی آواز آتی تھی، یہ تجربہ خوف ناک تھا لیکن اس کا اختتام اچھا ہوا، ہمارے اندر کا بوڑھا ہوتا ہوا بچہ باہر نکل آیا اور اس نے خوب کھل کر قہقہے لگائے۔
سہیل مقصود میرے دوست ہیں، یہ غرناطہ میں کیش اینڈ کیری کے مالک ہیں، میں انھیں"ممتاز بزنس مین" کہتا ہوں تو یہ چڑ جاتے ہیں، یہ میرے ساتھ ارجنٹائن گئے تھے، فرفر اسپینش زبان بولتے ہیں، لاطینی امریکا میں (برازیل کے سوا) اسپینش زبان بولی جاتی ہے لہٰذا مجھے سہیل بھائی کی وجہ سے کسی جگہ زبان کا ایشو نہیں ہوا، یہ اسپینش سے پنجابی اور پنجابی سے براہ راست اسپینش میں ترجمہ کر دیتے تھے۔
یہ جب لارج کو وڈا اور ایکسٹرا لارج کو"بوہتا وڈا" کہتے تھے تو میری ہنسی نکل جاتی تھی، سہیل بھائی شان دار کمپنی ہیں، یہ جہاں دیدہ بھی ہیں، سمجھ دار بھی اور ڈسپلنڈ بھی، انھیں اٹھانا اور جگانا نہیں پڑتا، دوسرا قدرت نے انھیں بے انتہا انرجی دے رکھی ہے، یہ 24 گھنٹے بغیر کھائے پیے چل سکتے ہیں اور ان کی زبان پر شکوہ تک نہیں ہوتا، سیکھنے کا بھی شوق ہے، یہ پوچھتے اور سوال کرتے ہوئے شرماتے نہیں ہیں، میں محسوس کر رہا تھا یہ کاروبار کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ سیریس ہوتے جا رہے ہیں لیکن اس دن آب شاروں سے واپسی پر میں نے انھیں کھل کر قہقہے لگاتے دیکھا، ان کی ایکسائیٹ منٹ دیکھنے کے لائق تھی۔
ہم واپسی پر بری طرح بھیگ چکے تھے، ہم نے لاکرز سے سامان لیا، کپڑے تبدیل کیے اور ہمارا سفاری جیپوں پر واپسی کا سفر شروع ہوگیا، جیپ سے بس اور بس سے واپس ٹرمینل اور ٹرمینل پر ماریو ہمارا انتظار کر رہا تھا، ہم اپنا سامان صبح ہوٹل میں چھوڑ گئے تھے، ہم نے سامان لیا، شوارما لیا اور ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔
رات دس بجے ہماری فلائیٹ تھی اور ہم بارہ بجے بیونس آئرس پہنچ گئے، بیونس آئرس میں دو ائیرپورٹس ہیں، منسٹرو پسٹیرینی انٹرنیشنل ائیرپورٹ اور جارج نیوبیری، منسٹرو پسٹیرینی انٹرنیشنل ہے اور جارج نیوبیری ڈومیسٹک، ہم نے اگواسو کے لیے ڈومیسٹک ائیرپورٹ استعمال کیا تھا۔
بیونس آئرس ہمارا مین اسٹیشن تھا، ہم نے سینٹر میں ہوٹل لے رکھا تھا اور وہاں سے دو دن کے لیے اگواسو اور تین دن کے لیے اشووایا (Ushuaia) گئے، یہ دونوں شہر ایک دوسرے سے مخالف سمت میں ہیں، اگواسو شمال میں برازیل کے بارڈر پر ہے جب کہ اشووایا انتہائی جنوب میں قطب جنوبی (انٹار کٹیکا) کی طرف آخری شہر ہے، یہ آخری انسانی آبادی ہے، اس کے بعد دنیا ختم ہو جاتی ہے، اشووایا برفانی شہر ہے۔
چاروں طرف سے گلیشیئرز میں گھرا ہوا ہے اور وہاں ہر وقت خوف ناک ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہتی ہیں، پہاڑوں میں درجنوں چھوٹی بڑی برفیلی جھیلیں ہیں جب کہ شہر کا ایک کنارہ سمندر کی طرف کھلتا ہے، سمندر بیگل چینل (Beagle Channel) کہلاتاہے اور یہ یخ ٹھنڈا ہے، انٹارکٹیکا کے لیے جہاز اشووایا سے چلتے ہیں، میں اگلے سال کے لیے انٹار کٹیکا کی بکنگ کرانا چاہتا تھا لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا یہ شپس اشووایا سے جاتے ہیں لیکن یہ چلتے امریکا، فرانس اور ناروے سے ہیں اور بکنگ بھی وہیں ہوتی ہے، ہم بہرحال دوسرے دن اشووایاروانہ ہو گئے۔
اشووایا بیونس آئرس سے 3600 کلو میٹر دور ہے، بائی ائیر چار گھنٹے لگتے ہیں، اشووایا میں جب جہاز اتر رہا تھا تونیچے دور دور تک برف اور پانی نظر آ رہا تھا، ائیرپورٹ چھوٹا لیکن صاف ستھرا ہے، ہم باہر نکلے تو برفیلی ہوا کے تھپیڑوں نے استقبال کیا، سردی ناقابل برداشت تھی، ارجنٹائن کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی ٹیکسی ہے، پورے ملک میں ہر جگہ ٹیکسی دستیاب ہے اور یہ یورپ کے مقابلے میں سستی اور قابل بھروسہ بھی ہے، اشووایا ٹیکس فری زون ہے چناں چہ وہاں ٹیکسی، کھانا اور رہائش تینوں سستی ہیں۔
ہم نے پہاڑ پر گلیشیئر کے قریب ہوٹل بک کرا رکھا تھا، اس کے نام میں بھی گلیشیئر آتا تھا، ہمارے پاس دن دو اور منزلیں تین تھیں، شہر کے مضافات میں نیشنل پارک ہے، یہ دنیا کا آخری نیشنل پارک ہے جس میں دنیا کی آخری ٹرین، آخری ہوٹل، آخری ریستوران، آخری واش روم، آخری پوسٹ آفس اور آخری عمارت ہے، ہم نے پہلے دن نیشنل پارک کا چکر لگانا تھا، نیشنل پارک کو ایکسپلور کرنے کے تین طریقے ہیں، آپ ٹرین لے لیں، یہ سفاری ٹرین ہے اور یہ پارک کا ایک چوتھائی حصہ کور کر تی ہے، دوسرا آپ پارک میں ٹریکنگ کریں۔
اس کے لیے کم از کم چھ گھنٹے اور مکمل فٹ نس ضروری ہے اور تیسرا آپ ٹرین بھی لے لیں اور پیدل بھی چل لیں، ہمارے پاس وقت کم تھا لہٰذا ہم نے ٹرین کا فیصلہ کر لیا مگر یہاں ایک اور مسئلہ پیدا ہوگیا، انفارمیشن سینٹر سے معلوم ہوا ٹرین کی تمام سیٹیں بک ہیں اور یہ وزٹ سے کم از کم ہفتہ قبل آن لائین بک کرانا پڑتی ہیں۔
میں مایوس ہوگیا مگر یہاں سہیل مقصود کی کاروباری فراست نے کام دکھایا، ہم ٹیکسی پر بیٹھ کر دنیا کے آخری ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے، ٹرین میں ابھی اڑھائی گھنٹے باقی تھے، ہم نے کافی شاپ میں کافی پی، میں نے ٹرین اسٹیشن کے باہر وی لاگ کیا۔
اور اس دوران سہیل بھائی نے ٹی ٹی کو رام کر لیا اور اس نے کافی کے ایک مگ کے عوض ہمیں دو ٹکٹ دے دیے، نیشنل پارک میں تین ٹرینیں چلتی ہیں، یہ تینوں پندرہ پندرہ منٹ کے وقفے سے چلتی ہیں اور یہ سفاری ہیں، ٹرین 1902میں قیدیوں کے لیے بنائی گئی تھی، اشووایا پچھلی صدی کے شروع میں ارجنٹائن کا سائبیریا تھا یہاں قیدی لائے جاتے تھے اور دنیا کی آخری جیل میں پھینک دیے جاتے تھے، ریلوے کا یہ ٹریک ان کے ذریعے بچھایا گیا تھا۔
جیل 1947 میں بند کر دی گئی جس کے ساتھ ہی ریلوے بھی بند ہوگیا لیکن بعدازاں 1994 میں اسے سیاحوں کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا اور اب پوری دنیا سے لوگ اسے انجوائے کرنے اشووایا آتے ہیں، ہماری ٹرین پونے تین بجے روانہ ہوئی۔