وہ پنجابی کا ایک تھیٹر تھا اور تھیٹر کا ایک سین میرے ذہن، میرے دماغ میں برگد کا درخت بن گیا اور یہ درخت دن رات پھیلتا جا رہا ہے۔
آپ لاہور کی ثقافتی اور سماجی زندگی کو پندرہ سال "ری وائنڈ" کریں تو یہ آپ کو تھیٹروں میں دھنسا پھنسا نظر آئے گا، ان تھیٹروں نے فلم انڈسٹری کے زوال سے جنم لیا تھا، ہماری فلم انڈسٹری کراچی سے لاہور شفٹ ہوئی، پھر اردو سے پنجابی میں آئی، پھر سنتوش، درپن، محمد علی، ندیم، وحید مراد، صبیحہ خانم، نیر سلطانہ، شمیم آراء اور شبنم سے سلطان راہی، مصطفی قریشی، انجمن اور مسرت شاہین پر آئی اور یہ پھر وہاں سے سیدھی تھیٹروں میں آ کر دفن ہوگئی، لاہور کے پنجابی تھیٹروں کا زمانہ فنون لطیفہ کا سیاپا تھا، یہ تھیٹر فحش فقروں، نیم برہنہ ڈانس اور گھٹیا موضوعات کی وجہ سے ثقافتی دلدل بن گئے۔
شریف لوگ اورخاندان دن کے وقت بھی الحمراء آرٹس کونسل کے قریب سے نہیں گزرتے تھے، پنجاب حکومت نے ان پر پابندی لگا دی، عوام کے دم میں دم آیا، یہ تھیٹر انتہائی گھٹیا تھے لیکن اس کے باوجود ان سے سہیل احمد، ببو برال، خالد عباس ڈار اور امان اللہ جیسے عظیم فنکار نکلے، یہ وہ لوگ ہیں جن کا مقابلہ بالی ووڈ سے لے کر ہالی ووڈ تک دنیا کا کوئی مزاحیہ اداکار نہیں کر سکتا، یہ لوگ جب بھی اسٹیج پر آتے تھے، یہ کمال کر دیتے تھے لیکن لچر پن اور فحاشی نے ان لوگوں کو بھی بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
میں واپس موضوع کی طرف آتا ہوں، مجھے طالب علمی کے دور میں لاہور میں ایک تھیٹر دیکھنے کا اتفاق ہوا، میں تھیٹر کا موضوع اور اداکار بھول چکا ہوں لیکن ایک سین ذہن میں برگد کا درخت بن گیا اور یہ درخت دن رات پھیلتا جا رہا ہے، سین کچھ یوں تھا، ایک پاگل اینٹ اٹھا کر اسٹیج پر آتا ہے اور سامنے کھڑے شخص کودھمکی دیتا ہے "میں اس اینٹ سے تمہارا سر کچل دوں گا" ہدف گھبرا کر کہتا ہے "میں تمہارے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہوں، تم مجھے کوئی ایسا کام بتائو جو میں کر دوں ا ور تم مجھے اینٹ نہ مارو" پاگل قہقہہ لگا کر کہتا ہے "چلو ٹھیک ہے، تم مجھے ڈانس کر کے دکھاؤ" ڈیل ہو جاتی ہے۔
سین اب یوں ہے، پاگل اینٹ اٹھا کر کھڑا ہے اور ہدف دیوانہ وار ناچ رہا ہے، ہدف ڈانس مکمل ہونے کے بعد پاگل سے پوچھتا ہے " کیا تمہیں ڈانس پسند آیا" پاگل قہقہہ لگا کر جواب دیتا ہے " ہاں ڈانس بہت ا چھا تھا لیکن تمہیں اس کے باوجود اینٹ کھانی پڑے گی" ہدف گھبرا کر کہتا ہے " تم مجھ سے کوئی اور خدمت لے لو" پاگل اسے مسرت شاہین کی طرح ڈانس کا حکم دیتا ہے، ہدف نے ایسا کر دیا۔ پاگل خوشی سے چھلانگیں لگاتا ہے، ہدف اطمینان کا سانس لیتا ہے اور پوچھتا ہے "کیا تم نے میری جان بخش دی" پاگل خوشی سے تالیاں بجاتا ہے۔
ڈانس کی تعریف کرتا ہے اور آخر میں کہتا ہے " لیکن تمہیں اینٹ تو کھانی ہی پڑے گی" ہدف اگلا ٹارگٹ پوچھتا ہے، پاگل اسے مینڈک ڈانس کا حکم دیتا ہے اور ہدف اسٹیج پر مینڈک کی طرح پھدکنا شروع کر دیتا ہے، پاگل کو یہ ڈانس بھی پسند آ تا ہے لیکن وہ تالیاں بجانے کے باوجود اعلان کرتا ہے " اینٹ تمہیں بہرحال کھانی پڑے گی" اور اس کے بعد فرمائشوں اور اینٹ مارنے کی دھمکیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ہدف تھک جاتا ہے، وہ دوڑ کر پاگل کے ہاتھ سے اینٹ چھینتا ہے اور خود ہی اپنے سر پر مارنا شروع کر دیتا ہے۔
یہ سین صرف تھیٹر کا ایک سین نہیں، یہ ہمارے معاشرے کا نفسیاتی المیہ بھی ہے، ہم لوگ صرف شک، خیال اور خواب کی بنیاد پر دوسروں پر بڑے سے بڑے الزام لگا دیتے ہیں اور دوسرا خواہ الزام کی اینٹ سے بچنے کے لیے مسرت شاہین بن جائے، اینٹ اس کے سر پر لہراتی رہتی ہے، وہ اینٹ سے بچ نہیں سکتا، ہم ایک دلچسپ ملک میں رہ رہے ہیں، ہمارے ملک میں آپ کسی بھی شخص کو امریکی، روسی، برطانوی، بھارتی اور یہودی ایجنٹ قرار دے دیں۔
وہ شخص صفائی کے لیے خواہ قرآن مجید سر پر اٹھا لے یا غلاف کعبہ تھام کر اپنے بے گناہ ہونے کا اعلان کرے مگر معاشرہ جاسوسی کی اینٹ نیچے رکھنے کے لیے تیار نہیں ہو گا، آپ اس ملک میں کسی بھی شخص کو قادیانی، کافر، مرتد، غدار اور توہین رسالت کا مرتکب بھی قرار دے سکتے ہیں اور لوگ صرف الزام پر اس شخص کو سڑک پر لٹا کر قتل کر دیں گے، نعش کو موٹر سائیکل کے پیچھے باندھ کر گھسیٹیں گے یا پھر بھٹے میں ڈال کر جلا دیں گے اور ملک کا کوئی ادارہ اس شخص کی حفاظت نہیں کرسکے گا۔
وہ شخص خواہ کلمہ پڑھ کر، قرآن مجید سینے پر رکھ کر، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کا واسطہ دے کر اپنے ایمان کی گواہی دے لیکن شک اور الزام کی اینٹ بہرحال اس کے سر پر گر کر رہے گی اور اس ملک میں کوئی بھی شخص کسی بھی وقت کسی بھی شخص کو بے ایمان اور بکائو بھی قرار دے سکتا ہے اور وہ شخص اپنے سر میں اینٹ مارنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ ملک کا کوئی ادارہ الزام لگانے والے کو بلائے گا اور نہ ہی ملزم کو ریلیف دے گا، ہمارے ملک میں ایسا کیوں ہوتا ہے اور ریاست اس پر خاموش کیوں رہتی ہے؟ عوام کو آج تک اس کیوں کا کوئی جواب نہیں ملا!۔
پاکستان تحریک انصاف نے 16 نومبر 2014ء کو جہلم میں بھی شاندار جلسہ کیا، عمران خان نے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے انکشاف کیا " نواز شریف نے دھرنا ناکام بنانے کے لیے آئی بی کو 270 کروڑ روپے دیے" عمران خان نے یہ الزام بھی لگایا " حکومت نے صحافیوں، کالم نگاروں، تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز کا ضمیر خریدنے کی کوشش کی" عمران خان ملک کے بڑے سیاستدان ہیں، عمران خان کی جماعت 2013ء کے الیکشن میں ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھری، اس نے 76 لاکھ، 79 ہزار 9 سوچون ووٹ بھی حاصل کیے۔
عمران خان پچھلے تین ماہ سے میڈیا کی ہیڈ لائینز کا مسلسل حصہ ہیں، یہ لمحہ موجود میں پاپولیرٹی کی انتہا کو چھو رہے ہیں، ملک میں اگر آج الیکشن ہو جائیں تو عمران خان نہ صرف بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے بلکہ وزیر اعظم بھی بن جائیں گے، عمران خان کا دھرنا بھی کامیاب ہو سکتا تھا لیکن ان سے چند غلطیاں ہو گئیں، ان غلطیوں میں سے ایک غلطی 28 اگست2014ء کی رات آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات بھی تھی، فوجی حکام عمران خان کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے مگر اس ملاقات نے اس رائے کو شدید دھچکا پہنچایا، فوج نیوٹرل ہوگئی۔
آپ کو اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو آپ واقعات کو "ری وائنڈ" کرکے دیکھ لیں، آپ کو 28اگست تک حالات ایک رخ پر جاتے ہوئے نظر آئیں گے اور آپ 28 اگست کو عمران خان کی آرمی چیف سے ملاقات کے بعد حالات کو دوسرے رخ پر مڑتے دیکھیں گے، کیوں؟ آپ خود سمجھ دار ہیں، آپ خود سمجھ جائیے مگر میں اس کے باوجود عمران خان کو ملک کا بڑا لیڈر بھی سمجھتا ہوں اور ان کے الزامات کو سنجیدہ ترین بھی۔ ریاستی اداروں کو ان الزامات کا فوراً نوٹس لینا چاہیے، سپریم کورٹ ملک کا مقتدر ترین ادارہ ہے۔
عمران خان کو چیف جسٹس ناصر الملک (تادم تحریر) پر اعتماد بھی ہے چنانچہ سپریم کورٹ کو عمران خان، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور آبی بی کے چیف آفتاب سلطان کو عدالت میں طلب کرنا چاہیے، عمران خان کے الزام کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور حکومت نے اگر واقعی آئی بی کو دھرنے کے خاتمے کے لیے 270 کروڑ روپے دیے ہیں تو سپریم کورٹ کو حکومت کے خلاف ایکشن لینا چاہیے اور اس ایکشن کے نتیجے میں میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہونی چاہیے، دو، چیف جسٹس عمران خان سے ان صحافیوں، کالم نگاروں، تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز کے نام بھی حاصل کریں۔
حکومت نے جن کو خرید لیا یا خریدنے کی کوشش کی، سپریم کورٹ کو تحقیقات کے بعد تمام مجرم صحافیوں کو جیلوں میں بھی پھینک دینا چاہیے اور ان پر تامرگ صحافت کرنے پر پابندی بھی لگا دینی چاہیے، میری سپریم کورٹ سے درخواست ہے آپ صحافیوں اور آئی بی دونوں پر لگنے والے الزامات کے لیے جے آئی ٹی بھی بنائیں اور اس جے آئی ٹی کے لیے تمام ممبرز خیبر پختونخواہ سے لیے جائیں کیونکہ آپ کی بنائی جے آئی ٹی میں اگر دوسرے صوبوں کا کوئی رکن نکل آیا تو موجودہ چیف جسٹس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو جنرل کیانی، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے ساتھ ہوا تھا۔
آپ بھی اینٹ کا ہدف بن جائیں گے اور جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے یہ خواہ پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ اور عمران خان کو چیف جسٹس مان لے تب بھی اینٹ بہرحال اسے کھانی ہی پڑے گی کیونکہ آج کے نئے پاکستان میں عمران خان سے اختلاف کرنے والا ہر شخص اینٹ، گالی اور دھمکی کے قابل ہے، وہ یہ سزا بہرحال بھگتے گا۔