Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Free Hand

    Free Hand

    آپ پاکستان کے کسی بھی شہر میں رہتے ہوں، آپ کا تعلق خواہ کراچی، حیدر آباد، سکھر، لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، راولپنڈی، اسلام آباد، بنوں، پشاور یا پھر کوئٹہ، ژوب اور زیارت سے ہو یا پھر آپ ملک کے کسی چھوٹے شہر میں رہائش پذیر ہوں، آپ کو اپنے شہر میں درجنوں کچی آبادیاں ملیں گی، آپ اگر گھرسے نکلیں توآپ کو سڑک کے دونوں اطراف سیکڑوں ناجائز تجاوزات بھی ملیں گی، آپ یقینا جانتے ہیں دنیا میں سڑک کی دونوں سائیڈوں پر سو فٹ تک زمین خالی رکھی جاتی ہے۔

    اس سو فٹ میں تعمیرات کی اجازت نہیں ہوتی، کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ ایکسیڈنٹ ہے، دنیا کی تمام گاڑیاں جب سلپ ہوتی ہیں تو یہ سڑک سے پچاس ساٹھ فٹ باہر نکلتی ہیں چنانچہ اگر سڑک پر گھر یادکانیں ہوں گی تو گاڑیاں سیدھی اندر گھس جائیں گی اور یوں جانی اور مالی نقصان ہو گا، دو، دنیا کے تمام ممالک میں پانچ سال بعد سڑکیں کھلی کی جاتی ہیں، آپ خود سوچئے اگر سڑکوں کی سائیڈز پر مکان اور دکانیں ہوں گی اور آپ سڑک کو کھلا کرنا چاہیں گے تو کیا یہ ممکن ہو گا چنانچہ حکومتیں سڑکوں کی سائیڈز دو تین سو فٹ تک خالی رکھتی ہیں لیکن آپ کو پاکستان کی تمام سڑکوں کی دونوں سائیڈز پر مکان اور دکانیں ملیں گی، یہ مکان اور دکانیں ناجائز تجاوزات ہیں۔

    آپ کو اپنے بازاروں میں بھی سیکڑوں ہزاروں ناجائز تجاوزات ملیں گی، بازار کا ہر دکاندار برآمدے، فٹ پاتھ، گلی اور آدھی سڑک پر قابض ہو جاتا ہے اور ٹریفک اور شہریوں کی نقل و حمل مشکل بنا دیتا ہے، کچی آبادی سے لے کر فٹ پاتھ کے قابضین تک یہ تمام لوگ قانون شکن ہیں، یہ سرکاری املاک پر قابض ہیں، سوال یہ ہے کیا ریاست ان لاکھوں کروڑوں قابضین، قانون شکنوں اور شہری زندگی کو متاثر کرنے والوں کے وجود سے ناواقف ہے؟ جی نہیں! ریاست نہ صرف ان کے وجود سے پوری طرح واقف ہے بلکہ یہ انھیں بجلی کے میٹر، سوئی گیس کے کنکشن اور پوسٹل ایڈریس بھی فراہم کرتی ہے، اب سوال یہ ہے ریاست ان لوگوں سے قبضہ کیوں نہیں چھڑاتی؟ یہ کچی آبادیوں، فٹ پاتھوں اور سڑکوں سے ان قابضین کو کیوں نہیں اٹھاتی، اس کی وجہ بہت دلچسپ ہے اور یہ وجہ ہماری سماجی اور ریاستی خرابی کی بنیادی جڑ ہے، یہ قابضین دراصل حکومت کے خلاف جلوس نکال سکتے ہیں۔

    یہ مظاہرہ کر سکتے ہیں اور یہ پہیہ جام کر سکتے ہیں، حکومت جس دن تجاوزات ہٹانے کی کوشش کرتی ہے، یہ قابضین جمع ہوتے ہیں، تین پرانے ٹائر لیتے ہیں، سڑک پر رکھتے ہیں، انھیں آگ لگاتے ہیں، دس پندرہ بیس لوگ سڑک پر کھڑے کرتے ہیں، حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہیں، میلوں دور تک ٹریفک بلاک ہو جاتی ہے، بات میڈیا تک پہنچتی ہے، بریکنگ نیوز بنتی ہے، حکومت اور سپریم کورٹ نوٹس لیتی ہے اور پھر ریاست قابضین سے معافی مانگتی ہے، ان کے نقصان کا ازالہ کرتی ہے۔

    ان کے ناجائز حقوق کو مالکانہ حقوق مانتی ہے اور ریاست کی رٹ اسٹیبلش کرنے والے افسروں کو معطل بھی کردیتی ہے، کچی آبادی کے معاملے میں بھی یہی ہو گا، کے ڈی اے، سی ڈی اے یا ایل ڈی اے کا عملہ کچی آبادی گرانے کے لیے جائے گا، لوگ، خواتین اور بچے ہاتھوں میں پتھر اٹھا کر سڑک پر آئیں گے، ٹریفک بلاک کریں گے، میڈیا آئے گا، خواتین اور بچے کیمروں کے سامنے سینہ کوبی کریں گے اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نوٹس لینے پر مجبور ہو جائیں گے، افسر معطل ہو جائیں گے، مشینری واپس جائے گی اور یوں ناجائز قبضہ جائز ہو جائے گا۔

    آپ اس کے برعکس ملک میں جائز اور قانونی کاروبار شروع کریں، آپ کروڑوں اربوں روپے کی زمین خریدیں، بینکوں سے بھاری سود پر قرضہ حاصل کریں، کمپنی رجسٹر کرائیں، لوگ بھرتی کریں اور ٹیکس ادا کریں، آپ کو جگہ جگہ مسائل کے دریاؤں کا سامنا ہو گا، ریاست کے درجنوں ادارے منہ کھول کر آپ پر پل پڑیں گے، آپ نقشے پاس کرانے جائیں گے تو سی ڈی اے، کے ڈی اے اور ایل ڈی اے کے ملازمین مشینری لے کر آپ کے دفتر، آپ کی فیکٹری آ جائیں گے اور آپ کی عمارت گرانا شروع کر دیں گے، آپ کو بجلی، گیس اور پانی کے کنکشن کے لیے خوار ہونا پڑے گا، آپ اپنے ورکروں کے ہاتھوں باقاعدہ ذلیل ہوں گے، آپ امپورٹ سے لے کر ایکسپورٹ تک درجنوں دلدلوں سے گزریں گے۔

    آپ کے ملازمین آپ کا تیار مال، آپ کی رقم لے کر بھاگ جائیں گے اور پولیس ایف آئی آر تک نہیں کاٹے گی، آپ کی بجلی، آپ کی گیس اچانک کاٹ دی جائے گی، آپ کو اپنی جیب سے سڑک نہیں بنانے دی جائے گی، آپ خیراتی اسکول یا یتیم خانہ بنائیں گے تو قانون آپ کے خلاف متحرک ہو جائے گا، آپ اپنے گارڈز رکھیں گے مگر ریاست آپ کو جائز اسلحے کے جائز لائسنس جاری نہیں کرے گی اور آپ احتجاج کریں گے تو آپ کے خلاف پرچہ کٹ جائے گا اور آپ تھانوں اور عدالتوں میں دھکے کھائیں گے، آپ کے ساتھ یہ سلوک کیوں ہو گا؟ آپ کے ساتھ یہ سلوک اس لیے ہو گا کہ آپ ملک میں جائز کام کر رہے ہیں اور ریاست اور حکومت یہ جانتی ہے جائز کام کرنے والے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے چنانچہ یہ آپ کو رگڑ کر رکھ دے گی۔

    ہم ایک دلچسپ ملک میں رہ رہے ہیں، ایک ایسے ملک میں جس میں آپ ریاست اور حکومت کو جتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں، آپ جتنے بڑے قانون شکن، جتنے بڑے قبضہ گروپ اور جتنے بڑے ظالم ہیں آپ اس ملک میں اتنے ہی محفوظ ہیں اور آپ ملک کو جتنا فائدہ پہنچا سکتے ہیں، آپ جس قدر قانون پسند، امن پسند اور انصاف پسند ہیں، آپ نظام پر جتنا زیادہ یقین رکھتے ہیں، آپ قانون کا جتنا احترام کرتے ہیں اور آپ جتنے عاجز اور منکسرالمزاج ہیں، آپ ملک میں اتنے ہی غیر محفوظ، اتنے ہی کمزور سمجھے جاتے ہیں، مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے، یہ ملک روڈ بلاک کرنے اور ٹائر جلانے والوں کے لیے بنا تھا، یہ قبضہ گروپوں، مافیاز اور جرائم پیشہ لوگوں کے لیے معرض وجود میں آیا ہے۔

    آپ خواہ ملک توڑ دیں، آپ خواہ پورا ملک بند کر دیں، آپ خواہ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے 120 دن دھرنا دے کر بیٹھ جائیں، آپ خواہ عوام کو گھیرو، مارو، توڑو، جلاؤ اور تباہ کردو کا پیغام دے دیں، آپ خواہ ملک کا سارا جائز کاروبار بند کرا دیں، آپ خواہ ٹریفک روک دیں، سڑکوں پر ٹائر جلائیں، اسپتالوں، اسکولوں اور دفتروں کو جانے والے راستے بند کر کے بیٹھ جائیں، آپ خواہ امتحانات منسوخ کرا دیں، فلائیٹس رکوا دیں، ایمبولینس کو راستہ نہ دیں، آپ خواہ ٹرینیں روک لیں، میٹرو بسوں پر حملے کر دیں، آپ خواہ پارلیمنٹ ہاؤس پرقابض ہو جائیں، پی ٹی وی کو فتح کر لیں، سپریم کورٹ کی باؤنڈری وال پر شلواریں لٹکا دیں اور آپ خواہ پورا ملک مفلوج کرنے کا اعلان کر دیں۔

    آپ کو روکنا تو دور ریاست آپ کی حفاظت پر ایک ارب روپے خرچ کر دے گی، یہ آپ کو فائیو اسٹار سیکیورٹی فراہم کرے گی، کیوں؟ کیونکہ آپ حکومت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اورملک کا جو گروپ، جو جماعت حکومت کو جتنا زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے، ریاست اس جماعت، اس گروپ کواتنا ہی فری ہینڈ، اتنا ہی پروٹوکول، اتنی ہی سیکیورٹی دے گی، میری میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے درخواست ہے آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں، ملک میں ہاؤسنگ کے سیکٹر سے وابستہ وہ لوگ جو 60 بڑی صنعتیں چلا رہے ہیں یہ پرامن مظاہرہ کرنا چاہیں، یہ ملک کی کسی اسمبلی کے سامنے اکٹھا ہونا چاہیں، ملک میں ٹیکسٹائل انڈسٹری سے وابستہ تاجر، صنعت کار اور سرمایہ کار، تعلیم کے شعبے سے وابستہ ماہرین، ادویات بنانے والے صنعت کار، ملک کے ٹرانسپورٹر یا پھر ملک میں بجلی بنانے والے نجی ادارے اپنے جائز حقوق کے لیے مظاہرہ کرنا چاہیں تو کیا آپ انھیں اسمبلیوں کے سامنے جمع ہونے دیں گے؟

    کیا آپ انھیں کوئی سڑک بلاک کرنے دیں گے؟ کیا آپ ان سے مذاکرات کریں گے؟ اس کا جواب ناں ہو گا! کیوں؟ کیونکہ یہ وہ ریاست ہے جو لاہور میں اندھوں پر پوری طاقت استعمال کرتی ہے لیکن عمران خان اور ان کے ورکروں کو فری ہینڈ دے دیتی ہے، کیوں؟ کیونکہ اندھے حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جب کہ عمران خان حکومت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور ہماری ریاست نقصان پہنچانے والوں کو عزت اور فائدہ پہنچانے والوں کو بے عزتی کے قابل سمجھتی ہے، تاجر کیونکہ جائز کام کر رہے ہیں، یہ ٹیکس اور روزگار فراہم کر رہے ہیں۔

    چنانچہ انھیں کوئی بھی شخص مار جائے، کوئی بھی ان کی دکانیں فیکٹریاں بند کرا دے اور کوئی ان کی املاک کو آگ لگا دے، ریاست ان کی مدد نہیں کرے گی جب کہ دھرنے والے قانون توڑ رہے ہیں، یہ ریاست کا سرے عام منہ چڑا رہے ہیں لہٰذا ریاست انھیں آج بھی فری ہینڈ دے رہی ہے اورکل بھی انھیں فری ہینڈ دے گی، یہ آج بھی ان کی مدد کر رہی ہے اور کل بھی یہ ان کی مدد کرے گی اور یہ ہیں ہم اور ہماری ریاست یعنی جو نقصان پہنچاسکے اس کوفری ہینڈ دیں اور جو فائدہ پہنچائے اسے ٹف ہینڈ، واہ! سبحان اللہ۔

    About Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.