Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. General Bajwa Se Taweel Mulaqaat

General Bajwa Se Taweel Mulaqaat

جنرل قمر جاوید باجوہ فوج میں 42 سال گزار کر ریٹائر ہو چکے ہیں، یہ مسلسل چھ سال آرمی چیف رہے، ان کا دور اچھا تھا یا برا، اس کا پاکستان اور فوج کو فائدہ ہوا یا نقصان یہ فیصلہ آنے والا وقت کرے گا تاہم یہ حقیقت ہے ان کے چھ سال بہت ہنگامہ خیز تھے۔

ان کے دور میں بین الاقوامی تبدیلیاں بھی آئیں اور ملک بھی سیاسی، معاشرتی اور معاشی اتار چڑھاؤ کا شکار رہا چناں چہ مستقبل کی سیاسی اور عسکری دونوں قیادتوں کوچین، بھارت، افغانستان، امریکا، یو اے ای، سعودی عرب اور روس سے ڈیل کرنے کے لیے بار بار جنرل باجوہ سے مشورے کی ضرورت رہے گی کیوں کہ ان تمام ملکوں کے ساتھ تعلقات میں جنرل صاحب نے کام بھی کیا اور ان کی قیادت سے ذاتی تعلقات بھی استوار کیے۔

مجھے 22 دسمبر کو جنرل باجوہ کے ساتھ چھ گھنٹے گزارنے کا موقع ملا، یہ اپنے ذاتی گھر میں شفٹ ہو چکے ہیں، ان کا گھر ان کی بیگم نے خود بنوایا، یہ درمیانے سائز کا صاف ستھرا گھر ہے، بیگم صاحبہ کو صفائی اور انٹیریئر ڈیکوریشن کا شوق ہے، یہ زندگی بھر مختلف جگہوں سے پرانی لیکن سستی چیزیں (Antiques) خریدتی رہیں، انھوں نے یہ چیزیں بڑے خوب صورت طریقے سے گھر میں سجا رکھی ہیں، گھر میں بے تحاشا صفائی ہے۔

مجھے صفائی کا یہ معیار بہت کم گھروں میں دیکھنے کا اتفاق ہوا، بیگم صاحبہ بہت سادہ، مہمان نواز اور عاجز ہیں، جنرل صاحب ان کے عشق میں مبتلا ہیں، یہ اپنی ہر گفتگو، اپنی ہر محفل میں اپنی بیگم کا ذکر ضرور کرتے ہیں، ایک بار سابق وزیراعظم عمران خان نے خاتون اول بشریٰ بیگم کے حوالے سے انھیں بتایا، کسی نے آپ پر جادو کر رکھا ہے، جنرل صاحب نے ہنس کر جواب دیا، یہ بات سچ ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں مجھ پر کس نے جادو کیا ہے؟ عمران خان نے پوچھا، کس نے؟

جنرل صاحب کا جواب تھا مجھ پر میری بیگم نے جادو کر رکھا ہے، ان کی شادی کو 34 سال ہو چکے ہیں، ان کا اے سی کا ٹمپریچر کم اور زیادہ کرنے پر روزانہ جھگڑا ہوتا ہے لیکن بیگم صاحبہ نے جنرل صاحب کی حیاء اور کردار پر ایک بار بھی شک نہیں کیا، یہ پوری زندگی سامنے موجود خاتون کو بہن، بیٹی اور ماں کہتے اور سمجھتے رہے اور بیگم صاحبہ ان کے اس رویے کی معترف ہیں، ان کے دونوں بیٹے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، بیگم صاحبہ کو والد کی طرف سے جو کچھ ملا وہ انھوں نے بیٹوں کی تعلیم پر خرچ کر دیا، ان کے ایک سمدھی صابر مٹھو لاہور میں پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ہیں، یہ امیر ہیں لیکن زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔

لوگوں کو یہ رشتہ بے جوڑ محسوس ہوتا تھا لیکن اصل حقیقت یہ ہے صابر مٹھو خود زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں مگر انھوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی، جنرل صاحب کی بہو ماہ نور برکلے (Berkeley) کی گریجویٹ ہیں اور یہ وہ ادارہ ہے جس میں ذوالفقار علی بھٹو پڑھتے رہے، اس رشتے کی ابتدائی بات چیت اس وقت شروع ہوئی تھی جب جنرل قمر جاوید باجوہ میجر جنرل تھے اور اس وقت دور دور تک ان کے آرمی چیف بننے کا کوئی امکان نہیں تھا، ماہ نور صابر ابتدائی بات چیت کے بعد تعلیم کے لیے باہر چلی گئیں، یہ واپس آئیں تو شادی ہوگئی۔

جنرل باجوہ اپنے اثاثوں سے متعلق خبر پر دکھی ہیں، یہ جانتے ہیں ایف بی آر کے اہلکاروں نے 20 لاکھ روپے لے کر 50 لوگوں کا ڈیٹا لیک کیا اور رپورٹر نے صابر مٹھو کے اثاثے ان کے کھاتے میں ڈال کر انھیں بدنام کر دیا، یہ اب اپنے اثاثوں کا فارنزک آڈٹ کرا رہے ہیں، 1980 سے جب ان کی تنخواہ ساڑھے 14 سو روپے تھی اور یہ جب 29 نومبر 2022 کو ریٹائر ہوئے، یہ اپنے 42 سال کے ایک ایک پیسے کا حساب دیں گے اور پھر فارنزک رپورٹ پبلک کر دیں گے، یہ اپنے والد اور اپنی والدہ سے عقیدت کی حد تک محبت کرتے ہیں۔

ان کے والد محمد اقبال باجوہ فوج میں کرنل تھے، وہ 1967میں کوئٹہ میں اپنے دفتر میں ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گئے، جنرل صاحب اس وقت سات سال کے بچے تھے، ان کی والدہ نے اپنے پانچ بچوں کی پرورش بڑی توجہ اور محنت سے کی، جنرل صاحب نے اپنے والد کی آخری دن کی یونیفارم فریم کرا کر اپنی اسٹڈی میں لگا رکھی ہے جب کہ والدہ کا دیا ہوا پنج سورۃ پوری زندگی ان کی جیب میں رہا، گھر میں جگہ جگہ والد اور والدہ کی تصویریں لگی ہیں، یہ اپنے سسر جنرل اعجاز امجد کا بھی بڑی محبت سے ذکر کرتے ہیں۔

یہ چائے بہت اچھی پیتے ہیں، کپ میں کیک رس ڈبو کر کھاتے ہیں اور اپنی اس سادگی کو انجوائے کرتے ہیں، یہ ہنس کر بتاتے ہیں میاں نواز شریف کا ایک خان ساماں چائے بہت اچھی بناتا تھا، وہ میاں صاحب کے ساتھ چلا گیا، اس کے بعد وزیراعظم ہاؤس کی چائے اچھی نہیں رہی، جنرل صاحب کے پاس کتابوں اور یادوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے، انھیں تاریخیں یاد نہیں رہتیں لیکن واقعات تمام تر جزئیات کے ساتھ یاد ہیں۔

جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ کے درمیان اختلافات کا تاثر عام ہے جب کہ اصل صورت حال مختلف ہے، جنرل فیض حمید ریٹائرمنٹ کے بعد ان سے ملاقات کے لیے بھی آئے اور دونوں اب مل کر ویلفیئر کا کوئی پروجیکٹ بھی بنا رہے ہیں، ملک محمد احمد خان ان کے سمدھی صابر مٹھو کے دوست ہیں اور ان کے ذریعے ان سے ان کا رابطہ رہا لیکن ان ملاقاتوں کے دوران کبھی ملک محمد احمد خان نے عمران خان کے خلاف بات کی اور نہ جنرل صاحب نے انھیں کرنے دی۔

محمد زبیر جنرل باجوہ کے ماموں زاد انجم وڑائچ کے دوست اور کلاس فیلو ہیں، یہ انجم وڑائچ کے ریفرنس سے انھیں ملتے تھے، علیم خان کے سسر راجہ محمد صابر(مرحوم) ان کے سسر جنرل اعجاز امجد کے دوست تھے اور اس تعلق سے ان کی علیم خان سے تین ملاقاتیں ہوئیں، جہانگیر ترین عمران خان کو لے کر پہلی بار ان کے گھر آئے تھے، یہ عمران خان کی چند خوبیوں کے آج بھی معترف ہیں تاہم یہ بار بار ذکر کرتے ہیں نواز شریف نے انھیں ہمیشہ عزت دی۔

ان کی میاں نواز شریف سے 2017کے بعد صرف ایک بار ٹیلی فون پر بات ہوئی اور وہ بھی انھوں نے بیگم کلثوم کے انتقال پر تعزیت کے لیے میاں صاحب کو فون کیا تھا، یہ عمران خان کی کابینہ کے چند وزراء کی کارکردگی اور محنت کی تعریف کرتے ہیں بالخصوص یہ حفیظ شیخ کی اپروچ کو یاد کرتے ہیں، فروغ نسیم کی بھی تعریف کرتے ہیں، عثمان بزدار اور شہزاد اکبر کو عمران خان کی ناکامی کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں، یہ دنیا سے ساڑھے تیرہ ارب ڈالر پاکستان لے کر آئے تھے۔

فیٹف، ریکوڈک اور افغانستان، چین، سعودی عرب، یو اے ای، قطر اور امریکا کے ساتھ سفارت کاری ان کے اہم کام ہیں، مجھے محسوس ہوا فوج کو نیوٹرل کرنا اور سیاست سے باہر لانا ان کا مشکل ترین کام تھا اور یہ اسے درست اپروچ بھی سمجھتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں ملک صرف جمہوریت، معاشی استحکام اور ڈائیلاگ سے چل سکتا ہے، یہ سمجھتے ہیں سیاست دانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہیے تاکہ فوج سیکیورٹی پر توجہ دے سکے۔

سیاست فوج کا کام نہیں اور یہ جب بھی سیاست میں آئی ملک کو نقصان ہوا، یہ سمجھتے ہیں فوج کو سیاست سے باہر لا کر انھوں نے اپنی قربانی دے دی لیکن فوج کو بچا لیا، ان کے لیے بہت آسان تھا یہ عمران خان کو سپورٹ کرتے رہتے، اپنی مدت پوری کرتے اور عمران خان سے اپنے حق میں الوداعی تقریر کروا کر رخصت ہو جاتے لیکن یہ ملک اور جمہوریت کے لیے خطرناک تھا چناں چہ انھوں نے اپنی قربانی دے دی۔

مجھے محسوس ہوا یہ ایکسٹینشن کو اپنی بڑی غلطی سمجھتے ہیں اور اس پر انھیں بہت افسوس ہے مگر یہ سچ ہے عمران خان نے ان کو اعتماد میں لیے بغیر یہ فیصلہ کیا تھاتاہم انھیں انکار کر دینا چاہیے تھا لیکن افغانستان، بھارت اور داخلی معاملات اس وقت تک اتنے الجھ چکے تھے کہ یہ مجبور ہو گئے مگر یہ اس مجبوری کے باوجود اسے اپنی غلطی سمجھتے ہیں، یہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان میں رہیں گے، یہ کسی دوسرے ملک میں عارضی یا مستقل رہائش اختیار نہیں کریں گے۔

مجھے محسوس ہوا یہ میر صادق اور میر جعفر کے خطاب، غداری کے ٹائٹل اور سازش کے بیانیے پر اداس ہیں، یہ جو کچھ جانتے ہیں یہ اگر اس کا پانچ فیصد بھی بیان کر دیں تو ان کے مخالفوں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی لیکن یہ جواب نہیں دینا چاہتے، یہ اپنے ٹوئن پوتوں کے ساتھ ریٹائر زندگی انجوائے کرنا چاہتے ہیں، یہ اپنا کیس اللہ پر چھوڑ چکے ہیں تاہم یہ سمجھتے ہیں ان سے اور فوج دونوں سے ماضی میں بہت غلطیاں ہوئیں، ہم نے ان غلطیوں سے سیکھا اور ہمیں اب یہ غلطیاں دہرانی نہیں چاہییں۔

یہ جنرل فیض حمید کی ان تھک محنت کا بھی اعتراف کرتے ہیں، یہ بتاتے ہیں یہ شخص اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتا تھا اور اس کی ملک کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں، یہ جنرل عاصم منیر کی ایمان داری، پروفیشنل ازم اور ملک سے محبت کے بھی معترف ہیں، ان کا خیال ہے جنرل عاصم عربی زبان جانتے ہیں، گلف کے تمام معاملات کواچھی طرح سمجھتے ہیں، ان کے شاہی خاندانوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔

یہ ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی ایس آئی رہے ہیں، مکمل سولجر ہیں اور ہر قسم کا پریشر برداشت کر لیتے ہیں لہٰذا یہ فوج اور اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے آسانی سے نبٹ لیں گے تاہم ان کو خدشہ ہے کہیں ان کی طرح نئے آرمی چیف کے خلاف بھی ٹرولنگ نہ شروع ہو جائے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو یہ ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا، یہ گرینڈ ڈائیلاگ اور جمہوریت دونوں کے حامی بھی ہیں اور کھلے دل سے اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں لیکن اتنے احسانات کے بعد انھیں عمران خان سے اس رویے کی ہرگز توقع نہیں تھی۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.