حدیبیہ مکہ مکرمہ سے 12 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گائوں تھا، یہ گائوں ایک کنوئیں کے گرد آباد تھا، یہ کنواں حدیبیہ کہلاتا تھا اور یہ گائوں بھی اس کنوئیں کی مناسبت سے حدیبیہ ہو گیا، حدیبیہ ایک گمنام گائوں تھا اور یہ گائوں شاید آج تک دنیا کے کروڑوں دیہات کی طرح گم نام رہتا مگر 1385 سال قبل ہمارے رسول ؐ کی نعلین شریفین نے اس گائوں کی زمین کو چھولیا اور صرف ایک لمس کے صدقے یہ گائوں دنیا کے سب سے بڑے سفارتی اصول کا قبلہ بن گیا اور آج دنیا کے کسی بھی کونے میں دو متحارب فریقین کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے تو وہ نسل، مذہب، زبان اور فرقے سے بالاتر ہو کر اس معاہدے کو "حدیبیہ اکارڈ" قرار دے دیتے ہیں، 1385 سال قبل ہونے والا یہ معاہدہ محض معاہدہ نہیں تھا، یہ دنیا میں جدید سفارت کاری کی بنیاد بھی تھا، یہ معاہدہ دو گروہوں یا دو انسانوں کے درمیان بھی نہیں تھا، یہ معاہدہ اللہ، اس کے رسولؐ اور ان کفار کے درمیان تھا جن کا غرور مٹی میں مل چکا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی انا کا شملہ بلند رکھنا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی انا کو مزید ایک سال کی مہلت دے دی اور اس مہلت نے ثابت کر دیا، آپ اگر کامیابی کے قریب پہنچ چکے ہیں تو آپ کبھی لڑنے کی غلطی نہ کریں، آپ چند قدم پیچھے ہٹ جائیں، آپ کی یہ پسپائی آپ کو دائمی فتح کی طرف لے جائے گی لیکن آپ نے اگر اس کے برعکس فیصلہ کیاتو آپ کے تمام دشمن ایک بار پھر اکٹھے ہو جائیں گے اور ان کا یہ اجتماع آپ کی فتح کو دور لے جائے گا۔
نبی اکرمؐ پندرہ سو صحابہؓ کے ساتھ یکم ذیقعد چھ ہجری کو عمرے کے لیے روانہ ہوئے، قربانی کے ستر اونٹ بھی اس قافلے میں شامل تھے، قافلے نے مدینہ سے نکل کر ذوالحلیفہ نامی گائوں میں احرام باندھ لیے مگر قریش نے اعلان کر دیا، ہم مدنی قافلے کو مکہ کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیں گے، قریش نے مسلمانوں کو روکنے کے لیے پہلے بدیل بن ورقا کو حدیبیہ بھجوایا، وہ قائل ہو کر واپس چلا گیا، قریش نے پھر حلیس بن علقمہ کو بھجوایا، وہ بھی قائل ہوا اور واپس چلا گیا، قریش نے پھر عروہ بن مسعود ثقفی کو بھجوایا، وہ بھی مسلمانوں کے ارادے سے متفق ہو گیا، پھر نبی اکرمؐ نے حضرت عثمانؓ کو اپنا سفیر بنا کر مکہ بھجوایا لیکن قریش اپنی ضد کا جھنڈا سرنگوں کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے، قریش نے آخر میں سہیل بن عمرو کو مسلمانوں سے تفصیلی مذاکرات اور معاہدہ کی ذمے داری سونپ دی، رسول اللہ ﷺ معاہدے کے لیے تیار ہو گئے، معاہدے کے دوران سہیل بن عمرو کا رویہ انتہائی توہین آمیز اور معاہدے کی شرائط مسلمانوں کے وقار سے انتہائی منافی تھیں مگر اللہ کے نبیؐ کی پیشانی پر شکن تک نہ آئی، معاہدے کی شرائط حضرت علیؓ تحریر فرما رہے تھے، حضرت علیؓنے معاہدے کے اوپر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی۔
سہیل بن عمرو فوراً بولا" ہم تمہارے رحمن کو نہیں مانتے، آپ معاہدے کو با سمک اللھم سے شروع کریں گے" رسول اللہ ﷺ نے یہ شرط مان لی، حضرت علیؓ نے تحریر کیا " یہ صلح نامہ جو محمدالر رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن عمرو سے کیا" سہیل بن عمرو تیز آواز میں بولا" ہم اگر محمدؐ کو رسول مانتے تو آپ لوگوں سے کبھی لڑائی نہ کرتے، لکھو جو محمدؐ بن عبداللہ نے سہیل بن عمرو سے کیا" رسول ا للہ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا "آپ رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کاٹ کر محمدؐ بن عبداللہ تحریر کر دیں " حضرت علی ؓ نے عرض کیا " میں یہ گستاخی نہیں کر سکتا" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، آپ اس جگہ انگلی رکھ دو، جہاں میرا نام تحریر ہے" حضرت علیؓ نے اپنی انگشت شہادت اس جگہ رکھ دی، نبی اکرمؐ نے حضرت علیؓ کے ہاتھ سے قلم لیا اور اپنے دست مبارک سے رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کاٹ دیے، اس کے بعد حضرت علیؓ نے محمد بن عبداللہ کے الفاظ تحریر کر دیے، اس کے بعد سہیل بن عمرو نے معاہدے کی آٹھ شرائط لکھوائیں، میں جب بھی یہ شرائط پڑھتا ہوں، میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، یہ شرائط مسلمانوں کے لیے اس قدر توہین آمیز تھیں کہ حضرت عمرؓ جیسے شخص بول پڑے " یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں، کیا ہم مسلمان نہیں ہیں اور کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟ " رسول اللہ ﷺ نے فرمایا" بے شک ہم ہیں لیکن میں کسی بھی طرح اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا"۔ معاہدہ ہو گیا تو نبی اکرمؐ نے رفقاء کے ساتھ نماز ادا کی، قربانی کے اونٹ ذبح کیے، سر کے بال منڈوائے اور خانہ کعبہ کا طواف کیے بغیر احرام کھول دیے اور یوں قافلہ عمرہ کے بغیر مدینہ واپس آ گیا۔
یہ معاہدہ تین لحاظ سے حیران کن تھا، ایک نبی اکرمؐ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کٹوا دیا اور اپنے دست مبارک سے رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کاٹ دیے اور یہ وہ بنیادی اصول تھا جس پر مسلمانوں اور کفار میں جنگ چل رہی تھی، مسلمانوں نے اگر اتنی ہی لچک دکھانی تھی تو یہ لوگ یہ لچک مکہ میں رہ کر بھی دکھا سکتے تھے اور یوں ہجرت اور جنگوں کی ضرورت نہ پڑتی، کوئی مسلمان بسم اللہ الرحمن الرحیم کو کاٹنا اور رسول اللہ ﷺ کے اسم مبارک پر قلم پھیرنے کی جرأت نہیں کر سکتا، حضرت علیؓ نے بھی نبی اکرمؐ کے حکم کے باوجود یہ جسارت نہیں کی، نبی اکرم ؐپھر اس حد تک کیوں چلے گئے؟ یہ منطق آج کے دنیاوی ذہن نہیں سمجھ سکتے۔ دو، آپ سچے بھی ہوں، تگڑے بھی ہوں اور آپ یہ بھی جانتے ہوں، آپ کا دشمن کمزور ہو چکا ہے، یہ شہر سے باہر نکل کر لڑنے کی ہمت نہیں رکھتا لیکن آپ اس کے باوجود ایسی شرائط پر معاہدہ کر لیں کہ آپ کے قریب ترین ساتھی بھی یہ پوچھنے پر مجبور ہو جائیں "کیا آپؐ اللہ کے رسول نہیں ہیں، کیا ہم مسلمان نہیں ہیں اور کیا یہ مشرک نہیں ہیں " نبی اکرم ؐ اپنے صحابہؓ کو اس حد تک کیوں لے گئے؟
اس نقطے کو بھی کوئی عام انسان نہیں سمجھ سکتا اور تین، آپ مشرکین سے معاہدے کی وجہ سے طواف کے بغیر احرام کھول دیں اور حدیبیہ میں جانور ذبحہ کرنے پر مجبور ہو جائیں، نبی اکرمؐ نے اسلام کی اتنی بڑی روایت کیوں توڑ دی؟ یہ منطق بھی آج کا ذہن نہیں سمجھ سکتا لیکن قربان جائیں رسول اللہ ﷺ کی فراست پر کہ یہ معاہدہ صرف ایک سال بعد ایسا ٹرننگ پوانٹ ثابت ہوا جس نے مکہ کو پکے ہوئے پھل کی طرح مسلمانوں کی جھولی میں گرا دیا اور وہ مسلمان جو ایک سال پہلے تک اس معاہدے کو شک کی نظروں سے دیکھ رہے تھے وہ کعبہ کے اندر سے بت اٹھا رہے تھے اور ان بتوں کو کعبہ کی دہلیز پر مار مار کر توڑ رہے تھے اور یوں اس ایک معاہدے نے دنیا کی پوری سفارتی تاریخ بدل دی، اس معاہدے نے دنیا کو بتا دیا، آپ کو اگر بڑی فتح، بڑے امن اور بڑے کاز کے لیے کوئی ایسا معاہدہ بھی کرنا پڑے جس پر آپ کے اپنے ساتھیوں کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں اور وہ آپ کا دامن پکڑ کر یہ پوچھنے پر مجبور ہو جائیں " کیا ہم سچے نہیں ہیں، کیا یہ لوگ ہمارے بچوں کے قاتل اور فسادی نہیں ہیں اور کیا ہم ان سے لڑنے کی ہمت اور استطاعت نہیں رکھتے" تو بھی آپ یہ معاہدہ کر گزریں اور آپ کو اس معاہدے کے لیے خواہ مخالفوں کی کوئی بھی شرط ماننا پڑے، آپ مان جائیں کیونکہ فتح بہرحال حدیبیہ میں بیٹھے لوگوں ہی کو نصیب ہوتی ہے۔
آپ معاہدہ حدیبیہ کی روشنی میں طالبان کے ایشو کو دیکھئے، طالبان پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے، پاکستان کا آئین ہماری کمزوری ہے، ہم ا س پر کمپرومائز نہیں کر سکتے مگر میرا مشورہ ہے، آپ ان کی یہ شرط مان جائیں کیونکہ یہ شرط بسم اللہ الرحمن الرحیم یا محمد الرسول اللہ ﷺ کے نام سے بڑی نہیں، یہ لوگ ہمارے بچوں، معصوم شہریوں کے قاتل بھی ہیں لیکن آپ اس کے باوجود بڑے امن کے لیے ان کے ساتھ معاہدہ کرلیں کیونکہ یہ قاتل ہونے کے باوجود رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کے قاتلوں سے بڑے نہیں ہیں، آپؐ نے حدیبیہ کا معاہدہ کرتے ہوئے اپنی صاحبزادیوں پر تشدد کرنے والوں، حضرت امیر حمزہؓ کے قاتلوں اور ہجرت پر مجبور کرنے والوں کو بھی فراموش کر دیا تھا، آپ ان کے ساتھ میز پر بیٹھ جائیں، ہو سکتا ہے لوگ اس کو ریاست کی پسپائی قرار دیں لیکن آپ کی پسپائی طواف کے بغیر احرام کھولنے سے بڑی پسپائی تو نہیں ہوگی اور احرام بھی کن کن ہستیوں نے کھولا، آپ ذرا تصور کیجیے، آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔
ہم لوگ کتنے ہی پارسا، نیک اور عظیم ہو جائیں مگر ہماری پارسائی حدیبیہ کے قافلے میں شامل کسی ایک شخص کے پائوں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہو سکتی اور ہماری ریاست کو اگر طالبان کے ساتھ ان کی مرضی کا معاہدہ بھی کرنا پڑے تو کر جائیے کیونکہ ہماری ریاست نبی اکرمؐ کی ریاست سے بڑی اور معتبر نہیں ہو سکتی، آپ ایک بار جھک کر دیکھ لیجیے، یہ معاملات حل ہو جائیں گے کیونکہ ریاست اس وقت درجنوں مسائل کا شکار ہے، ہمیں اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے اور ہم نے اگر اس نازک وقت میں ان لوگوں کے ساتھ بھی جنگ چھیڑ لی تو ہمارے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا، ہمارے زخم بڑھ جائیں گے، ہمیں اپنے قدم جمانے کے لیے، اپنے معاشی مسائل کے خاتمے کے لیے اور قوم کو اکٹھا کرنے کے لیے تین سال کا عرصہ درکار ہے، ہم اگر ان کے ساتھ معاہدہ کر کے یہ تین سال حاصل کر لیتے ہیں تو ہم کامیاب ہو جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں یہ جنگ پاکستان کی گلیوں میں منتقل ہو جائے گی، اس کو نئے کمانڈر مل جائیں گے اور یہ کمانڈر ہمیں منزل سے دور لے جائیں گے، دور بہت دور۔
ہم نے آج فیصلہ کرنا ہے، ہم نے حدیبیہ کی طرف جانا ہے یا پھر معاہدہ ویتنام کی طرف، ہم نے انا کا شملہ نیچے کرنا ہے یا پھر ویتنام کی طرح لاشیں اٹھانی ہیں، فیصلہ آپ نے کرنا ہے، بہرحال آپ ہی نے۔