پوپٹ راؤ کے سردار بننے سے پہلے حیوڑے بازار کی حالت انتہائی افسوس ناک تھی، گاؤں میں سال میں صرف 15 انچ بارش ہوتی تھی، خشک سالی اور قحط عام تھا، گاؤں میں درجنوں شراب خانے بھی تھے اور ہر گھر میں دیسی شراب کی بھٹی بھی تھی، گاؤں کے مردوں کے صرف تین کام تھے، سارا دن گھر لیٹے رہنا، شام کو جی بھر کر شراب پینی اور گلیوں میں نئی دشمنی کے بیج بونا، حیوڑے بازار میں غربت زیادہ تھی، بیماری زیادہ تھی یا پھر جہالت، کوئی غیر جانبدار شخص آسانی سے یہ فیصلہ نہیں کر سکتا تھا، کثرت شراب نوشی، بیماریوں اور دشمنیوں کی وجہ سے گاؤں کی اوسط عمر 45 سال تھی، گاؤں کے زیادہ تر لوگ 40 سے 50 سال کے درمیان دنیا سے رخصت ہو جاتے تھے۔
گاؤں پانی کی شدید کمی کا شکار بھی تھا، بارش ہوتی نہیں تھی، زمین میں پانی تھا نہیں اور اگر کسی جگہ سے بھی پانی نکل آتا تھا تو وہ کھارا ہوتا تھا، گاؤں میں اسکول اور اسپتال بھی نہیں تھا، بچے پیدائش کے چند سال بعد گدھوں کی دم کھینچنے، کتوں پر پانی پھینکنے اورگاؤں کی واحد دکان سے گڑ چوری کرنے لگتے تھے، لڑائیاں شروع ہوتی تھیں تو دس دس سال چلتی تھیں، گاؤں کے چند لڑکوں نے گینگ بھی بنا لیا تھا، یہ پڑوسی گاؤں اور بڑی سڑک سے گزرنے والی گاڑیاں لوٹ لیتے تھے لیکن پھر "حیوڑے بازار" میں ایک معجزہ ہو گیا، گاؤں کے سردار بگوجی پوار نے اپنے بیٹے پوپٹ راؤ پوار کو پڑھنے کے لیے شہر بھجوا دیا، پوپٹ ذہین بھی تھا، فطین بھی اور انقلابی بھی۔ پوپٹ نے کامرس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور گاؤں واپس آگیا، والد کا انتقال ہو گیا، والد کے بعد پوپٹ گاؤں کا سردار بن گیا۔
پوپٹ راؤ گاؤں کے لیے جنرل راحیل شریف ثابت ہوا، وہ آیا اور اس نے چند برسوں میں گاؤں کی حالت بدل دی، پوپٹ نے پورے گاؤں کو اکٹھا کیا اور ان سے صرف ایک سوال پوچھا "کیا آپ اور آپ کے بچے اسی طرح محرومی میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں؟" پورا گاؤں یک آواز ہو کر بولا "نہیں، ہم ایک باعزت، کامیاب اور صحت مند زندگی چاہتے ہیں" پوپٹ نے جوشیلی آواز میں زندہ باد کا نعرہ لگایا اور اس کے بعد حیوڑے بازار میں اس انقلاب کی بنیاد رکھ دی جو اس وقت پوری دنیا میں تبدیلی کی کامیاب مثال بن چکا ہے، پوپٹ نے کیا کیا؟ آپ یقینا اس وقت یہ سوچ رہے ہوں گے، پوپٹ نے شروع میں تین کام کیے۔
اس نے گاؤں میں شراب نوشی پر پابندی لگا دی، شراب خانے بند کر دیے اور شراب کی بھٹیاں توڑ دیں، دو، اس نے گاؤں میں سب سے پہلے پانی کا ذخیرہ بنانے کا فیصلہ کیا، گاؤں کے لوگوں کو ساتھ ملایا، خود کَسی اور بیلچہ اٹھایا اور حیوڑے بازار میں مٹی اور پتھر کے ڈیم بنانا شروع کر دیے، یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، گاؤں میں اس وقت مٹی کے 52 اور پتھروں کے 32 ڈیم بن چکے ہیں جب کہ دو بڑے واٹر ٹینک بھی تعمیر ہو چکے ہیں اور پوپٹ راؤ کا تیسرا بڑا فیصلہ، گاؤں کے نوجوان سردار نے تین تین خاندانوں کے گروپ بنائے، گاؤں کی زمینوں کو مختلف یونٹوں میں تقسیم کیا اور ہر یونٹ ایک گروپ کے حوالے کر دیا، یہ تین فیصلے حیوڑے بازار کے لیے دم عیسیٰ ثابت ہوئے اور گاؤں کے مردہ وجود میں زندگی آنے لگی۔
یہ گاؤں دیکھتے ہی دیکھتے صدیوں کے مسائل سے باہر آگیا، حیوڑے بازار کی آبادی اس وقت بارہ سو لوگوں پر مشتمل ہے، گاؤں میں کل 236 خاندان ہیں، یہ تمام لوگ خوش حال بھی ہیں، خود مختار بھی اور صحت مند بھی۔ گاؤں کے 60 خاندان لکھ پتی ہیں، ان 60 خاندانوں کے پاس اپنے ٹریکٹر، اپنی گاڑیاں اور ذاتی پکے مکان ہیں، گاؤں کے تمام خاندان ذاتی گھروں، ذاتی مال مویشیوں اور سال بھر کے ذاتی اناج کے مالک بھی ہیں، گاؤں میں آج اسکول بھی ہیں، اسپتال بھی، پکی سڑکیں بھی، سیوریج سسٹم بھی، پارک بھی اور مارکیٹ بھی، حیوڑے بازار کی فی کس آمدنی 450 امریکی ڈالر ہے اور یہ بھارت کے 21 لاکھ دیہات میں سب سے زیادہ آمدنی ہے، بھارتی حکومت نے پوپٹ راؤ کے گاؤں کو 2016ء کے شروع میں بھارت کے امیر ترین گاؤں کا ٹائیٹل دے دیا، پوپٹ اور اس کا گاؤں اس اعزار کے ساتھ ہی پوری دنیا میں مشہور ہوگیا۔
یہ بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ایک گاؤں حیوڑے بازار کی کہانی ہے، یہ گاؤں احمد نگر سے 20کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس وقت اس کے تمام باشندے خوشحال، مطمئن اور صحت مند زندگی گزار رہے ہیں، حیوڑے اور حیوڑے کے سردار پوپٹ راؤ کی کہانی کیا ثابت کرتی ہے؟ یہ کہانی ثابت کرتی ہے جب ملک یا ریاستیں وسائل کی کمی یا نظام کی خرابی کی وجہ سے عام لوگوں کے مسائل حل نہ کر سکیں تو پھر یہ ذمے داری پوپٹ راؤ جیسے لوگوں کواٹھانا پڑتی ہے۔
ان کو اپنے عوام، اپنے لوگوں کی مدد کے لیے آگے بڑھنا پڑتا ہے اوریہ لوگ اگر آگے بڑھ جائیں، یہ اگر اپنے لوگوں کو متحرک کر لیں، یہ اگر ان کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہو جائیں"یہ زندگی آپ کی ہے، اس زندگی کے تمام مسائل بھی آپ کے ہیں اور ان مسائل کے حل بھی بہرحال آپ ہی نے تلاش کرنے ہیں" یہ لوگ اگر عوام کو یہ ادراک دینے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر نشے، جرائم اور بیماریوں کے شکار حیوڑے بازار، ماڈرن اور ترقی یافتہ حیوڑے بازار بنتے دیر نہیں لگاتے، مسائل اور مصائب کے شکار لوگ اپنا راستہ خود تراش لیتے ہیں، یہ زندگی کی کٹھن راہوں کو اپنے لیے آسان اور ہموار بنا لیتے ہیں۔
ہم پاکستانی حیوڑے بازار کے اس ماڈل سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، پاکستان کی آبادی بیس کروڑ ہے، ان بیس کروڑ لوگوں میں سے صرف دو کروڑ لوگ کام کرتے ہیں، ان میں بھی پڑھے لکھے اور ہنر مند لوگوں کی تعداد ستر لاکھ سے زیادہ نہیں، ان ستر لاکھ یا دو کروڑ لوگوں میں سے صرف ساڑھے آٹھ لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں، گویا بیس کروڑ لوگوں کا بوجھ یہ ساڑھے آٹھ لاکھ، یہ ستر لاکھ اور یہ دو کروڑ لوگ اٹھا رہے ہیں، باقی ساری آبادی آرام کرتی ہے۔
پاکستان سے تیل، سونا اور یورینیم بھی نہیں نکلتی کہ ریاست یہ معدنی دولت بیچ کر پہلے بیس کروڑ لوگوں کو مفت رہائش، تعلیم، صحت، پانی، پارک، کھانا، سڑک، گلی اور سیوریج دے دے اور اس کے بعد ملک کے تمام ریلوے کراسنگ پر پھاٹک لگوا ئے، نہروں، دریاؤں اور سڑکوں کے ساتھ جنگلے بھی لگائے اور پھر ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی حفاظت کا بندوبست بھی کر ے، ہماری حالت یہ ہے، ہمیں اگر کسی سال آئی ایم ایف کی قسط نہ ملے تو ہمارے لیے سود کی ادائیگی مشکل ہو جاتی ہے اور ہم ڈیفالٹ کے قریب پہنچ جاتے ہیں لیکن عوام ریاست سے توقع کرتے ہیں، یہ ملک بھر کے دو لاکھ پچیس ہزار اسکول اور کالجز، 148 یونیورسٹیوں (گورنمنٹ اور پرائیوٹ)، 98 میڈیکل کالجوں اور 12انجینئرنگ یونیورسٹیوں کو فوجی مورچہ بنا دے، یہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کو "فول پروف" سسٹم بنا دے، کیا یہ ممکن ہے؟
ہمارے تین بارڈر ایکٹو ہیں، ہمیں بھارت کی سرحد پر بھی فوج چاہیے، ہم افغانستان اور ایران کی سرحدوں پر بھی فوج تعینات کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور ہماری فوج قبائلی علاقوں میں بھی برسر پیکار ہے، ہم کراچی جیسے شہروں میں بھی امن قائم کرنے کے لیے باوردی فورس رکھنے پر مجبور ہیں، ہمیں زلزلوں، سیلاب اور الیکشن کے لیے بھی فوج چاہیے اور ہمیں اب وی وی آئی پیز کی حفاظت اور پروٹوکول کے لیے بھی فوج چاہیے، ہماری فوج صرف ہماری اندرونی ضروریات تک محدود نہیں بلکہ یو این کو بھی ہمارے فوجی درکار ہیں اور ہمارے سعودی عرب اور قطر جیسے اتحادیوں کو بھی پاک فوج کی ضرورت پڑتی رہتی ہے چنانچہ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے، کیاپاکستان جیسا ملک یہ ساری فوجی ضرورتیں پوری کر سکتا ہے؟ اور کیا ہم فوج کو سرحدوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کی حفاظت کی ذمے داری سونپ سکتے ہیں۔
ہم اگر آج ملک کے تمام تعلیمی اداروں کی دیواریں اونچی کرنے یا ان پر کانٹے دار تار لگانے کا فیصلہ کریں تو ہم یہ کام دس سال میں بھی مکمل نہیں کر سکیں گے، کیوں؟ کیونکہ ہمیں اس کے لیے ملک کے کل بجٹ کے برابر رقم بھی چاہیے اور تکنیکی معاونت بھی اور ملک اس وقت ان دونوں شعبوں میں بری طرح مارکھا رہا ہے چنانچہ پھر ہمارے پاس کیا آپشن بچتا ہے؟ ہمارے پاس پوپٹ راؤ ماڈل کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا، لوگوں کو یہ ماننا ہو گا، آرمی پبلک اسکول ہو، باچا خان یونیورسٹی ہو یا پھر کراچی سے لے کر خیبر تک پھیلے ان جیسے دوسرے تعلیمی ادارے ہوں یہ سارے ادارے ہمارے اپنے ادارے ہیں اور ان اداروں میں پڑھنے والے بچے بھی ہمارے اپنے بچے ہیں اور ہم اگر اپنے ان بچوں کو دہشت گردوں سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے بچوں کے اسکولوں کی دیواریں بھی خود بلند کرنا ہوں گی۔
ان پر خاردار تاریں بھی خود لگانا ہوں گی اور ان تعلیمی اداروں کی حفاظت بھی خود کرنا ہو گی، ہمیں اپنے شہروں، اپنے قصبوں میں پوپٹ راؤ جیسے لوگ بھی سامنے لانا ہوں گے، ایسے لوگ جو لوگوں کومتحرک کریں، شہر میں فنڈ قائم کریں، گھرگھر، بازار بازار جا کر رقم جمع کریں، اس رقم سے سیمنٹ، بجری، ریت اور سریا خریدیں، تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو ایکٹو کریں، کسی اتوار کا دن طے کریں، تمام طالب علموں کو بلائیں اور یہ سب لوگ مل کر ایک ہی دن میں تمام اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی دیواریں اونچی کردیں، یہ ایک ایسی تکنیک ہے جس کے ذریعے ملک کے سارے تعلیمی اداروں کی دیواریں بھی ایک دن میں اونچی ہو جائیں گی اور ریاست بھی مالیاتی بوجھ سے بچ جائے گی۔
آپ اسی طرح اپنے بچوں کے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کا بندوبست بھی کر سکتے ہیں، آپ سیکیورٹی فنڈ بنائیں، سیکیورٹی گارڈ رکھیں، پولیس اور فوج سے ان گارڈز کی ٹریننگ کا بندوبست کرائیں اور پھر ان گارڈز کو اپنے بچوں کے تعلیمی اداروں کی حفاظت کی ذمے داری سونپ دیں، یہ ممکن نہ ہو تو ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل صاحب ایسے بچوں کے والدین کوبلائیں جو فوج یا پولیس سے تازہ تازہ ریٹائر ہوئے ہیں، یہ ان سے درخواست کریں"آپ لوگ اس وقت تک تعلیمی ادارے کی حفاظت کی ذمے داری اٹھا لیں جب تک دہشت گردی کی یہ لہر جاری ہے یا جب تک حکومت تعلیمی اداروں کی حفاظت کا مناسب بندوبست نہیں کردیتی" اس عارضی انتظام سے بھی بچے محفوظ ہو جائیں گے، حکومت اسی طرح پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے لیے سیکیورٹی سسٹم بھی بنائے۔
یہ سسٹم ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو ای میل کر دیا جائے، انھیں وقت دیا جائے، تعلیمی ادارے یہ سسٹم لگائیں، ضلعی انتظامیہ اس کا معائنہ کرے اور اطمینان کے بعد تعلیمی اداروں کو سر ٹیفکیٹ جاری کرے، ادارے اس سر ٹیفکیٹ کی کاپی تمام والدین کو بھجوا دیں اور جو ادارہ وقت مقررہ پر یہ انتظامات نہ کرے، حکومت اسے سیل کر دے، یہ انتظام بھی بچوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے، ہم لوگ جب تک اپنے بچوں کو اپنے بچے نہیں سمجھیں گے، ہمارے بچوں کو اس وقت تک ریاست بھی اپنابچہ نہیں سمجھے گی، ہم نے بلاشبہ دشمن کے بچوں کوپڑھانا ہے لیکن ہم نے اس سے پہلے اپنے بچوں کو دشمن سے بھی بچانا ہے اور یہ شاید پوپٹ ماڈل کے بغیر ممکن نہ ہو۔