Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Justice Saqib Nisar Se Baat Cheet

Justice Saqib Nisar Se Baat Cheet

جسٹس ثاقب نثاردوبرس سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس رہے اور یہ 17 جنوری 2019کو ریٹائر ہو گئے لیکن یہ آج بھی خبروں میں حاضر سروس ہیں۔

جسٹس صاحب کا دور تلاطم خیز بھی تھا اورخبرناک بھی، پورے میڈیا کے کیمرے دن بھر سپریم کورٹ پرفوکس رہتے تھے، جسٹس ثاقب نثار نے ریکارڈ سو موٹو نوٹسز بھی لیے، دورے بھی کیے اور یہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بعد میڈیا کا سب سے مرعوب موضوع بھی رہے۔

ان کے دور میں ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب ٹیلی ویژن اسکرینز پر ان کے ٹکرز نہ چلے ہوں یا جسٹس ثاقب نثار سے متعلق کوئی بریکنگ نیوز نہ آئی ہو، چیف جسٹس نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کا اعلان بھی کیا تھا اور اس کے لیے باقاعدہ فنڈ ریزنگ بھی شروع ہوئی۔

ان کے دور میں میاں نواز شریف کے خلاف فیصلے بھی ہوئے، یہ ڈس کوالی فائی بھی ہوئے اور گرفتار بھی ہوئے اور عمران خان کو صادق اور امین کا ٹائٹل بھی ملا اور 2018کے متنازع الیکشن بھی ہوئے گویا ان کا دور ٹھیک ٹھاک ہنگامہ خیز تھا اور اس کی ہنگامہ خیزی آج بھی قائم ہے، اللہ تعالیٰ نے جسٹس ثاقب نثار کو یاد داشت بھی اچھی دے رکھی ہے۔

یہ بات اور اس کا سیاق و سباق نہیں بھولتے، جنوری 2018میں قصور کی بچی زینب کا واقعہ پیش آیا تھا، اس واقعے کے دوران ہمارے صحافی دوست ڈاکٹر شاہد مسعود نے دعویٰ کر دیا "ملزم عمران علی عالمی مافیا کا رکن ہے اور اس کے 37 فارن اکاؤنٹس ہیں" جسٹس ثاقب نثار نے اس دعوے پر سوموٹو نوٹس لے لیا۔

سماعت شروع ہوگئی، چیف جسٹس نے اس سماعت کے دوران سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز کو بھی معاونت کے لیے عدالت بلا لیا، میں بھی اس لسٹ میں شامل تھا لیکن ذاتی مصروفیت کی وجہ سے عدالت نہ جا سکا، میری چند ماہ بعد جہاز میں جسٹس صاحب سے ملاقات ہوئی تو انھیں یاد تھا میں سماعت کے دوران عدالت نہیں آیا تھا لہٰذا انھوں نے فوراً شکوہ کیا"میں نے آپ کو دعوت دی تھی لیکن آپ نے ٹھکرا دی" میں نے معذرت کر کے عرض کیا "یہ واقعی میری کوتاہی ہے، آپ اب جب بھی بلائیں گے میں حاضر ہو جاؤں گا" اور انھوں نے دوسرے ہی دن مجھے چائے پر بلا لیا اور یوں میری ان سے ایک گھنٹہ ملاقات ہوئی، میں نے اس ملاقات پر 22 مارچ 2018 کو"چیف جسٹس کے ساتھ ایک طویل ملاقات"کے ٹائٹل سے کالم لکھا تھا۔

اس کالم نے بھی اس زمانے میں بہت شور برپا کیا تھا، اس پر شوز بھی ہوئے تھے اورشدید تنقید بھی لیکن جسٹس ثاقب نثار نے واقعی حوصلے کے ساتھ تنقید برداشت کی اور میں آج بھی اس پر ان کی تعریف کرتا ہوں، ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی میری ان سے چند مرتبہ فون پر گفتگو ہوئی تاہم ملاقات نہیں ہو سکی۔

جسٹس ثاقب نثار کا واٹس ایپ چار دن پہلے ہیک ہوگیا تھا، یہ اس پر بہت ڈسٹرب تھے لہٰذا سوموار اور منگل میرا ان سے دو بار ٹیلی فون پر رابطہ ہوا، یہ میڈیا اور میرے ساتھ ناراض ہیں لیکن یہ اس ناراضی کے باوجود سب سے بات بھی کر لیتے ہیں اور جس سوال کا جواب یہ دینا چاہتے ہیں یہ دے دیتے ہیں اور جو بات انھیں پسند نہیں آتی یہ اسے گول کر دیتے ہیں۔

یہ ان کی پرانی عادت ہے یہ جس ایشو پر بات نہ کرنا چاہیں یہ اسے ڈائی ورٹ کرنے کے لیے کوئی دوسرا موضوع چھیڑ دیتے ہیں، میرے ساتھ گفتگو میں بھی یہ بار بار یہ تکنیک استعمال کرتے رہے، ان کا کہنا تھا آپ لوگوں نے پورا ملک تباہ کر دیا، آپ کی ذمے داری ہے آپ سچ بولیں لیکن آپ جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ نہیں کہہ رہے، ان کا دعویٰ تھا۔

ان کے اوپر بے ہودہ الزامات لگائے جا رہے ہیں جب کہ انھوں نے نیک نیتی اور انسانی حقوق کو سامنے رکھ کر تمام فیصلے کیے، ان کے بقول" میں نے ایک لاکھ 30ہزار درخواستیں نبٹائیں لیکن ان پر کوئی بات نہیں کر رہا، مجھے جان بوجھ کر گندا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ مجھے انڈر پریشر لانا چاہتے ہیں، اپ سیٹ کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اپ سیٹ ہوں اور نہ انڈر پریشر ہوں، یہ لوگ میری جان تو نہیں لے سکتے" ان کا کہنا تھا میرا واٹس ایپ اچانک ہیک ہوگیا۔

میرے بیٹے نے واٹس ایپ اور ایف آئی اے کو مطلع کر دیا، واٹس ایپ کمپنی کا میسج آ گیا، ہم آپ کااکاؤنٹ ریکور کر رہے ہیں لیکن ایف آئی اے کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا، میں نے پوچھا، کیا آپ کے واٹس ایپ میں آپ کی کوئی ایسی آڈیوز اور وڈیوز تو نہیں تھیں جنھیں کوئی غلط استعمال کر سکتا ہو۔

یہ سوال ان کو اچھا نہیں لگا اور ان کا کہنا تھا میرا واٹس ایپ ہیک کرنا چوری ہے اور یہ جس نے بھی کی اسے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینا پڑے گا، میں اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہا ہوں، مجھے ایشوز میں گھسیٹنے، خراب کرنے اور تقریروں میں میرے اوپر کیچڑ اچھالنے کی کیا جسٹی فکیشن ہے؟ آپ تو کم از کم سچ کا ساتھ دیں، آپ تو دوسروں کی زندگی میں گھسنے والوں کے ساتھ نہ چلیں، میں نے پوچھا، کیا جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید آپ کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے رہے تھے؟ جسٹس ثاقب نثار نے کلمہ پڑھ کر جواب دیا۔

بالکل نہیں، میرا دونوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، میں اتنا کم زور نہیں تھا کہ جنرل فیض جیسا شخص مجھ سے رابطہ کر سکتا، مجھ سے مل سکتا اور میں اس کی خواہش پوری کرتا، میں جنرل فیض حمید سے کیوں ملوں گا اور نہ اس میں اتنی جرات تھی کہ یہ مجھے فون کرتا یا ملاقات کرتا، میں نے پوچھا آپ نے عمران خان کو صادق اور امین قرار دیاتھا۔

یہ فیصلہ آج بھی ڈسکس ہو رہا ہے، کیا آپ کا فیصلہ غلط تھا، یہ فوراً بولے، جج درخواستوں اور پٹیشنز میں اٹھائے جانے والوں سوالوں پر فیصلے کرتے ہیں، ہمارے سامنے حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے بنی گالا کی منی ٹریل کے حوالے سے تین سوال رکھے تھے اور ہم(چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس فیصل عرب) نے عمران خان کو ان تین ایشوز پرسچا پایا اور ہم نے انھیں صادق اور امین ڈکلیئر کر دیا۔

عمران خان اس کے علاوہ کیا کرتے ہیں، ان کی باقی زندگی کیسی گزری اور ان کے باقی معاملات کیا ہیں اور کیا یہ ان میں بھی صادق اور امین ہیں یا نہیں ہیں میری بلا جانے، مجھے کیا پتا؟ ان کا کہنا تھا ججز فیصلے کیا کرتے ہیں۔

فیصلے غلط بھی ہوتے ہیں اور صحیح بھی، ان پر تنقید بھی ہوتی ہے اور تعریف بھی اور یہ فیصلے ججز کے بعد بھی ڈسکس ہوتے رہتے ہیں، میرے فیصلے بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں، آپ پڑھ لیں، آپ ان پر بات بھی کر لیں تاہم یہ یاد رکھیں جج بھی انسان ہوتے ہیں، یہ بھی غلط ہو سکتے ہیں اور ان کے فیصلوں کا فیصلہ بہرحال تاریخ کرتی ہے۔

میں نے پوچھا، یہ تاثر ہے جہانگیر ترین بیلنسنگ ایکٹ کا شکار ہو گئے تھے، یہ بولے، آپ ججمنٹ پڑھ لیں، اس کا جواب میں نہیں ججمنٹ دے گی، میں نے پوچھا، عمران خان نے چند دن قبل آپ سے کیوں رابطہ کیا تھا؟

یہ بولے، یہ کسی معاملے میں میری مدد چاہ رہے تھے لیکن میں نے ان سے فوراً کہہ دیا، میں اس معاملے کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتا، میں اس میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا، میں نے پوچھا، کیا آپ کا واٹس ایپ اس گفتگو کے بعد ہیک ہوا؟ جسٹس صاحب کا جواب تھا، میں آپ سے بھی اس معاملے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، میں نے پوچھا، کیا عمران خان آپ کے ذریعے موجودہ ججز سے کوئی سپورٹ چاہ رہے تھے۔

یہ سن کر جسٹس ثاقب ناراض ہو گئے اور انھوں نے سخت لہجے میں جواب دیا، میں اس معاملے میں قطعاً کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، نہ ہاں اور نہ ناں، دوسرا ججز آزاد ہیں، یہ میری بات کیوں مانیں گے؟ میں نے پوچھا اگر آپ کی عمران خان سے گفتگو لیک ہوگئی تو کیا یہ آپ دونوں کے لیے خطرناک نہیں ہوگا؟ یہ سختی سے بولے، تم لوگوں نے پورے ملک کو برباد کر دیا ہے۔

بچوں کی زندگیاں تباہ کر دی ہیں، تم لوگوں نے تمام لوگوں کے بارے میں بد اعتمادی اور بے اعتباری پیدا کر دی ہے، آپ لوگ میرے ساتھ بھی یہی کر رہے ہیں لیکن میں ڈرنے والا نہیں ہوں، میں نے پوچھا، آپ کس کو بربادی کی بڑی وجہ سمجھتے ہیں، یہ بولے، ہم سب ذمے دار ہیں، میں کسی ایک ادارے کو ذمے دار نہیں سمجھتا، ہم سب لوگوں اور اداروں نے مل کر اس ملک کو تباہ کیا، آپ نے بھی اور میں نے بھی، آپ کی ذمے داری ہے آپ پاکستان کے بارے میں سوچیں، بچوں کی زندگیاں تباہ نہ کریں۔

اپنا کنڈکٹ ٹھیک کر لیں، ریٹنگ کے پیچھے نہ دوڑیں، میں نے پوچھا، آپ کا جنرل فیض حمید کے ساتھ کوئی رابطہ ہے؟ یہ بولے، بالکل نہیں ہے تاہم جنرل باجوہ ریٹائرمنٹ کے بعد اڑھائی تین ماہ قبل (جنوری 2023 میں) میرے پاس میرے گھر تشریف لائے تھے۔

ہم نے چائے اکٹھے پی، گپ شپ کی، بچوں اور فیملی کے بارے میں بات کی اور بس۔ میں نے کہا میرا خیال ہے آپ اس ملاقات سے قبل فیملی سمیت ان کے گھر بھی گئے تھے، ان کا جواب تھا یہ ملاقاتیں غیر سیاسی تھیں اور فیملی میٹنگز تھیں، ان کا سیاست اور موجودہ حالات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، آپ لوگ اسپیکولیشنز نہ کریں۔

میں نے سابق چیف جسٹس کو ایک بار پھر عمران خان سے گفتگو اور ان کے دور کے مقدمات کی طرف لے جانے کی کوشش کی لیکن یہ بڑی مہارت سے بات کو دوبارہ میڈیا، "کریکٹر اسیسی نیشن" اور اپنے کارناموں کی طرف لے آئے اور ان کا کہنا تھا میں نے زندگی میں جو اچھے کام کیے آپ لوگ ان کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ آپ میرے سیاسی فیصلوں کو کیوں زیادہ ڈسکس کرتے ہیں؟ ہمارے پاس اس دور میں جو شواہد تھے ہم نے قانون کے مطابق فیصلے کر دیے، آپ فیصلے پڑھیں اور انھیں اچھا یا برا سمجھ لیں، مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں تاہم مجھے ان کی گفتگو سے یہ محسوس ہوا یہ ڈسٹرب بھی ہیں اور پریشان بھی۔

نوٹ:جولائی 2023 میں ہمارا گروپ انگلینڈ جا رہا ہے، آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ +923013334562، +923091111211

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.