دنیا کے ہر شہر کی ایک فیلنگ، ایک تاثر ہوتا ہے، آپ پیرس جائیں، آپ کو یہ شہر کلچر، آرٹ اور سلیقے کی فیلنگ دے گا، آپ لندن چلے جائیں، آپ کو یہ شہر مادہ پرستی اور مصروفیت کی فیلنگ دے گا، آپ میلان جائیں، آپ کو وہاں فیشن کی فیلنگ آئے گی، آپ انٹر لاکن جائیں، آپ کو وہاں سکون، شانتی اور خوشی کا احساس ملے گا، آپ نیویارک چلے جائیں، آپ کو وہ شہر جلدی، افراتفری، ہنگامہ اور بھاگ دوڑ کی فیلنگ دے گا اور آپ استنبول چلے جائیں، آپ کو یہ شہر تاریخ کی دقیق کتاب محسوس ہو گا، آپ لاہور آ جائیں، آپ لاہور کے اندرون شہر میں داخل ہو جائیں۔
یہ شہر آپ کو عبرت کی فیلنگ دے گا، آپ کو اس کی گلیوں، اس کے کوچوں اور اس کے چوکوں میں عبرت لٹکی نظر آئے گی، لاہور کی اندرونی گلیاں قبرستان ہیں، تاریخ کا قبرستان، تہذیب کا قبرستان، معاشرت کا قبرستان، زبان کا قبرستان، مذاہب کا قبرستان اور بادشاہوں کے غرور کا قبرستان، آپ وال سٹی کی کسی گلی میں نکل جائیں، آپ کو وہاں کوئی نہ کوئی قبر ملے گی، آپ کو اپنے راستے میں دنیا کی بے ثباتی، اقتدار اور اختیار کی بے وفائی، رشتوں کی مفاد پرستی اور وقت کی بے مہری کی کوئی نہ کوئی لاش ملے گی، آپ کتنے ہی با اختیار کیوں نہ ہوں، آپ کتنے صاحب ثروت اور مشہور شخصیت کیوں نہ ہوں، آپ اندرون لاہور چلے جائیں، آپ کو آدھ گھنٹے میں اپنی اوقات کا اندازہ ہو جائے گا، یہ شہر ہندومت کے بانی رام کے بیٹے لاہو نے آباد کیا لیکن رام، لاہو اور ان کا مذہب تینوں شہر میں قبر بن گئے۔
لاہور شہر میں ہزار کے قریب ٹمپل، مندر اور دھرم شالے تھے، یہ تمام قبریں بن گئے، آپ کو شہر میں کوئی زندہ ٹمپل، کوئی زندہ مندر نہیں ملتا، یہ شہر سکھ مت کا قبلہ اور واحد راج دھانی تھا، یہ گروؤں کا شہر تھا لیکن آج شہر میں کوئی گرو بچا، کوئی راج دھانی اور نہ ہی کوئی زندہ گردوارہ، شہر میں سکھوں کے اقتدار کی صرف ایک نشانی باقی ہے اور وہ بھی راجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی، یہ محمود غزنوی اور ایاز کا شہر تھا، محمود غزنوی چلا گیا جب کہ ایاز ہزار سال سے قبر بن کر شہر میں پڑا ہے، خاندان غلاماں کے عظیم بادشاہ قطب الدین ایبک کا قطب مینار دلی رہ گیا، قبر لاہور میں بس گئی، اکبر اس شہر کا محسن تھا، وہ 20 سال لاہور سے ہندوستان پر حکومت کرتا رہا، لاہور نے اکبر کے راج کو بھی قبر بنا دیا، آپ کو اقتدار اکبری کی لاش شہر کی ہر گلی میں ملے گی، جہانگیر کی پہلی محبت انارکلی لاہور آئی، دیوار میں قبر بنا دی گئی، جہانگیر لاہور کی محبت کا شکار ہوا، قبر بن کر لاہور میں رہ گیا۔
نور جہاں لاہور کے دام الفت میں پھنسی اور بے چراغ قبر بن کر رہ گئی، وزیر خان آیا، قبر بنا اور غائب ہو گیا، صرف مسجد، حمام اور بارہ دری بچ گئی، انگریز آئے اور یادوں کی قبر بن کر تاریخ میں جذب ہو گئے، آج لاہور میں انگریزوں کے نام کی صرف 21 سڑکیں باقی ہیں، آپ اندرون لاہور جائیں، رنگ محل کے سامنے کھڑے ہوں، یہ محل کبھی دو کلومیٹر طویل اور عریض ہوتا تھا، آج اس کا صرف دس فیصد حصہ باقی ہے، لاہور میں ایاز، ایبک، اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں، اورنگ زیب، رنجیت سنگھ اور ایچی سن یہ سب آئے اور چلے گئے، وزیرخان بھی چلا گیا، بھکاری خان بھی رخصت ہو گیا، فقیر بھی چلے گئے، سلطان ٹھیکیدار بھی چلا گیا اور میاں صلاح الدین نے بھی چھٹی لے لی، پیچھے گلیوں میں صرف عبرت اور وقت کی بے ثباتی رہ گئی، آپ بھی آئیے، لاہور دیکھئے اور لاہور کی بادشاہی مسجد کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ سے پوچھئے، کیا میں ان رخصت ہونے والے لوگوں سے زیادہ مضبوط، زیادہ تگڑا ہوں، جواب اگر نفی میں آئے تو سوچئے، پھر میری قبر کتنی دیر زندہ رہے گی، آپ اپنے وجود کو وقت کے صفحے پر کتنی دیر سلامت رکھ لیں گے، آئیے، لاہور آئیے اور اپنی اصل اوقات سے ملاقات کیجیے۔
پنجاب بالخصوص لاہور ہزاروں سال تک تہذیبوں کی گزرگاہ رہا، لاہور میں تہذیبوں، معاشرتوں اور مذاہب کے ہزاروں قافلے اترے، ان قافلوں نے پنجاب میں وژن اور برداشت دونوں پیدا کر دیں، پنجاب کے لوگ لبرل ہیں، یہ سب کو قبول کر لیتے ہیں، یہ سب کو برداشت کرلیتے ہیں، آپ کو لاہور کا مسلمان پورے ہندوستان کے مسلمانوں سے نرم ملے گا، یہ زیادہ سخت گیر نہیں ہو گا، لاہور اور پنجاب کے ہندو بھی ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے ہندوؤں کے مقابلے میں کم توہم پرست ہیں، آپ ہندوستان کے مذاہب کی تاریخ بھی نکال کر دیکھ لیجیے، ہندوستان کے تمام ماڈرن مذاہب کی پیدائش پنجاب میں ہوئی، آپ بابا نانک کو دیکھ لیں۔
آپ روحانی سلسلوں کو دیکھ لیجیے اور ماڈرن تحریکوں کی تاریخ بھی دیکھ لیجیے، آپ کو لاہور مرکز میں ملے گا، آپ کو آج کے پاکستان میں بھی پورے ملک سے پنجابیوں کی لاشیں پنجاب آتی نظر آئیں گی لیکن پنجاب نے آج تک کسی صوبے کو کوئی لاش نہیں بھجوائی، پنجابی سیکڑوں سال سے سندھ، بلوچستان اور پختونخوا میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن پنجاب میں آباد بلوچ، سندھی اور پشتون ہر لحاظ سے محفوظ ہیں، لاہور ہزاروں سال سے فنون لطیفہ کا دارالخلافہ بھی رہا، آپ کو شہر میں مصوری کی تاریخ بھی ملے گی اور مجسمہ سازوں، شاعروں، ادیبوں، موسیقاروں، رقاصاؤں اور قصہ خوانوں کے آثار بھی۔
دنیا کی شاید ہی کوئی تہذیب ہو گی جو لاہور نہ پہنچی ہو اور اس نے یہاں سیکڑوں سال قیام نہ کیا ہو، دنیا کے ساتھ اس انٹرایکشن نے لاہور اور پنجاب میں برداشت پیدا کر دی، آپ کو اندرون لاہور اس برداشت اور اس کھلے پن کی فیلنگ بھی ہوتی ہے، ہمارا پورا ملک اس وقت فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے لیکن آپ کو اندرون لاہور آج بھی مذہبی رواداری اور برداشت ملے گی، آپ کو یہ شہر مذہبی رواداری کی فیلنگ بھی دے گا، یہ کمال شہر ہے، بس اس میں چند خرابیاں ہیں، ہم اگر یہ خرابیاں دور کر دیں تو یہ خطے کا بڑا سیاحتی مرکز بن جائے گا، اندرون لاہور گندگی کے ڈھیر لگے ہیں، کنکریٹ اور لوہے کے بدوضع دروازے اور شٹرز نے دنیا کے خوبصورت مقبرے کو بدصورت بنا دیا ہے، آپ کو وہاں گلیوں میں کلچر کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے۔
کامران لاشاری بہت محنت کر رہے ہیں، یہ محلہ کمیٹیاں بھی بنا چکے ہیں، محلوں میں سرکاری سینیٹری ورکر بھی نظر آتے ہیں، پرانی عمارتیں گرانے پر بھی پابندی ہے اور تاریخی عمارات اور مقبروں کی تزئین و آرائش کا کام بھی جاری ہے لیکن ہم جب تک لوگوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں کریں گے، ہم جب تک ان کا قلب نہیں بدلیں گے، یہ تمام کوششیں اس وقت تک بے کار رہیں گی، میں یہاں ازبکستان کی مثال دوں گا، سمر قند اور بخارہ لاہور کے کزن ہیں، ازبک حکومت نے یہ دونوں شہر پوری دنیا کے لیے سیاحتی مرکز بنا دیے، شہر کی تمام قدیم مساجد، مدرسے، مقبرے، حمام اور ریستوران دوبارہ زندہ کر دیے گئے، وزیراعلیٰ پنجاب اور کامران لاشاری سمر قند اور بخارہ کا چکر لگا لیں اور پھر سیاحتی نقطہ نظر سے اندرون لاہور کی تعمیر نو کریں تو کمال ہو جائے گا، بخارہ شہر میں مدارس کو ہوٹل بنا دیا گیا ہے، میں خود ایک مدرسہ ہوٹل میں رہا، وہ رات میری زندگی کی یادگار ترین رات تھی، آپ بھی پرانی حویلیوں کو ہوٹل بنا دیں، اندرون لاہور کی تمام دکانوں کو قدیم گیٹ اپ دیں۔
لوگوں کو پرانے لباس پہنائیں، قصہ خوانوں اور قوالوں کا بندوبست کریں، قدیم لاہور کو ملک کے اندر اور باہر ایڈورٹائز کریں، سیاحت بڑھائیں تا کہ لوگوں کو خوشی مل سکے، حکومت اگر دلی دروازے سے مسجد وزیر خان تک شاہی گزر گاہ کو بیٹھک ڈکلیئر کر دے، سڑک کے دونوں اطراف دکانوں کو چائے خانوں، کافی شاپس، لسی گھر اور شربت کی دکانوں میں تبدیل کر دیا جائے تو پورا لاہور شام کے وقت یہاں امڈ آئے گا، لوگ رات گئے تک یہاں بیٹھیں گے، اندرون لاہور قصہ خوانوں کی حویلی بھی ہونی چاہیے، اس حویلی میں لاہور کے قدیم لباس میں بھانڈ اور قصہ خوان موجود ہونے چاہئیں، یہ قصہ خوان ماضی کے قصے سنائیں اور بھانڈ لاہوری جگتیں کرائیں، میں نے ایک مرتبہ قرطبہ شہر کا، نائیٹ، ٹور، لیا، یہ ٹور مشعل کی روشنی میں قرطبہ کی قدیم گلیوں کی سیر پر مشتمل تھا، کامران لاشاری کو بھی نائیٹ ٹورز شروع کرانے چاہئیں، آپ سیاحوں کو مشعل اٹھا کر شہر کی پرانی گلیوں میں لے جائیں، لاہور مقبروں اور مزاروں کا شہر ہے۔
شہر میں مقبروں کا بھی گائیڈڈ ٹور ہونا چاہیے، گائیڈ سیاحوں کو تمام مزارات اور مقبروں کا ٹور کرائیں، لاہور شہر میں سیکڑوں مندر، گوردوارے اور مساجد تھیں، یہ ختم ہو چکے ہیں یا پھر لوگ ان پر قابض ہیں، آپ یہ بھی آباد کرائیں اور ان کا ٹور بھی کرایا جائے، لاہور میں انگریز دور تک پالکیاں ہوتی تھیں، خواتین ان پالکیوں میں ایک محلے سے دوسرے محلے جاتی تھیں، یہ پالکیاں بھی سیاحتی ذریعہ بن سکتی ہیں، حکومت تیس چالیس پالکیاں بنوائے اور اندرون شہر پالکی ٹور شروع کرا دے اور پنجاب حکومت اپنی نگرانی میں بسنت کا تہوار بھی شروع کرائے، بسنت کے لیے علاقے مختص کر دیے جائیں، بسنت ان مخصوص علاقوں میں منائی جائے، دھاتی ڈور اور ہوائی فائرنگ پر پابندی ہو اور آخری تجویز، کامران لاشاری شاہی حمام کی تزئین و آرائش کر رہے ہیں، یہ حمام فنکشنل بھی ہونا چاہیے، میں نے بخارہ میں قدیم حمام دیکھے، یہ حمام آج بھی کارآمد ہیں، آپ حمام کو کارآمد بنائیں تا کہ لوگ صرف سیر نہ کریں، یہ حمام میں بیٹھ کر تاریخ کو بھی محسوس کریں۔
لاہور، لاہور کیوں ہے؟ آپ کو اس سوال کا جواب اس وقت تک نہیں مل سکتا آپ جب تک قدیم لاہور میں چند گھنٹے نہیں گزارتے، میں ٹور سے قبل لاہور کو صرف ایک شہر سمجھتا تھا لیکن میں جب اندرون شہر کی گلیوں میں اترا تو زندگی میں پہلی بار یہ کہنے پر مجبور ہو گیا "لاہور، لاہوراے" اور پاکستان کا کوئی شہر لاہور کی ہمسری نہیں کر سکتا"۔