قائداعظم کے پاس چند مسلمان طالب علم آئے، یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا، وائسرے نے ہندوستان میں سائیکلوں پر بتی لگانے کا حکم دے رکھا تھا، یہ حکم قانون کی حیثیت رکھتا تھا، مسلمان اور ہندو انگریز سے آزادی چاہتے تھے چنانچہ یہ اکثر سرکاری احکامات کی خلاف ورزی کرتے رہتے تھے، نوجوان خلاف ورزیوں میں پیش پیش ہوتے تھے، قائداعظم نے طالب علموں سے پوچھا " آپ میں سے کس کس کے پاس سائیکل ہے" تمام نوجوانوں نے ہاتھ اٹھا دیے۔
قائداعظم کا اگلا سوال بہت دلچسپ تھا، آپ نے پوچھا " اور کس کس کی سائیکل پر بتی ہے؟ " ایک نوجوان کے سوا تمام نے ہاتھ نیچے گرا دیے، نوجوانوں کا خیال تھا قائداعظم قانون کی اس خلاف ورزی پر خوش ہوں گے لیکن قائداعظم توقع کے برعکس اداس ہو گئے، آپ نے نوجوانوں سے فرمایا " ینگ مین، قانون قانون ہوتا ہے، آپ سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے" نوجوانوں نے عرض کیا " جناب یہ انگریز کا قانون ہے، ہم اس پر کیوں عمل کریں " قائداعظم نے جواب دیا " نوجوانو! جو شخص آج قانون پر عمل نہیں کر رہا، وہ کل ہمارے پاکستان میں بھی قانون کی خلاف ورزی کرے گا، آپ میری بات پلے باندھ لیں، ہمارے ملک میں قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہو گی"۔
یہ پاکستان کے بارے میں قائداعظم کا وژن تھا، آپ اب عمران خان کا نیا پاکستان ملاحظہ کیجیے، کل ننکانہ صاحب میں پاکستان تحریک انصاف کا جلسہ تھا، یہ جلسہ بھی عمران خان کے دوسرے جلسوں کی طرح کامیاب تھا، ہمیں ماننا پڑے گا عمران خان بھرپور جلسے کر رہے ہیں، یہ دو دن کا نوٹس دیتے ہیں اور ہزاروں لوگ جمع ہو جاتے ہیں، عمران خان کے جلسے کامیاب ہو رہے ہیں لیکن عمران خان اخلاقی لحاظ سے کمزور ہورہے ہیں، ان کی اس کمزوری کی بڑی وجہ شیخ رشید جیسے لوگ ہیں، آپ انٹر نیٹ پر جائیں اور ننکانہ صاحب میں شیخ رشید کی تقریر سنیں، آپ حیران رہ جائیں گے کیونکہ شیخ صاحب نے تقریر نہیں فرمائی انھوں نے سیدھی سادی گالیاں دیں۔
انھوں نے تقریر میں کمینے تک کا لفظ استعمال کیا، دنیا میں سیاست اختلافات کا کھیل ہوتی ہے، لوگ سیاست میں دوسرے سے اختلاف بھی کرتے ہیں اور مذمت بھی لیکن اس پیشے، اس شعبے میں کسی کو گالی نہیں دی جاتی، عمران خان کی 92 دن کی تحریک میں بدقسمتی سے یہ کام روزانہ ہوتا ہے، عمران خا ن نے ناشائستگی کا سلسلہ اوئے نواز شریف سے شروع کیا تھا لیکن بات اب کمینے تک پہنچ گئی ہے، ہم نے اگر اس سلسلے کو یہاں نہ روکا تو وہ وقت دور نہیں جب سیاسی جماعتوں کے اسٹیج سے ماں بہن کی گالیاں دی جائیں گی اور پوری قوم ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر ان گالیوں پر تالیاں بجائے گی۔
ہم اس ملک کے شہری ہیں جس میں ایک ایسا دور بھی گزرا جب ہمارے لیڈر مہاتما گاندھی کو بھی گاندھی جی اور پنڈت جواہر لال نہرو کو نہرو جی اور پنڈت جی کہتے تھے، میں آپ کو پاکستان کی تاریخ کا بدترین دور یاد دلاتا ہوں، 1971ء میں پاکستان ٹوٹا، جنرل یحییٰ خان پر ملک توڑنے کا الزام لگ گیا، عوام نے اس وقت جنرل یحییٰ خان کے ساتھ ایک نامناسب لفظ جوڑ دیا، ذوالفقار علی بھٹو اور ملک کی مذہبی جماعتیں جنرل یحییٰ خان کے خلاف تھیں لیکن عوام نے جب یہ نعرے لگانے شروع کیے تو بھٹو صاحب سمیت ملک کے تمام رہنماؤں نے اس کی شدید مذمت کی، سیاسی جلسوں میں جب یحییٰ خان کے ساتھ وہ لفظ جوڑ کر نعرے لگائے جاتے تھے تو سیاسی رہنما تقریریں ادھوری چھوڑ کر اسٹیج سے اتر جاتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھٹو کے خلاف بھی یہ نعرہ لگایا گیا، جنرل ضیاء الحق نے حکومتی سطح پر نہ صرف اس نعرے کی مذمت کی بلکہ بیورو کریسی کو حکم دیا " آپ یہ نعرہ زبردستی رکوائیں " بھارت میں آج بی جے پی جیسی متعصب سیاسی جماعت اور نریندر مودی کی حکومت ہے لیکن نریندر مودی ہوں، ان کے وزراء ہوں یا پھر ان کے اینکرز ہوں وہ میاں نواز شریف کو نواز جی اور شریف صاحب کہتے ہیں جب کہ ہماری ارض پاک پر وزیراعظم کو اوئے نواز شریف اور کمی کمین کہا جا رہا ہے اور ہم یہ گالیاں ٹیلی ویژن پر لائیو دکھا رہے ہیں۔
میاں نواز شریف پر لگائے جانے والے تمام الزامات درست ہو سکتے ہیں لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے قائدین پوری قوم کے سامنے میاں نواز شریف کو برا بھلا کہیں یا شیخ رشید پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے پارلیمنٹ میں بیٹھنا حرام قرار دے دیں یا دوسروں کو کمی، کمین اور کمینہ کہنا شروع کر دیں؟ کیا ہم اس سیاست کو سیاست اور سیاست سے جنم لینے والے اس پاکستان کو نیا پاکستان مان سکیں گے؟ میری شاہ محمود قریشی اور محمود الرشید جیسے سینئر لوگوں سے درخواست ہے آپ عمران خان اور شیخ رشید کو سمجھائیں، یہ دونوں غلط روش اختیار کر رہے ہیں اور اس کا نتیجہ کسی صورت ٹھیک نہیں نکلے گا۔
مجھے واٹس ایپ، وائبر اور ای میل کے ذریعے روزانہ دو، دو، تین تین سال کے معصوم بچوں کے کلپس موصول ہوتے ہیں، یہ کلپس بچوں کے والدین بناتے ہیں، کلپس میں معصوم بچوں سے گو نواز گو کے نعرے لگوائے جاتے ہیں اور پھر ان کے منہ سے گالیاں ریکارڈ کی جاتی ہیں، گالیوں کی آوازوں کے ساتھ والدین کی ہنسی بھی شامل ہوتی ہے، سوال یہ ہے ہمارے والدین اپنے معصوم بچوں کو کیا ٹریننگ دے رہے ہیں؟
کیا دو تین سال کی عمر میں گالی سیکھنے والا بچہ بڑا ہو کر ملک کا مفید شہری بن سکے گا؟ کیا عمران خان، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین اپنے بچوں اور اپنے پوتے پوتیوں اور نواسوں، نواسیوں کے منہ سے ایسی گالیاں سننا پسند کریں گے؟ کیا یہ چاہیں گے ان کی اولاد بھی یہ گالیاں سیکھے اور یہ لوگ ان کے سامنے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں؟ عمران خان سوشل میڈیا پر اپنے کارکنوں کی کارکردگی اور اخلاقیات بھی دیکھ لیں۔
مجھے یقین ہے یہ اپنے ورکروں کی یہ کارکردگی ایک منٹ برداشت نہیں کر سکیں گے، میرے پروگرام میں ایک دن وقفے کے دوران پی ٹی آئی کے ایک لیڈر نے اپنا موبائل آن کیا تو وہ پی ٹی آئی کے ورکروں کی طرف سے غلیظ گالیاں پڑھ کر پریشان ہو گئے، ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، ان کا قصور یہ تھا، وہ اعتدال کے دائرے میں رہ کر گفتگو کررہے تھے اور ورکروں کو ان کا یہ اعتدال گراں گزر رہا تھا، میں نے ان سے اظہار ہمدردی کے بعد عرض کیا "جناب یہ گالیاں نہیں ہیں، یہ ان گالیوں کی بازگشت ہے جو آپ کے ورکروں کی طرف سے ہم جیسے لوگوں کو دی جاتی تھیں اور آپ تالیاں بجاتے تھے۔
یہ گالیاں آج آپ کے کانوں تک بھی پہنچ رہی ہیں، آپ اب اپنی بنائی ہوئی دھنیں انجوائے کریں " میری پی ٹی آئی کی لیڈر شپ سے درخواست ہے آپ شیخ رشید جیسے فنکاروں کو روکیں، آپ نے اگر ان کی زبان کنٹرول نہ کی تو بدکلامی کا یہ سیلاب معاشرے کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی بہا لے جائے گا، لیڈر عوام کی کردار سازی کیا کرتے ہیں، آپ عوام کا کردار بنا نہیں سکتے تو کم از کم آپ اسے برباد نہ کریں، میری سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ سے بھی درخواست ہے، آپ بھی عوامی تقریروں اور ان کی لائیو کوریج کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق بنائیں، اسپیکرقومی اسمبلی بھی شیخ رشید کے فرمودات کا نوٹس لیں، یہ ان کے خلاف کارروائی کریں۔
ننکانہ صاحب کے جلسے کی دوسری خوبصورتی عمران خان کی طرف سے مریم نواز شریف کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی تعریف تھی، لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے 11 نومبر کو مریم نواز شریف کی تعیناتی کو غیر آئینی قرار دے دیا، وزیراعظم نے اپنی صاحبزادی کو22نومبر 2013ء کو وزیراعظم یوتھ لون اسکیم کی چیئرپرسن تعینات کیا تھا، عمران خان نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی کھل کر تعریف کی، ننکانہ صاحب کے جلسے کے دو گھنٹے بعد اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان سمیت 28 لوگوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔
خان صاحب ننکانہ صاحب سے سیدھے کنٹینر پر آئے اور عدالت کے اس فیصلے کو حکومتی سازش قرار دے دیا، یہ گرفتاری دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، سوال یہ ہے، اگر عدالت کا ایک فیصلہ عظیم ہے تو دوسرا فیصلہ کیسے غلط ہو گیا؟ آپ اگر ملک کو نیا ملک بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اس قائداعظم کی طرح قانون کے تمام فیصلے ماننا ہوں گے جنہوں نے سائیکل پر بتی نہ لگانے پر مسلمان طالب علموں کو ڈانٹ دیا تھا۔
ہم اگر عدالتی فیصلوں کو میرا فیصلہ اورتیرا فیصلہ میں تقسیم کرتے رہے تو پھر نیا پاکستان پرانے پاکستان سے کہیں زیادہ بدتر ہو گا، لوگ نئے پاکستان کے فیصلوں کو مفادات کی بنیاد پر اچھا اور برا قرار دیں گے، میری آپ سے درخواست ہے آپ اپنی طرز فکر میں تبدیلی لائیں ورنہ عوام شیخ رشید کے نئے پاکستان میں آباد ہونے سے افغانستان میں نقل مکانی کو فوقیت دیں گے اور یہ آج کے المیوں سے بڑا المیہ ہو گا۔