"ہمارے بچے شہید ہو گئے اور آپ نے شادی کر لی" خاتون رو رہی تھی، گریہ و زاری کر رہی تھی، دہائی دے رہی تھی اور عمران خان گنگ کھڑے تھے۔یہ منظر یقینا ًآپ نے بھی دیکھا ہو گا، کل ٹیلی ویژن اسکرینوں نے ایسے بے شمار مناظر پیش کیے۔ ہر منظر رو رہا تھا، ہر کلپ چیخ رہا تھا اور ہر پیکیج میں آہیں، سسکیاں اور دہائیاں تھیں۔
عمران خان بدھ 14 جنوری کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے دورے پر گئے، خان صاحب کی دوسری بیگم بھی ان کے ساتھ تھیں۔یہ لوگ اسکول کے سامنے پہنچے تو شہید بچوں کے لواحقین سڑک پر لیٹ گئے، عمران خان کا قافلہ رک گیا۔لوگ "گو عمران گو" کے نعرے لگا رہے تھے۔پولیس نے لوگوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی مگر لوگ قابو نہ آئے۔عمران خان گاڑی سے باہر آئے تو لوگوں نے انھیں بھی گھیر لیا، جہانگیر ترین اپنے قائد کے ساتھ کھڑے رہے ،لیکن جب انھوں نے لوگوں کو اشتعال میں دیکھا تو یہ واپس بلٹ پروف گاڑی میں چلے گئے، وزیراعلیٰ پرویز خٹک گاڑی کی چھت کھول کر بحران حل کرنے کی کوشش کرتے رہے ،لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہو سکے۔
پولیس، سول انتظامیہ اور ایف سی کے جوانوں نے بھی ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی مگر وہ بھی بے بس ہو گئے۔عمران خان کو بڑی مشکل سے اسکول کے اندر پہنچایا گیا۔ سوال یہ ہے لوگ احتجاج کیوں کر رہے تھے، لوگ اپنے محبوب قائد کو برا بھلا کیوں کہہ رہے تھے؟ اس کیوں کا تجزیہ بہت ضروری ہے۔
دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پر 16 دسمبر 2014ء کو حملہ کیا، حملے میں 145 لوگ شہید ہوگئے ،جن میں 132 بچے شامل تھے، 65 زخمی بچے مجروح چہروں کے ساتھ آج بھی ریاست کا راستہ دیکھ رہے ہیں۔صوبائی حکومت ہو یا وفاقی حکومت کسی نے ان 65 بچوں کی کاسمیٹک سرجری کا بندوبست نہیں کیا، یہ پاکستان کی تاریخ کا خوفناک ترین جب کہ دنیا کا اس نوعیت کا دوسرا بڑا واقعہ تھا۔ پوری دنیا اس بربریت پر سوگ میں چلی گئی۔ قوم بھی پوری بہادری کے باوجود ابھی تک صدمے سے باہر نہیں آئی، لوگ آج بھی بچوں کو اسکول بھجواتے وقت گھبراتے ہیں۔
حکومت نے 26 دنوں کے وقفے کے بعد 12 جنوری کو اسکول کھولے، آرمی پبلک اسکول بھی دوبارہ کھل گیا۔قوم کا خیال تھا اسکول کے پہلے دن وزیراعظم میاں نواز شریف، وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور عمران خان تینوں گیٹ پر کھڑے ہوں گے، یہ اپنے ہاتھوں سے اسکول کا گیٹ کھولیں گے، یہ بچوں کا استقبال کریں گے ۔لیکن قوم یہ دیکھ کر حیران رہ گئی،12 جنوری کو صرف آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنی اہلیہ کے ساتھ اسکول میں موجود تھے، یہ بچوں سے ہاتھ ملا کر انھیں اسکول میں خوش آمدید کہہ رہے تھے۔
انھوں نے بچوں کے ساتھ مل کر قومی ترانہ بھی پڑھا اور جھنڈے کو سلام بھی پیش کیا۔ جب کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا، عمران خان اور وزیراعظم میاں نواز شریف تینوں غائب تھے۔یہ بے حسی 16 دسمبر کے واقعہ سے بڑا سانحہ تھی۔قوم حکمرانوں کے اس رویے پر تڑپ کر رہ گئی، قوم شاید یہ بے حسی بھی برداشت کر جاتی ۔لیکن 16 دسمبر سے 12 جنوری تک 26 دنوں کے درمیان چار ایسے واقعات پیش آئے ،جنہوں نے قوم کی حساسیت میں اضافہ کر دیا۔یہ چاروں واقعات آنے والے کئی ماہ تک قوم کی نفسیات میں رہیں گے۔
پہلا واقعہ 21 ویں ترمیم تھی، حکومت کوشش کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں کو 21 ویں ترمیم پر اکٹھا نہ کر سکی، عمران خان کا صوبہ دس سال سے دہشت گردی کا مرکز ہے۔ لیکن جب پالیسی بنانے کا وقت آیا ،تو عمران خان 21 ویں ترمیم کی حمایت کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس نہیں گئے۔عمران خان اگر ایک دن کے لیے اپنے تمام ارکان کے ساتھ قومی اسمبلی چلے جاتے، یہ 21 ویں ترمیم پر ووٹ دے کر ایوان کا دوبارہ بائیکاٹ کر دیتے تو ان کی نیک نامی میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا۔
قوم بالخصوص خیبر پختونخوا کے لوگوں کے دلوں میں ان کا احترام بڑھ جاتا لیکن یہ 21 ویں ترمیم کے لیے بھی قومی اسمبلی نہیں گئے۔جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف نے بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔مولانا فضل الرحمن نے نہ صرف کھل کر ترمیم کی مخالفت کی بلکہ انھوں نے یہ بھی فرما دیا "شکر ہے اللہ نے ہمیں اس گناہ سے محفوظ رکھا" جے یو آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان بھی بیان بازی شروع ہو گئی۔
ان سیاسی اختلافات نے قوم کی حساسیت میں اضافہ کر دیا۔ دوسرا واقعہ عمران خان کی شادی تھی، شادی کرنا عمران خان کا حق ہے اور دنیا کا کوئی قانون، کوئی قاعدہ ان سے یہ حق نہیں چھین سکتا مگر عمران خان نے اس حق کے لیے بھی غلط دنوں کا انتخاب کیا۔پشاور کے شہید بچوں کی قبروں کی مٹی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی اور زخمیوں کی ابھی پٹیاں بھی نہیں اُتری تھیں کہ عمران خان نے 8 جنوری کو شادی کر لی۔
میڈیا نے بھی اس شادی کو غیر ضروری کوریج دی اور وہ پی ٹی آئی بھی جس کو سانحہ پشاور کے بعد سوگ میں ہونا چاہیے تھا ،وہ مبارک باد کے ڈھول پیٹنے لگی۔ آپ خود سوچئیے اگر مبارک دینے والوں کے اپنے بچے پشاور کے واقعہ میں شہید ہوئے ہوتے تو کیا یہ لوگ شادی کرتے یا یہ مبارک باد کے ڈھول بجاتے؟ عمران خان سے دن کے انتخاب میں غلطی ہوئی، یہ اگر دو تین ماہ رک جاتے تو زیاہ بہتر تھا، اگر کوئی مجبوری تھی تو بھی خان صاحب کو فوٹو سیشن نہیں کرانے چاہیے تھے۔یہ فوٹو سیشن بھی عوام کے دل پر لگے۔ تیسرا واقعہ بین الاقوامی تھا، پیرس میں دو فرانسیسی مسلمانوں نے 7 جنوری کو میگزین "چارلی ایبڈو" پر حملہ کر دیا اور 14 لوگوں کو گولی مار دی، چارلی ایبڈو غیر سنجیدہ مزاحیہ ہفت روزہ ہے۔
اخبار کی سرکولیشن بھی کم ہے اور لوگ بھی اسے سیریس نہیں لیتے، یہ مالیاتی خسارے کا شکار بھی تھا۔ انتظامیہ نے جریدے کو فروری میں بند کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا، ہفت روزے کی انتظامیہ شرارتی ذہنیت کی مالک تھی۔ یہ لوگ مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لیے جریدے میں نبی اکرمؐ کے خاکے شائع کرتے رہتے تھے۔ مسلمانوں نے اس گستاخی پر بار بار احتجاج کیا لیکن یہ لوگ باز آئے اور نہ ہی حکومت نے نوٹس لیا۔
جریدے کی انتظامیہ نے اخبار بند ہونے سے قبل آخری بار مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کا فیصلہ کیا۔یہ لوگ نبی اکرمؐ کے مزید خاکے شائع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ فرانس میں پیدا ہونے والے دو مسلمان بھائیوں شریف کواچی اورسعید کواچی کو اطلاع ملی تو انھوں نے 7 جنوری کو چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملہ کر دیا۔7 جنوری کے واقعہ میں اخبار کے 12 ورکر مارے گئے۔
دوسرا واقعہ پیرس کی ایک یہودی سپر مارکیٹ میں پیش آیا۔ احمد کولابیلی نے چار یہودیوں کو گولی مار دی اور پوری عمارت میں ڈائنامائیٹ لگا دیا، عمارت میں موجود ایک یہودی نے پولیس کی رہنمائی کی، 8 ہزار 8 سو پولیس اہلکاروں اور فوجی جوانوں نے عمارت کا گھیراؤ کیا اوراحمد کولابیلی کو گولی مار دی۔ ان دونوں واقعات میں پولیس کے ایک اہلکار سمیت 17 لوگ مارے گئے۔فرانس نے اس واقعہ کو قومی سوگ قرار دیا۔
پیرس میں 11 جنوری کو 16 لاکھ لوگوں نے یونٹی مارچ کیا۔دنیا کے 40 سربراہان اس مارچ میں شریک ہوئے۔ ان سربراہان میں ترکی، فلسطین، تیونس، مالی، نائیجر، الجزائر، اردن اور متحدہ عرب امارات کے مسلمان سربراہان اور نمایندے بھی شامل تھے۔ فرانس کے اس واقعہ کے بعد نہ صرف پوری ریاست مرنے والوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی ،بلکہ یورپی یونین اور آدھی دنیا نے بھی فرانس کے کندھے سے کندھا جوڑ لیا، فرانس سمیت پوری مغربی دنیا جانتی ہے۔
مسلمان اپنے رسولؐ کی توہین برداشت نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود چارلی ایبڈو نے کل ایک بار پھر ٹائیٹل پر توہین آمیز خاکہ شائع کیا، یہ توہین آمیز میگزین 30 لاکھ کی تعداد میں چھ زبانوں میں چھاپا گیا اور پوری دنیا میں بھجوایا گیا۔ حکومت نے میگزین کی انتظامیہ کو روکنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی، فرانس کے اس اقدام کی وجہ سے پوری اسلامی دنیا میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔فرنچ حکومت کو اربوں ڈالر کا نقصان بھی ہو گا لیکن یہ اس کے باوجود اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
پاکستانی قوم نے یہ یونٹی مارچ اپنی اسکرینوں پر دیکھا اور اس کے بعد اپنے سیاستدانوں سے سوال کیا۔ ہمارے ملک میں 60 ہزار لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں؟ اسکول کے 132 بچے 16 دسمبر کو گولیوں سے بھون دیے گئے لیکن ہم دنیا کو ساتھ کھڑا کرنا تو دور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا نہیں کر سکے۔ہم آج بھی تقسیم ہیں، ہم آج بھی ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔
کیوں؟ قوم کو یہ شکوہ بھی تھا ہم نے 60 ہزار لوگوں کے مرنے کے بعد بھی ملک میں کوئی یونٹی مارچ نہیں کیا۔عمران خان حکومت گرانے کے لیے تو مارچ کرتے ہیں مگر یہ عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے باہر نہیں نکلتے۔ کیوں؟ اس سوال نے بھی قوم کی حساسیت میں اضافہ کر دیا اور چوتھی وجہ قوم کا خیال تھا 16 دسمبر کے واقعہ کے بعد میاں نواز شریف اور عمران خان اپنے اختلافات بھلا دیں گے۔
حکومت جوڈیشل کمیشن بنا دے گی اور عمران خان احتجاجی سیاست ترک کر دیں گے لیکن دونوں جماعتوں نے 16 دسمبر کے واقعہ کو سانحے کی بجائے سیاسی موقع جانا۔حکومت نے جوڈیشل کمیشن نہ بنایا اور عمران خان نے 13 جنوری کو دوبارہ احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا اور یوں سانحہ پشاور کو ابھی مہینہ نہیں گزرا تھا کہ ٹیلی ویژن اسکرینوں پر دوبارہ سیاسی بک بک شروع ہو گئی۔ لوگوں کی حساسیت بڑھانے میں اس واقعہ نے بھی تیل کا کام کیا۔
ہمیں آج ماننا پڑے گا ہمارے سیاست دان ابھی اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر نہیں ہوئے، یہ آج بھی زمانہ قبل مسیح میں زندہ ہیں، یہ آج بھی معاملات کو سمیٹنے کے بجائے پھیلاتے جا رہے ہیں، میرا خیال ہے سیاستدانوں بالخصوص میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن نے اگر حالات کی نزاکت کو نہ سمجھا۔یہ اگر ذاتی مفادات اور تاخیری حربوں سے باہر نہ نکلے تو اس ملک میں ان لوگوں کے لیے زندگی مشکل ہو جائے گی۔ یہ لوگ ملک کے کسی بھی شہر میں نکلیں گے تو لوگ گو گو کے نعرے لگاتے ہوئے سامنے کھڑے ہو جائیں گے، میرے دوست پرویز رشید عمران خان کے ساتھ اس عوامی سلوک پر خوش ہیں۔
پرویز صاحب کو زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ لوگ پشاور میں صرف گو عمران گو کے نعرے نہیں لگا رہے تھے، وہ گو نواز گو بھی کہہ رہے تھے اور مجھے خطرہ ہے میاں نواز شریف جس دن آرمی پبلک اسکول جائیں گے لوگ ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کریں گے، شہداء پشاور کے معاملے میں دونوں کا رویہ یکساں تھا۔ عمران خان آرمی پبلک اسکول کے بچوں کے لیے میاں عمران خان اور میاں نواز شریف کپتان نواز شریف خان ثابت ہوئے، عوام کی نظر میں دونوں میں کوئی فرق نہیں۔