Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Military Courts

Military Courts

ایک اور بات ہم اگر یہ سمجھتے ہیں یہ مسئلہ ملٹری کورٹس سے حل ہو جائے گا تو یہ ہماری غلط فہمی ہے، ہم ملک میں کتنی ملٹری کورٹس بنا لیں گے؟ یہ ملٹری کورٹس کتنے مقدمے سن لیں گی اور یہ ملٹری کورٹس کتنے لوگوں کو پھانسی دے لیں گی؟ دنیا میں جب تک خرابی اور بیماری کی سپلائی بند نہیں ہوتی مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوا کرتے، دہشت گرد، دہشت گردی اور قتل اس بیماری کی صرف علامتیں ہیں جو ہماری رگوں، ہمارے جسم کے خلیوں کے اندر موجود ہے۔

ہم جب تک اپنے خلیوں کا علاج نہیں کریں گے، ہم جب تک بیماری کو جڑوں سے نہیں نکالیں گے یہ علامتیں بھی اس وقت تک قائم رہیں گی اور قوم بھی اس وقت تک ملٹری کورٹس کے سامنے بیٹھی رہے گی، اب سوال یہ ہے ہماری بیماری ہے کیا؟ ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ ہمارا مسئلہ ہماری شدت پسندی ہے، ہم لوگ اپنے رویوں میں سخت اور متشدد ہیں، ہم میں یہ سختی اور یہ شدت ایک طویل معاشرتی عمل کے ذریعے آئی، ہم جب تک اس عمل کو نہیں سمجھیں گے، ہم اس وقت تک شدت پسندی پر قابو نہیں پا سکیں گے اور ہم میں جب تک شدت پسندی کے یہ جینز زندہ رہیں گے ہمارا مسئلہ بھی اس وقت تک جوں کا توں رہے گا۔

آئیے ہم اب اس شدت پسندی کی وجوہات تلاش کرتے ہیں، ہماری شدت پسندی کی پانچ بڑی وجوہات ہیں، پہلی وجہ مذہب ہے، اسلام دنیا کا جدید ترین اور موسٹ ماڈرن مذہب تھا (یہ آج بھی ہے) لیکن ہم نے اسے قدیم ترین مذاہب کے برابر لا کھڑا کیا، کیسے؟ آپ وجہ ملاحظہ کیجیے، ہمارے مذہب میں سو شاندار ترین روایات ہیں، ان سو روایات میں سے ایک روایت ظلم کے خلاف جہاد ہے، دنیا کا کوئی مذہب لڑنے کا حکم نہیں دیتا، یہ صرف اسلام کا اعزاز تھا کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ظلم کے خلاف اٹھنے، لڑنے، مرنے اور مارنے کا حکم دیتا ہے لیکن یہ حکم باقی ننانوے روایات کے ساتھ منسلک تھا، ہم جب تک باقی ننانوے روایات (احکامات) کو نہیں مانتے، ہم جب تک ان پر عمل نہیں کرتے ہم پر اس وقت تک یہ حکم لاگو نہیں ہوتا لیکن 1980ء میں بدقسمتی سے امریکا کو افغانستان میں ہماری ضرورت پڑ گئی، اس نے اس وقت ایک امریکی اسلام وضع کیا، ہمارے حکمرانوں کو ترغیب دی اور ہم نے ملک میں امریکی اسلام نافذ کر دیا۔

یہ اسلام صرف ایک حکم پر مبنی تھا اور وہ "حکم" تھا سوویت یونین کے خلاف لڑنا، مارنا اور مرنا عین فرض ہے، ہم نے اس دور میں اسلام کی ننانوے شاندار ترین روایات کو اس سے الگ کیا اور اس "حکم" کو پورا مذہب بنا دیا اور آپ جب بھی چار پہیوں کی گاڑی کو ایک پہیے پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں، اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو آگے چل کر ہمارے ملک میں نکلا، آپ آج ملک میں نفاذ شریعت کا مطالبہ کرنے والے لوگوں کی تقریروں اور تحریروں کا مطالعہ کریں آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ اسلامی سزاؤں کو شریعت سمجھتے ہیں، یہ قاتلوں کی گردنیں اتارنے، چوروں کے ہاتھ کاٹنے اور زنا کاروں کو سنگسار کرنے کو پورا مذہب سمجھتے ہیں، آپ ان سے پوچھیں کیا اسلام صرف یہ ہے؟ سزائیں کسی بھی مذہب، کسی بھی معاشرے کا صرف ایک جزو ہوتی ہیں۔

یہ کبھی کُل نہیں ہوتی لیکن ہم نے سزاؤں کو کُل مذہب بنا دیا ہے اور یہ اس امریکی اسلام کا نتیجہ ہے جسے ہمارے حکمرانوں نے ذاتی مفاد کے لیے ملک میں نافذ کیا، ہم جب تک اسلام کی باقی ننانوے روایات واپس نہیں لائیں گے، ہم جب تک قوم کو یہ نہیں بتائیں گے گاڑی ایک پہیے پر نہیں چل سکتی ہمارے اندر اس وقت تک شدت پسندی کے جینز موجود رہیں گے، نبی اکرمؐ کی عمر مبارک 63 سال تھی، تبلیغ کا عرصہ 23 برس تھا، آپؐ نے 23 اور 40 برسوں میں صرف چند مرتبہ حدود جاری کیں جب کہ اسوہ حسنہ 63 سال پر مبنی تھا، آپؐ کی جہادی زندگی کا نوے فیصد حصہ دفاع پر مبنی تھا، دس فیصد حصے میں حملہ آوروں کا پیچھا اور وعدہ خلافوں سے نبٹنا شامل تھا لیکن ہم نے اسوہ حسنہ کو فراموش کر دیا اور تلوار اٹھا لی، ہم جب تک اس ننانوے فیصد اسلام کو معاشرے میں زندہ نہیں کریں گے ہم اس وقت تک شدت پسندی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔

ہماری شدت پسندی کی دوسری وجہ فرقہ واریت ہے، ہم فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور ہر فرقہ خود کو مسلمان اور دوسرے کو کافر سمجھتا ہے، یہ فرقے صرف فرقے نہیں ہیں، یہ انڈسٹری ہیں اور یہ انڈسٹری ہمارے دشمنوں، ہماری صفوں میں چھپے مفاد پرستوں اور چند نا سمجھ مذہبی اسکالروں نے پیدا کی، یہ فرقے صرف فرقوں تک محدود رہتے تو بھی اتنے خوفناک ثابت نہ ہوتے لیکن ہر فرقے نے اپنی اپنی تقریبات، جلوس اور مظاہرے بھی شروع کر دیے ہیں اور ان تقریبات کو بدقسمتی سے احکامات الٰہی سے زیادہ سماجی سپورٹ مل گئی، ہم جب تک فرقہ واریت کو ختم نہیں کریں گے، ہمارے اندر اس وقت تک شدت پسندی کے جینز موجود رہیں گے۔

ریاست کو سب سے پہلے فرقہ واریت پر مبنی تقریبات کو محدود کرنا ہوگا، مذہبی جلوسوں اور اجتماعات کو محدود کرنا ہو گا اور اس کے بعد فرقے کی عوامی شناخت ختم کرنا ہو گی، ہم صرف مسلمان ہیں، ہم میں سے جوشخص اپنی شناخت شیعہ مسلمان، وہابی مسلمان، اہلحدیث مسلمان اور بریلوی مسلمان کی حیثیت سے کروائے اس کے لیے کڑی سزا ہونی چاہیے، ہم جب تک یہ فیصلہ نہیں کریں گے ہم اس وقت تک بحران سے باہر نہیں نکل سکیں گے، ہماری شدت پسندی کی تیسری وجہ سیاسی جماعتیں ہیں، ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے ملٹری ونگز قائم کر رکھے ہیں، یہ ونگز مافیا کی طرح کام کرتے ہیں، یہ اغواء بھی کرتے ہیں، تاوان بھی وصول کرتے ہیں، قتل بھی کرتے ہیں اور قبضے بھی کرتے ہیں، یہ لوگ اس کام کے لیے نسل کو بھی استعمال کرتے ہیں، زبان کو بھی، صوبے کو بھی اور ثقافت کو بھی، یہ مافیاز پاکستان کو پاکستان اور پاکستانیوں کو پاکستانی نہیں بننے دے رہے۔

آپ کو یہ خرابی ماننا بھی ہو گی اور اس کا تدارک بھی کرنا ہو گا، حقیقت تو یہ ہے قوم کے موجودہ اتحاد کے دوران بھی یہ مسائل موجود تھے، ایم کیو ایم اکیسویں ترمیم کو صرف مذہبی جماعتوں اور مدارس تک محدود رکھنا چاہتی تھی جب کہ مولانا فضل الرحمن سیاسی جماعتوں کے ملٹری ونگز کو بھی اس میں شامل کرنا چاہتے تھے چنانچہ فوجی قیادت کی موجودگی میں ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تاہم ریاست نے آخر میں ایم کیو ایم کا مطالبہ مان لیا اور یوں مولانا فضل الرحمن باہر ہو گئے اور یہ 21 ویں ترمیم کا پہلا سیاسی سمجھوتہ تھا، آپ خود فیصلہ کیجیے ملک میں جب فرقے کی بنیاد پر قتل کرنے والے لوگوں کے مقدمے ملٹری کورٹس میں چلیں گے جب کہ کسی سیاسی جماعت کا ملٹری ونگ اگر سو لوگ بھی ماردے۔

ریاست اس کا مقدمہ عام عدالتوں میں لے کر جائے گی تو کیا ہم ملک میں امن قائم کر سکیں گے، دہشت گرد کو صرف دہشتگرد ہونا چاہیے تھا، یہ مذہبی دہشت گرد اور سیاسی دہشت گرد میں تقسیم نہیں ہونا چاہیے تھا مگر حکومت نے اسے تقسیم کر دیا، ہم اب دو لوگوں کے قاتل کو سزائے موت دے دیں گے لیکن اڑھائی اڑھائی سو لوگوں کے ٹارگٹ کلرز جیلوں میں فائیو اسٹار سہولتیں انجوائے کریں گے، کیا ہمیں یہ منافقت ایک نئے بحران کی طرف نہیں لے جائے گی؟ کیا ہم اس صورتحال میں شدت پسندی کے جینز کو مار سکیں گے، ہماری شدت پسندی کی چوتھی وجہ بے روزگاری اور تربیت کی کمی ہے، دنیا میں تعلیم صرف تعلیم نہیں ہوتی یہ تعلیم و تربیت ہوتی ہے جب کہ ہم صرف تعلیم کو فوکس کرکے بیٹھے ہیں۔

ہم نے تربیت کے عنصر کو وجود سے باہر نکال دیا، ہمارا تعلیمی نظام بھی اکتسابی زیادہ ہے اور عملی کم، ہم ہر سال لاکھوں بے ہنر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ پیدا کر دیتے ہیں، آپ انسانوں کا تھوڑا سا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ جانتے دیر نہیں لگے گی بے تربیت، بے ہنر تعلیم یافتہ شخص معاشرے کے لیے موت ثابت ہوتا ہے، ہماری ریاست جب تک تعلیم و تربیت کو تربیت و تعلیم نہیں بناتی اور یہ جب تک تعلیم کو ہنر اور ہنر کو روزگار کے ساتھ نتھی نہیں کرتی، ہمارا مسئلہ اس وقت تک قائم رہے گا، آپ تربیت کا باقاعدہ سلیبس تیار کریں اور اسکولوں کے پہلے تین سال تربیتی رکھیں، تعلیم چوتھے سال سے شروع ہونی چاہیے اور یونیورسٹیوں کو دس سال تک صرف پریکٹیکل علوم کے لیے وقف کر دینا چاہیے۔

یونیورسٹیوں سے صرف اعلیٰ ہنر مند باہر نکل سکیں اور یہ ہنر مند بھی برسر روزگار ہوں اور ہماری شدت کی پانچویں وجہ تفریح کی کمی ہے، ہمارے ملک میں اسپورٹس، لائبریریاں، فلم، میوزک اور چائے خانے ختم ہو چکے ہیں، یہ پانچ چیزیں جہاں بھی ختم ہوتی ہیں وہاں جنگیں شروع ہو جاتی ہیں یا پھر جہاں جنگیں شروع ہوتی ہیں وہاں سے یہ پانچوں چیزیں نقل مکانی کر جاتی ہیں، ہم جب تک انھیں واپس نہیں لائیں گے ہمیں اس وقت تک ملٹری کورٹس کے عہد میں زندگی گزارنا پڑے گی۔

میری ریاست سے درخواست ہے، ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اے پی سی میں 20 نقطوں پر اتفاق کیا، ہم نے ان 20 نقطوں میں سے صرف ملٹری کورٹس کے ایک نقطے کو عملی شکل دے دی لیکن 19 نقطے خاموش بیٹھے ہیں، یہ 19 نقطے پائپ ہیں اور ملٹری کورٹس اس پائپ کا آخری سرا۔ ہم جب تک پائپ کو ٹھیک نہیں کریں گے ہمارا آخری سرا ٹھیک نہیں ہو گا، آپ ان 19 نقاط پر بھی اتنی ہی جلدی اور اتنی ہی قوت سے عمل کریں گے جتنی جلدی آپ نے ملٹری کورٹس بنائیں تو مسئلہ حل ہو گا بصورت دیگر ملٹری کورٹس بنتی رہیں گی، پھانسیاں ہوتی رہیں گی اور دہشت گردوں کے نئے لشکر پیدا ہوتے رہیں گے، ہم پہلے بھی مر رہے تھے، ہم بعد میں بھی مریں گے، بس پہلے زمانے اور دوسرے زمانے میں ایک فرق ہو گا، پہلے زمانے میں عام عدالتیں تماشہ دیکھتی تھیں اور دوسرے زمانے میں ملٹری کورٹس بھی تماشے میں شامل ہو جائیں گی۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.