Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mont Blanc

Mont Blanc

ہم رات کے دس بجے شامونی پہنچے، تیز برفباری ہو رہی تھی، سڑکوں پر تین تین فٹ برف پڑی تھی، درخت، گاڑیاں، مکانوں کی چھتیں، گلیاں، بازار، سائن بورڈز اور انسان سب سفید برف میں دفن تھے، شہر میں ہوکا عالم تھا، اسٹریٹ لائٹس تک ٹھٹھری اور سہمی ہوئی تھیں، گاڑیاں سفید قبریں محسوس ہورہی تھیں، دنیا میں دس ہزار مناظر ہیں اور ان میں سے ہر منظر آپ کی توجہ کھینچ لیتا ہے، آپ اسے دیکھ کر مبہوت ہو جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ اگر دنیا میں کوئی نبی نہ بھیجتا تو بھی کائنات میں بکھرے مناظر اس کی کبریائی، اس کی موجودگی اور اس کے خالق ہونے کے یقین کے لیے کافی تھے۔

آپ کسی روز رات کے پچھلے پہر جاگیں، اپنے گھر کی چھت پر بیٹھ جائیں اور مشرق کی طرف نظریں جما کر صبح کاذب کو صبح صادق میں اترتے دیکھیں، آپ خواہ کتنے ہی بڑے دہریے کیوں نہ ہو، آپ اللہ کے وجود کو بھی تسلیم کریں گے اور اس پر ایمان بھی لے آئیں گے، کائنات میں بکھرا ہوا ہر منظر اللہ کا پیغام ہے اور یہ پیغام آپ کو اس کے ہونے کا یقین دلاتا ہے لیکن برف میں گم صنوبر کے درختوں کا منظر ان تمام مناظر کا جوہر ہے، ان تمام مناظر کا جد امجد ہے، آپ تصور کیجیے، آپ پہاڑوں کے درمیان کھڑے ہوں، آپ کے چاروں اطراف بلندی سے لے کر سڑک تک صنوبر کے لاکھوں درختوں کے جنگل ہوں اور یہ جنگل آسمان سے لے کر زمین تک سفید نرم برف میں ملبوس ہوں، درختوں نے اپنے پورے وجود پر برف اوڑھ رکھی ہو، آپ کے دائیں بائیں۔

آگے پیچھے اور اوپر نیچے ہر طرف برف ہو اور آپ اس برفستان میں کھڑے سفید صنوبر کے جنگل دیکھ رہے ہوں تو آپ کیا محسوس کریں گے، شامونی اس وقت ایسا تھا، برف میں صنوبر کے جنگل، سڑکوں پر تین تین فٹ برف، گاڑیاں برف کی قبریں، مکانوں کی چھتیں سفید، راستے غائب، اسٹریٹ لائٹس ٹھٹھری ہوئی، سمٹی ہوئی، ندیاں نالے اور جھیلیں جمی ہوئیں اور آسمان سے برف کے برستے گالے، شامونی اس وقت جنت کا کوئی خاموش کونا محسوس ہوتا تھا، یورپ کی برفباری دنیا کے قیمتی ترین مناظر میں شمار ہوتی ہے اور ہم تین مسافر اس وقت اس منظر کا حصہ تھے، میں، شیخ مبشر اور ملک ضیغم، شامونی کائنات میں اس وقت صرف سانس لیتے نفوس تھے۔

ماؤنٹ بلینک ایک پہاڑی تکون ہے، یہ فرانس کا آخری حصہ ہے، اس کے ایک طرف سوئٹرز لینڈ ہے اور دوسری طرف اٹلی، جنیوا ماؤنٹ بلینک سے چند منٹ کی مسافت پر ہے، آپ ماؤنٹ بلینک جا رہے ہوں تو وادی میں داخل ہونے سے قبل ایک سڑک جنیوا جاتی ہے، جنیوا وہاں سے صرف سات کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اٹلی کے خوبصورت ٹاؤن ٹیورن کی طرف جانے والی سڑک بھی ماؤنٹ بلینک کے ایک کونے سے نکلتی ہے اور اطالوی حصے سے ہوتے ہوئے ٹیورن پہنچ جاتی ہے، میں 2009ء میں ٹیورن گیا تھا، ٹیورن میں آئی ایل او کا ٹریننگ سینٹر ہے، میں نے وہاں سے 2009ء میں چھوٹا سا کورس کیا، یہ شہر ماضی میں اٹلی کا دارالحکومت تھا، حضرت عیسیٰ ؑ کی لہو میں تر چادر ٹیورن میں موجود ہے، عیسائیوں کا عقیدہ ہے، حضرت عیسیٰ ؑکو جب صلیب سے اتارا گیا تو حضرت مریم ؑ نے اپنی چادر ان کے اوپر ڈال دی، چادر پر حضرت عیسیٰ ؑ کے لہو کے نشان لگ گئے، یہ چادر دو ہزار سال کا سفر طے کر کے ٹیورن پہنچ گئی۔

یہ اس وقت ٹیورن کیتھڈرل چرچ میں موجود ہے، میں واپس شامونی اور ماؤنٹ بلینک کی طرف آتا ہوں، ماؤنٹ بلینک کو انگریزی میں ماؤنٹ بلینک جب کہ فرنچ میں ماؤ بلاں کہا جاتا ہے، ماؤنٹ کا مطلب پہاڑ اور بلینک کے معنی سفید ہیں یعنی سفید پہاڑ، دنیا کے زیادہ تر لوگ ماؤنٹ بلینک یا ماؤ بلاں کو برانڈ سمجھتے ہیں، یہ درست ہے ماؤ بلاں کے پین، گھڑیاں اور پرفیوم دنیا بھر میں مشہور ہیں، ذوالفقار علی بھٹو ماؤ بلاں کا پین استعمال کرتے تھے۔

یہ پین چالیس ہزار روپے سے شروع ہوتا ہے اور 50 لاکھ روپے تک جاتا ہے، ماؤ بلاں کی گھڑیاں بھی بہت مہنگی ہوتی ہیں تاہم پرفیوم نسبتاً سستے ہیں، ہم میں سے زیادہ تر لوگ ماؤنٹ بلینک کو برانڈ سمجھتے ہیں جب کہ یہ پہاڑ اور اس کی وادی کا نام ہے، یہ فرانس کا بلند ترین اور دنیا کا گیارہواں اونچا پہاڑ ہے، شامونی سے اس کی اونچائی تین ہزار 8 سو 42 میٹر ہے، فٹ میں یہ بلندی 11 ہزار 5 سو 26فٹ بنتی ہے، ماؤنٹ بلینک پر گرمیوں میں بھی برف پڑتی رہتی ہے، یہ اس برف کی وجہ سے سفید پہاڑ کہلاتا ہے تاہم اپریل کے بعد شامونی اور اس کے گرد و نواح کا علاقہ سرسبز ہو جاتا ہے وادی میں درجنوں قسم کے پھول بھی کھلتے ہیں، یہ وادی اور یہ پہاڑ یورپ میں سردیوں کے کھیلوں کا سب سے بڑا مرکز ہے، دنیا بھر سے لوگ اسکیٹنگ کے لیے یہاں آتے ہیں اور دسمبر سے لے کر مئی تک یہاں ہوٹل نہیں ملتے۔

ہم پیرس سے ماؤنٹ بلینک کے لیے نکلے تو ہمارا خیال تھا ہم سات گھنٹے میں شامونی پہنچ جائیں گے لیکن راستے میں ٹریفک کے رش کی وجہ سے ہم نے یہ سفر گیارہ گھنٹوں میں طے کیا، ہم نے ہزاروں گاڑیاں شامونی کی طرف جاتی دیکھیں، تمام گاڑیوں کی چھتوں پر اسکیٹنگ کا سامان لدا تھا لیون کے قریب پہنچے تو برف باری شروع ہوئی اور شامونی تک جاری رہی، برفباری کا یہ سلسلہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات تک چلتا رہا، شامونی میں سیکڑوں ہوٹل ہیں، یہ بیس بیس، تیس تیس کمروں کے چھوٹے لیکن خوبصورت ہوٹل ہیں، ہمارے ہوٹل کی کھڑکی سے ماؤنٹ بلینک بھی دکھائی دیتا تھا اور شہر کا ایک بڑا حصہ بھی، میں ساری رات کھڑکی کے قریب بیٹھ کر برف باری دیکھتا رہا، آسمان سے روئی کے گالے اتر رہے تھے۔

یہ گالے جب اسٹریٹ لائٹ کے قریب پہنچتے تھے تو کرسٹل کی طرح چمکتے تھے اور ان کے وجود سے سات رنگ منعکس ہوتے تھے، چھتیں برف سے بھاری ہو رہی تھیں اور مکانوں کے سامنے کھڑی گاڑیاں برف میں گم ہو چکی تھیں، آپ گاڑیوں کو صرف اندازے سے گاڑیاں سمجھتے تھے، میں نے اگلے دن لوگوں کو بیلچوں سے برف کھود کر گاڑیاں نکالتے دیکھا، شامونی کی وہ رات میری زندگی کی یاد گار ترین رات تھی، شامونی کی برف تھی، خاموش شہر تھا، ہوٹل کی کھڑکی تھی، کھڑکی کے ایک کونے میں موم بتی تھی اور میں تھا اور دور دور تک پھیلا برفستان تھا، تاحد نظر سفیدا ہی سفیدا تھا، صبح کے وقت ماؤنٹ بلینک کی چوٹی پر آگ سی لگ گئی، میں نے زندگی میں پہلی بار برف کو سونے میں تبدیل ہوتے دیکھا، ماؤنٹ بلینک کی چوٹی پہلے سرخ ہوئی، پھر پیلی ہوئی اور پھر یہ پیلاہٹ آہستہ آہستہ وادی میں اترنے لگی، برف پیلی اور سرخ ہو گئی، وادی میں آگ لگ گئی، برفباری رک گئی۔

شامونی دو پہاڑوں کے درمیان لمبی پٹی کی طرح واقع ہے، یہ پٹی وادی کے ایک سرے سے شروع ہوتی ہے اور دوسرے سرے پر پہنچ کر پہاڑوں میں گم ہو جاتی ہے، شہر اس پٹی پر آباد ہے، درمیان سے پانی کا نالہ گزرتا ہے اور نالے پر بنے پل شہر کے دونوں حصوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں، آپ اگر اس پٹی پر سیدھے کھڑے ہوں تو آپ کے دائیں جانب پہاڑ پر اسکیٹنگ کے بڑے بڑے میدان ہیں، کھلاڑی اسکیٹنگ کا سامان لے کر پہاڑ کے دامن میں پہنچتے ہیں، حکومت نے وہاں کھلاڑیوں کے لیے چیئر لفٹ لگا رکھی ہے، کھلاڑی چیئر لفٹ کے ذریعے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے ہیں اور وہاں پاؤں پر اسکیٹنگ پیڈ باندھ کر پہاڑ کی اترائیوں پر اتر جاتے ہیں جب کہ آپ اگر بائیں دیکھیں تو آپ کو بائیں جانب دوسری لفٹ نظر آئے گی، یہ چیئر لفٹ ماؤنٹ بلینک کے نظارے کے لیے آنے والے سیاحوں کے لیے بنائی گئی ہے۔

آپ اس چیئر لفٹ کے ذریعے ماؤنٹ بلینک کی انتہائی چوٹی تک پہنچ سکتے ہیں، ہم بائیں جانب کی لفٹ پر چڑھ گئے، ماؤنٹ بلینک پر درجہ حرارت اس دن منفی 25 تھا، ہمارے کپڑے دیکھ کر کھڑکی میں کھڑی خاتون نے مشورہ دیا آپ لوگ اوپر نہ جائیں وہاں بہت سردی ہے اور آپ کے کپڑے زیادہ مناسب نہیں ہیں لیکن ہم نہ مانے، ہم نے ٹکٹ لیے اور لفٹ پر چڑھ گئے، لفٹ تین اسٹاپس پر رکتی ہوئی دس منٹ میں ٹاپ پر پہنچ گئی، لفٹ کیبن کی طرح تھی جس میں بیک وقت بیس پچیس لوگ سفر کر سکتے تھے، کیبن کے چاروں اطراف شیشہ لگا تھا اور آپ درمیان میں کھڑے ہو کر چاروں اطراف سے شامونی اور ماؤنٹ بلینک کو دیکھ سکتے تھے۔

دائیں بائیں یقینا جنگل تھے لیکن سو سو فٹ بلند درخت برف میں گم تھے، صرف ان کی چوٹیاں باہر تھیں، بلندی سے شہر چند آڑھی ترچھی لکیریں نظر آتا تھا، انتہائی بلندی پر ناقابل برداشت سردی تھی، برف کا طوفان تھا، برفیلی منجمد ہوائیں تھیں اور دور دور تک تاحد نظر پھیلی دھند تھی، اتنی بلندی پر زندگی ممکن نہیں ہوتی چنانچہ وہاں درختوں اور سبزے کا نشان تک نہ تھا، صرف سیدھی نوکیلی چٹانیں تھیں اور برف تھی اور ہزاروں سال بوڑھا گلیشیئر تھا، میں ماؤنٹ بلینک کی چوٹی پر پہنچ کر گوروں کی ہمت، محنت اور وژن کا قائل ہو گیا، آپ تصور کیجیے، ان لوگوں نے اس مشکل ترین جگہ پر کیبل کار کیسے پہنچائی ہو گئی، یہ وہاں تک بجلی کیسے لے کر گئے ہوں گے اور انھوں نے منفی 25 درجہ حرارت پر ریستوران کیسے بنائے ہوں گے، ہم صرف تصور کر سکتے ہیں، ٹاپ پر تین اٹریکشن تھیں، دو ویو پوائنٹس اور ایک ریستوران کمپلیکس۔ ماؤنٹ بلینک کے دونوں ویو پوائنٹس منجمد تھے، آپ ٹیرس پر باہر نکلتے ہیں اور آپ کی رگوں کا لہو منجمد ہو جاتا ہے۔

ناک اور کان سن ہو جاتے ہیں اور ہونٹوں پر برف کی پپڑی جم جاتی ہے، پاؤں من من بھاری ہو جاتے ہیں اور انگلیاں جواب دے جاتی ہیں، میں نے زندگی میں پہلی بار پلکوں پر برف جمتی دیکھی، میں پلکیں اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا اور میری آنکھیں بند ہو رہی تھیں، دونوں ٹیرس لمبے ہیں اور پہاڑ کے گرد ہوا میں معلق ہیں، آپ کے قدموں میں ہزاروں فٹ کی اترائیاں اور گہرائیاں ہوتی ہیں اور آپ فضا میں معلق یہ گہرائیاں دیکھتے ہیں، طوفانی ہوا آپ کو گہرائی کی طرف دھکیلتی ہے اور آپ قدم جما جما کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں، میں نے جیب سے فون نکالا اور وڈیو بنانی شروع کر دی، کیمرہ تھوڑی دیر چلا اور پھر سردی کی وجہ سے فون ہینگ ہو گیا۔

ہم وہاں صرف دو منٹ ٹھہر سکے، دو منٹ میں ہمارا پورا جسم برف بن گیا، ہم دوڑے اور دوڑ کر ریستوران کے کمپلیکس میں پہنچ گئے، وہاں کا درجہ حرارت نارمل تھا، آپ گوروں کی محنت دیکھئے انھوں نے منفی 25 درجہ سینٹی گریڈ پر پانچ ہزار مربع فٹ کی ایک گرم جنت بنا رکھی ہے، آپ اس جنت کی کھڑکی سے منجمد پہاڑ دیکھتے ہیں اور کافی پیتے ہیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.