علاقے کا نام ساندل بار تھا، یہ دور دور تک بے آب اور بے گیاہ تھا، علاقے میں تاحد نظر ویرانی، دھول اور اجاڑ تھا، زمین سوکھی، آسمان بے مہر اور موسم شدید تھے، سردیوں میں شدید سردی اور گرمیوں میں شدید گرمی پڑتی تھی، جھنگ، گوجرانوالہ اور ساہیوال قریب ترین شہر تھے مگر ان شہروں تک پہنچنے کا کوئی راستہ موجود نہیں تھا، پانی کی کمی کے باعث آبادی نہ ہونے کے برابر تھی لیکن پھر ایک واقعہ پیش آیا اور علاقے کا مقدر بدل گیا، سر جیمز لائل پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر بن گئے، یہ وژنری انسان تھے، یہ نئی بستیاں بنانے، نئے ٹاؤن آباد کرنے اور صدیوں سے گمنامی کے اندھیرے میں گم علاقوں کو روشنی میں لانے کے خبط میں مبتلا تھے، یہ شاندار گھڑ سوار بھی تھے۔
یہ اکثر گھوڑے پر سوار ہو کر لاہور سے ساندل بار نکل جاتے، وہ 1890ء کا زمانہ تھا، انگریز پنجاب فتح کرچکا تھا اور اس وقت پنجاب کے مختلف علاقوں میں ترقیاتی کام ہو رہے تھے، سڑکیں بن رہی تھیں، ریلوے لائین بچھ رہی تھی اور دریائے چناب سے ایک بڑی نہر نکالی جا رہی تھی، اس نہر سے تین بڑی برانچیں بھی نکلنی تھیں، راکھ برانچ، جھنگ برانچ اور گوگیرہ برانچ، یہ نہر اور یہ تین برانچ نہریں اس علاقے کا مستقبل تھیں، انگریزوں کا خیال تھا، یہ نہریں پورے علاقے کا مقدر بدل دیں گی، سر جیمز لائل ساندل بار کے ویران علاقے میں گھوڑا دوڑاتے رہتے تھے، وہ ایک دن گھڑ سواری سے تھک گئے تو وہ رکے، گھوڑے سے اترے، کیکرکے ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگائی اور سستانے کے لیے بیٹھ گئے۔
جیمز لائل کے دماغ میں بیٹھے بیٹھے اس بے آب و گیاہ علاقے میں نیا شہر بسانے کا خیال آیا، وہ سیدھے ہوئے، درخت کی ایک خشک ٹہنی لی، زمین پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچیں اور شہر کا ابتدائی نقشہ تیار ہو گیا، ڈسمنڈنگ ایک ڈیزائنر تھا، یہ اس وقت گورنر پنجاب کا مہمان تھا، جیمز لائل لاہور واپس آئے، ڈسمنڈنگ سے بات کی، وہ اگلے ہفتے جیمز لائل کے ساتھ ساندل بار جانے پر راضی ہو گیا، وہ دونوں تین دن اس بے آب و گیاہ علاقے کے میں گھومتے رہے، وہ تین دن پاکستان کے تیسرے بڑے شہر فیصل آباد کی بنیاد ثابت ہوئے، سر جیمز لائل اور ڈسمنڈنگ نے پنجاب کو ایک نئے اور خوش حال شہر کا تحفہ دینے کا فیصلہ کرلیا، سر گنگا رام اس وقت لاہور کے بڑے ٹھیکیدار تھے، سر جیمز لائل اور ڈسمنڈگ نے گنگا رام کو بلایا، نئے شہر کا نقشہ دکھایا اور ان سے ابتدائی ٹاؤن پلاننگ کی درخواست کی، گنگا رام مان گئے، جیمز لائل نئے شہر کو پیرس کی طرز پر تعمیر کرنا چاہتے تھے۔
پیرس کے عین درمیان میں ٹریمف آرک ہے، یہ آزادی کے شہیدوں کی یاد گار ہے، یہ عمارت چوک میں قائم ہے، آپ اگر اس کی چھت پر کھڑے ہوں تو آپ کو ٹریمف آرک سے آٹھ سڑکیں نکلتی نظرآئیں گی، شانزے لیزے بھی ان سڑکوں میں سے ایک سڑک ہے، جیمز لائل، ڈسمنڈنگ اور گنگارام نے یہ شہر ٹریمف جیسے چوک کے گرد آباد کرنے کا فیصلہ کیا، چوک بنانے کی ذمے داری گنگا رام کو سونپی، یہ چوک آج ایک سو آٹھ سال سے فیصل آباد کے عین درمیان موجود ہے، یہ گھنٹہ گھر کہلاتا ہے، 1892ء میں چناب کی نہر اور تینوں برانچ نہریں نکلیں، علاقے میں پانی آیا، خشک زمین ہری بھری ہوئی اور1892ء میں جیمز لائل نے ساندل بال میں نئے شہر کا سنگ بنیاد رکھ دیا، شہر کے لیے 110مربع ایکڑ زمین مختص کی گئی، گنگا رام نے گھنٹہ گھر بنانا شروع کیا، تعمیر کی ذمے داری گلاب خان کو سونپی گئی، یہ تاج محل کے معماروں کے خاندان سے تھا، گھنٹہ گھر تین برسوں میں مکمل ہوا۔
گھڑیال ممبئی سے لایا گیا، مینار کے گرد آٹھ بازار بنائے گئے، 1910ء میں شہر کو ریلوے سے جوڑ دیا گیا، جیمز لائل اکثر گھوڑے پر بیٹھ کر نئے شہر کا معائنہ کیا کرتے تھے، جیمز لائل کی اس محنت اور محبت کی وجہ سے یہ شہر پنجاب بھر کا کاروباری مرکز بن گیا، منڈی بنی، صنعتی علاقہ بنا اور پھر پیداوار اور تجارت کا ہیڈکوارٹر بن گیا، قیام پاکستان کے وقت لائل پور کی آبادی لاکھ نفوس سے کم تھی، 1951ء میں یہاں کی آبادی ایک لاکھ 70 ہزار ہو گئی، یہ آہستہ آہستہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر بن گیا، جیمز لائل اور ان کا خاندان دہائیوں قبل برطانیہ واپس چلا گیا لیکن ان کی نشانی پاکستان میں موجود رہی، 2003ء میں مارک لائل گرانٹ برطانوی ہائی کمشنر بن کرپاکستان آئے۔
یہ جیمز لائل کے نواسے تھے، 1977ء میں لائل پور کا نام تبدیل کر کے فیصل آباد رکھ دیا گیا، شہر کو فیصل آباد کا نام سعودی عرب کے حکمران شاہ فیصل کے نام پر دیا گیا، آپ یہاں دو دلچسپ حقیقتیں ملاحظہ کیجیے، شاہ فیصل نے پوری زندگی اس شہر میں قدم نہیں رکھا لیکن ہم نے اس کے باوجود ملک کا تیسرا بڑا شہر ان کے نام منسوب کر دیا اور دوم پورے سعودی عرب میں شاہ فیصل کے نام سے کوئی بستی، کوئی ادارہ قائم نہیں لیکن پاکستان میں ان کے نام سے ایک شہر، ملک کی سب سے بڑی مسجد اور کراچی شہر کی مین شاہراہ منسوب ہے جب کہ پاکستان کے لوگ اس شخص کا نام تک بھول چکے ہیں جس نے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس شاندار شہر کی بنیاد بھی رکھی تھی اور پورے پنجاب سے لوگوں کو مراعات دے کر یہاں آباد بھی کیا تھا، میری حکومت سے درخواست ہے آپ فیصل آباد کو واپس لائل پور نہ بنائیں لیکن آپ کم سے کم شہر کے گھنٹہ گھر کو لائل چوک ضرور ڈکلیئر کر دیں، آپ گھنٹہ گھرچوک میں جیمز لائل کا مانو منٹ بھی بنائیں تا کہ ہماری نوجوان نسل تاریخ کے اس گمنام کردار سے واقف ہو سکے۔
فیصل آباد پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے تیسرا جب کہ معاشی لحاظ سے سب سے بڑا شہر ہے، شہر میں 10ہزار سے زائد چھوٹے بڑے صنعتی یونٹ ہیں، ملک کی آدھی سے زیادہ ایکسپورٹ فیصل آباد سے بیرون ملک روانہ ہوتی ہے، یہ کاٹن مصنوعات اور گارمنٹس کا مرکز بھی ہے اور یہ ملک کا خوش حال ترین شہر بھی ہے لیکن کل دنیا نے اس شہر کا انتہائی بدصورت چہرہ دیکھا، کل پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے شہر کو میدان جنگ بنا دیا، دنیا سارا دن ٹیلی ویژن اسکرین پر ڈنڈے، نعرے، واٹر کینن اور بپھرے ہوئے عوام دیکھتی رہی، عمران خان نے 30 نومبر کو اعلان کیا تھا یہ 8 دسمبر کو فیصل آباد بند کر دیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمودقریشی نے دو دسمبر کو ہمارے پروگرام، ، کل تک، ، میں وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کو پیش کش کی، ، حکومت اگر 6 دسمبر کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائے تومیں عمران خان سے اپیل کروں گا آپ فیصل آباد کا دھرنا، ، کال آف، ، کر دیں، ، اسحاق ڈار نے وزیراعظم سے رابطے کے بعد جواب دینے کا وعدہ کیا لیکن بدقسمتی سے مذاکرات اسٹارٹ نہ ہو سکے اور یوں معاملات مزیدالجھ گئے، وزیراعظم میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں اس وقت مذاکرات کے خواہاں ہیں، شاہ محمود قریشی بھی مسئلے کا پرامن حل چاہتے ہیں، کیوں؟ دو وجوہات ہیں، میاں نواز شریف اپنی توجہ ترقیاتی کاموں پر لگانا چاہتے ہیں۔
یہ جانتے ہیں امریکا کے افغانستان سے نکلنے سے قبل خطے میں ترقیاتی عمل شروع ہو جائے گا پاکستان نے اگر یہ وقت بھی ضایع کر دیا تو ملک ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گا چنانچہ یہ ہر صورت اس وقت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، دوم، عمران خان ساڑھے تین ماہ طویل دھرنا دے کر تھک چکے ہیں، اسلام آباد میں سردی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، دسمبر کے آخر میں ڈی چوک میں بیٹھنا مشکل ہو جائے گا، دھرنے کی وجہ سے پارٹی بھی معاشی دباؤ کا شکار ہے، لاکھوں روپے روزانہ خرچ ہو رہے ہیں اور کسی بھی جماعت کے لیے تین چار ماہ تک یہ بوجھ برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا، پارٹی دھرنے کی وجہ سے خیبرپختونخواہ حکومت بھی کام نہیں کر پا رہی، صوبے پر آہستہ آہستہ ان کی گرفت بھی کمزور پڑتی جا رہی ہے چنانچہ عمران خان بھی اب یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں، یہ، ، میاں نواز شریف استعفیٰ دیں، ، جیسے مطالبے سے بھی پیچھے ہٹ چکے ہیں۔
یہ صرف جوڈیشل کمیشن بنانا چاہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے حکومت سمجھوتے کے بجائے رگڑا لگانے کے موڈ میں چلی گئی ہے، یہ عمران خان کو مکمل ناکام اور سیاسی بے وقوف ثابت کرنے میں جت گئی، میں یہاں حکومت کو غلط سمجھتا ہوں، میرا خیال ہے حکومت کو ضد ترک کر کے عمران خان کا آگے بڑھایا ہوا ہاتھ تھام لینا چاہیے، حکومت مذاکرات کی میز بچھائے، جوڈیشل کمیشن بنائے اور یہ مسئلہ ختم کر دے، حکومت نے یہ وقت ضایع کر دیا تو معاملات بگڑ جائیں گے کیونکہ حالات بڑی تیزی سے میاں نواز شریف اور عمران خان کے ہاتھ سے نکل کر کارکنوں کے ہاتھ میں جا رہے ہیں۔
آج فیصل آباد میں دونوں جماعتوں کے کارکن آمنے سامنے آئے ہیں، 12 دسمبر کو کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا مقابلہ ہو گا اور 15 کو لاہور میں آگ لگ جائے گی، یہ صورتحال حکومت کو سوٹ نہیں کرتی کیونکہ معاملات اگر ایک بار عوام میں چلے گئے تو ان کی واپسی مشکل ہوجائے گی، معاملات ہمیشہ قیادت کے ہاتھ میں رہنے چاہئیں، عوام میں نہیں جانے چاہئیں چنانچہ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، یہ معاملات کنٹرول کرے، مذاکرات شروع کرے ورنہ دوسری صورت میں گیا وقت کبھی واپس نہیں آتا، آپ کویقین نہ آئے تو آپ جنرل مشرف کو دیکھ لیجیے، جنرل مشرف نے بھی لڑائی کو مذاکرات پر اہمیت دی تھی چنانچہ یہ آج گھر تک محصور ہو کر رہ گئے ہیں، کیا میاں صاحب بھی مشرف بننا چاہتے ہیں، حکومت کو آج کے دن یہ ضرور سوچنا چاہیے۔