Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mulk Ko Vellay Logon Se Bachain

Mulk Ko Vellay Logon Se Bachain

میں چند ماہ قبل کپڑے کی ایک دکان پر گیا، دکان دار سر پکڑ کر بیٹھا تھا، پوچھنے پر اس نے بتایا، میرا بیٹا پی ٹی آئی کے جلسے میں گیا تھا، جلسے کے بعد اس نے پولیس کے خلاف نعرے بازی کی اور اسے پولیس پکڑ کر لے گئی، میں اب اس کے لیے پریشان ہوں، میں نے اس سے پوچھا "آپ کا بیٹا کیا کرتا ہے؟"اس نے پریشانی کے باوجود ہنس کر جواب دیا "ویلا ہے، کچھ نہیں کرتا"۔

میں نے پوچھا " کچھ تو کرتا ہوگا" وہ دوبارہ بولا " میں نے اسے یونیورسٹی میں داخل کرایا مگر وہ تعلیم مکمل نہ کر سکا، میں اسے دکان پر لے کر آیا مگر یہ کام جس نے اسے پال پوس کر بڑا کیا، جو اس کا والد اور دادا پوری زندگی کرتا رہا، اس کام کو یہ اپنے سٹینڈرڈ کے مطابق نہیں سمجھتا لہٰذا یہ دکان سے فرار ہوگیا اور یہ اب سارا دن سوشل میڈیا پر ہوتا ہے اور پی ٹی آئی کا ہر جلسہ اٹینڈ کرتا ہے، زمان پارک کے سامنے بھی بیٹھا رہتا ہے، اس کی زندگی میں پولیس کی کمی تھی مگر وہ بھی اب پوری ہوگئی ہے" اس دوران اس کے دوسرے بیٹے نے چائے کا کپ میرے سامنے رکھ دیا، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے پوچھا "کیا آپ بھی پی ٹی آئی کو پسند کرتے ہو" اس نے ہاں میں سر ہلا دیا، میں نے پوچھا "کیا آپ بھی خان کے جلسوں میں جاتے ہیں" اس نے ہنس کر جواب دیا "نہیں سر مجھے وقت ہی نہیں ملتا، میں سارا دن دکان پر کھپتا رہتا ہوں، رات کو تھک ہار کر گھر جاتا ہوں۔ بیوی بچوں سے ملتا ہوں اور صبح بچوں کو سکول چھوڑ کر دکان پر آ جاتا ہوں، جلسوں کے لیے وقت کہاں سے لائوں؟"۔

میں نے پوچھا "کیا تمہیں اتوار کے دن بھی ٹائم نہیں ملتا" اس کا جواب تھا "سر چھ دن بعد ایک چھٹی ہوتی ہے، اس میں بھی اتنے کام جمع ہو جاتے ہیں کہ کسی دوسری طرف نظر ہی نہیں جاتی لہٰذا میں خان صاحب کا خاموش فین ہوں، الیکشن کا وقت آئے گا تو انہیں ووٹ دے دوں گا، خان صاحب نے اپنے وعدے پورے کیے تو ٹھیک ورنہ اگلی بار انہیں ووٹ نہیں دوں گا، اللہ اللہ خیر سلہ" اس کا والد ہماری گفتگو غور سے سن رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا "آپ نے اپنے اس بیٹے کو کب کام سٹارٹ کرایا تھا؟"

وہ بولا "میں نے میٹرک کے بعد اس سے پوچھا تھا بیٹا تم تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہو یا کام کرنا چاہتے ہو، اس کا جواب تھا میرا پڑھائی میں دل نہیں لگتا، میں کام کرنا چاہتا ہوں، میں اسے دکان پر لے آیا اور اس نے دو سال میں کاروبار کا سارا بوجھ اٹھا لیا۔ یہ اب دکان بھی چلا رہا ہے اور پورا گھر بھی" میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے عرض کیا "حاجی صاحب معاملہ کلیئر ہے، آپ کا دوسرا بیٹا ویلا ہے، آپ نے اسے وقت پر کام پر نہیں لگایا تھا اور یہ اب گھر اور والدین کی ذمہ داری تک سے آزاد ہے، یہ احتجاج نہیں کرے گا تو کیا کرے گا؟

آپ یہ یاد رکھیں احتجاج صرف ویلے لوگ کرتے ہیں، کام کرنے والے لوگ آپ کے پہلے بیٹے جیسے ہوتے ہیں، ان کے سروں پر ذمہ داریوں کا اتنا بوجھ ہوتا ہے کہ ان کے پاس دائیں بائیں دیکھنے کے لیے بھی وقت نہیں ہوتا، یہ تیر کی طرح سیدھے دفتر یا دکان پر آتے ہیں اور تھک ہار کر گھر چلے جاتے ہیں، ان کے پاس جلسوں، جلوسوں، دھرنوں اور احتجاج کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا، ان کی ہمدردی محض ہمدردی اور پانچ سال بعد ووٹ تک محدود ہوتی ہے اور بس، آپ اب بھی اگر اپنے دوسرے بیٹے کو بچانا چاہتے ہیں تو آپ اسے مصروف کر دیں، یہ اس کے بعد زمان پارک جائے گا اور نہ پولیس کے ڈنڈے کھائے گا" حاجی صاحب نے میری بات غور سے سنی اور دیر تک ہاں میں سر ہلاتے رہے۔

مجھے یقین ہے میں اگر یہ بات ان کے احتجاجی بیٹے سے کرتا تو وہ مجھے بے غیرتی کا طعنہ دے کر کہتا آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے قوم آج تک حقیقی آزادی حاصل نہیں کر سکی، وہ اس کے بعد مجھے دنیا بھر کے مشاہیر کے سنہری اقوال، آیات اور احادیث بھی سناتا اور میری مردہ عقابی روح جگانے کے لیے اس کے بعد طویل لیکچر بھی دیتا، کیوں؟ کیوں کہ یہ ویلا ہے اور ویلے لوگ احتجاج اور طویل تقریروں کے ماہر ہوتے ہیں۔

آپ اگر کبھی امریکا، یورپ اور جاپان سمیت ترقی یافتہ ملکوں کے بارے میں ریسرچ کریں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے ان ملکوں میں امن، سکون اور ترقی کی تیسری بڑی وجہ "ورک لوڈ" ہے، ان معاشروں کے افراد پر کام کا اتنا بوجھ ہے کہ ان کے پاس احتجاج، سڑک بلاک کرنے اور عمارتوں پر پتھرائو کا وقت ہی نہیں بچتا، یہ لوگ نائین ٹو فائیو کام میں مصروف رہتے ہیں، کام کے بعد گھروں تک پہنچنا اور پھر پورے گھر کا کام کرنے کے بعد کان کھرکنے کی مہلت نہیں ملتی، یہ لوگ اگر احتجاج کے لیے کام سے چھٹی کر لیں تو پھر ان پر معاشی دبائو اتنا بڑھ جاتا ہے کہ یہ مہینے کے آخر تک قسطیں ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے لہٰذا ان کے پاس مینار پاکستان جیسے جلسوں کے لیے وقت نہیں بچتا، آپ نے کبھی سوچا یورپ میں لوگ ٹریفک قوانین کی پابندی کیوں کرتے ہیں؟

اس کی تین وجوہات ہیں، ڈرائیونگ لائسنس انتہائی مشکل ہیں، ٹریفک کی ہر خلاف ورزی کے بعد لائسنس کے پوائنٹس کٹ جاتے ہیں اور آخر میں پولیس لائسنس منسوخ کر دیتی ہے جس کے بعد وہ لوگ ڈرائیونگ نہیں کر سکتے اور یورپ میں ڈرائیونگ کے بغیر زندگی صرف 20 فیصد رہ جاتی ہے، دوسرا آپ انشورنس کے بغیر گاڑی نہیں چلا سکتے اور آپ کے ہر ایکسیڈنٹ کے بعد انشورنس کی قسط میں اضافہ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ گاڑی سستی اور انشورنس مہنگی ہو جاتی ہے لہٰذا لوگ نقصان سے بچنے کے لیے بھی احتیاط کرتے ہیں اور تیسرا یورپ میں ڈرائیونگ کی غلطیوں پر بھاری جرمانے عائد ہیں، غلط پارکنگ پر 50 یورو سے ڈیڑھ سو یوروز تک جرمانہ ہو جاتا ہے، ٹریفک لائیٹ کی پابندی نہ کرنے والے کو جیل تک بھگتنا پڑتی ہے لہٰذا وہاں ٹریفک سموتھ ہے جب کہ پاکستان میں اس کے بالکل برعکس ہے، ہم اگر آج جرمانے دس ہزار سے ایک لاکھ کر دیں، کار انشورنس لازمی اور بھاری کر دیں اور لائسنس مشکل کر دیں تو ہمارا سسٹم بھی ٹھیک ہو جائے گا، یہ مثال ثابت کرتی ہے اگر ریاست لوگوں کو مصروف رکھ لے اور ان کے لیے ضروریات زندگی کو مشکل کر دے تو اس سے بھی امن ہو جاتا ہے، لوگوں کے لیے احتجاج مشکل بن جاتا ہے۔

ہمیں ماننا ہوگا دنیا میں چیزیں خراب یا ٹھیک سسٹم کی وجہ سے ہوتی ہیں، ہم اگر سسٹم بنا دیں یا تبدیل کر دیں تو چیزیں ٹھیک ہونے لگتی ہیں مثلاً میں چند دن قبل ٹریفک میں پھنس گیا، نیچے اتر کر معلوم کیا تو پتا چلا غزہ پر اسرائیلی بم باری کی وجہ سے نوجوانوں نے سڑک بند کر رکھی ہے، کوئی ان سے پوچھے غزہ کہاں ہے اور اسلام آباد کہاں ہے اور ہم اپنی سڑک بند کرکے فلسطینیوں کی کیا مدد کر رہے ہیں؟ یہ بہرحال عقل کی باتیں ہیں اور ہمارے ویلے نوجوان یہ نہیں سمجھ سکتے، یہ کبھی کسی جگہ وقت پر گئے ہی نہیں لہٰذا انہیں دوسروں کے وقت اور مصروفیات کی کوئی قدر نہیں، اب سوال یہ ہے ہم اس صورت حال کو کیسے بدل سکتے ہیں۔

اس کا صرف ایک طریقہ ہے آپ قوم کو مصروف کر دیں، ملک میں کوئی شخص 18 سال کے بعد ویلا نہیں ہونا چاہیے، وہ اگر کام تلاش نہیں کرتا تو حکومت اسے زبردستی کام پر لگا دے، ملک میں ویلفیئر کے ہزاروں پراجیکٹس ہیں، ہر شہر میں ہزاروں نشئی پھر رہے ہیں، حکومت ان کی بحالی کا منصوبہ شروع کرے اور جتنے ویلے لوگ ہیں انہیں نشئی اکٹھے کرنے اور ان کی بحالی کے کام پر لگا دے، ہسپتالوں کے اندر مریض سسک رہے ہیں، حکومت ویلے لوگوں کو پکڑے اور مریضوں کی خدمت پر لگا دے، ہماری مسجدیں بھی صاف نہیں ہوتیں، آپ ویلے لوگوں کو مسجدوں کے غسل خانے اور فرش صاف کرنے پر لگا دیں اور ہمارے پرائمری سکولوں میں استاد نہیں ہیں، حکومت ویلوں کو پرائمری ٹیچر بنائے اور سکولوں میں کھپا دے، حکومت اسی طرح ویلے لوگوں سے سڑکوں کے کنارے پھول اور درخت لگوا سکتی ہے، سرکاری زمینیں آباد کرا سکتی ہے اور ان سے ڈیم، نہریں اور سڑکیں بنوا سکتی ہے۔

یہ کام شروع میں مشکل ہوگا، ویلے لوگ انسانی حقوق کی صدائیں دیں گے لیکن پھر انہیں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوگا اور یہ اٹھارہ سال سے پہلے پہلے کوئی نہ کوئی باوقار کام تلاش کر لیا کریں گے اور اس سے ملک میں بے روزگاری بھی کم ہو جائے گی اور افراتفری بھی، ہم اگر اسی طرح اٹھارہ سال کے بعد شناختی کارڈ، بینک اکائونٹ اور نیشنل ٹیکس نمبر کو بھی لازم قرار دے دیں تو اس سے بھی تبدیلی آ سکتی ہے اگر تبدیلی نہ بھی آئے تو بھی ہم یہ دیکھ سکتے ہیں ملک میں کتنے لوگ مصروف یا ویلے ہیں اور حکومت اس سے اپنی پالیسیاں بدل سکے گی، حکومت کو اسی طرح میٹرک کے بعد اچھے اور برے طالب علموں کا اندازہ بھی کرنا چاہیے، وہ طالب علم جو مزید پڑھائی کے قابل نہیں ہیں انہیں میٹرک کے بعد بزنس یا کام پر لگا دیا جائے اور صرف پڑھاکو طالب علموں کو یونیورسٹیوں میں بھجوایا جائے اس سے نوجوانوں اور ملک دونوں کا وقت بچے گا۔

نوجوان عین جوانی میں کام شروع کر دیں گے اور پانچ دس سال میں خوشحال اور کام یاب ہو جائیں گے، دوسری طرف یونیورسٹیوں میں بھی صرف اہل طالب علم جائیں گے، اس سے یونیورسٹیوں پر بھی بوجھ کم ہوگا اور آخری چیز ملک میں اگر مہنگائی ہوتی ہے تو ہونے دیں، مہنگائی بھی دنیا میں ترقی کی ایک بڑی وجہ ہوتی ہے، انسان کا اگر گزارہ نہیں ہوتا تو پھر یہ اپنی اہلیت بھی بڑھاتا ہے اور گھر کے بے کار لوگوں کو بھی کام پر لگاتا ہے اور اس سے یہ مہنگائی اور غربت کے مقابلے کا اہل ہو جاتا ہے لہٰذا ہمیں یہ ماننا ہوگا ہم اگراس ملک کو چلاناچاہتے ہیں تو پھر ہمیں اسے ویلے لوگوں سے بچانا ہوگا ورنہ 20 کروڑ ویلے لوگ اسے چلنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.