Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mushkil Asaan, Asaan Mushkil

Mushkil Asaan, Asaan Mushkil

میں اعجاز قادری کا کئی مرتبہ ذکر کر چکا ہوں، یہ میرے دوست ہیں، آرکی ٹیکٹ ہیں، گھر ڈیزائن کرتے ہیں اور کمال کر دیتے ہیں۔ ان کے ڈیزائن میں تین خوبیاں ہوتی ہیں، گھر باہر سے عام دکھائی دیتے ہیں لیکن آپ جونہی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں آپ کو گھر کی خوبصورتی، لیونگ اسٹینڈرڈ اور کھلا پن کھینچ لیتا ہے۔ اعجاز قادری کے گھر روشن ہوتے ہیں، آپ کو شام تک گھر میں لائٹ نہیں جلانا پڑتی اور تین، یہ گھر کسی نودولتیے کے بھی محسوس نہیں ہوتے، آپ کو ان میں ٹھہراؤ، تہذیب اور شائستگی نظر آتی ہے۔

میں نے زندگی میں دو گھر بنائے، آج سے چودہ سال قبل آٹھ مرلے کا گھر بنایا، وہ گھر اعجاز قادری نے ڈیزائن کیا اور کمال ڈیزائن کیا تھا۔ دوسرا گھر آج سے تین سال قبل بنایا، یہ ایک کنال کاگھر ہے لیکن اس کا لیونگ اسٹینڈر چار کنال کے گھروں کے برابر ہے، لوگ روزانہ یہ گھر دیکھنے آتے ہیں۔ اعجاز قادری کا فن اپنی جگہ لیکن یہ ذہنی لحاظ سے بھی شاندار انسان ہیں، ہمارے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے یہ اس کے بارے میں ذاتی اور اوریجنل رائے رکھتے ہیں۔ میں جب بھی بور ہو جاتا ہوں، ڈپریشن یا کنفیوژن کا شکار ہوتا ہوں تو میں ان سے ملتا ہوں یا نعیم بخاری صاحب کو تلاش کرتا ہوں یا پھر بابا جی شیخ حفیظ کو آواز دیتا ہوں اور ترو تازہ ہو جاتا ہوں۔

میں اور اعجاز قادری چنددن قبل لنچ کے لیے مری گئے، ہم راستے میں زندگی کے بارے میں گفتگو کرتے رہے، گفتگو کے دوران انھوں نے انتہائی دلچسپ بات کی۔ ان کا کہناتھا "زندگی کو مشکل بنانا انتہائی آسان جب کہ زندگی کو آسان بنانا انتہائی مشکل ہوتا ہے"۔ میں پچھلے چھ دن سے اس فقرے کو انجوائے کر رہا ہوں، آپ بھی اگر اس پر ذرا سی توجہ دیں تو اسے اتنا ہی انجوائے کریں گے۔

ہمارے لیے زندگی کو مشکل بنانا کتنا آسان ہے؟ آپ صبح اٹھیں اور جو بھی شخص نظر آئے اسے گھورنا شروع کر دیں، آپ ہر کسی کو الٹا جواب دینا شروع کر دیں، ہمسایوں سے لڑنا شروع کر دیں، آپ دوسرے کے دروازے کے سامنے گاڑی کھڑی کر دیں، آپ اسکول، کالج، یونیورسٹی یا آفس کا کام نہ کریں، آپ اندھا دھند قرض لینا شروع کر دیں، آپ بلا وجہ لوگوں کی بے عزتی شروع کر دیں، آپ ڈاکٹر کی ہدایت کے برخلاف کھانا پینا شروع کردیں، آپ اپنی آمدنی کم کرتے جائیں اور اخراجات میں اضافہ کرنے لگیں، آپ اپنے گھر اور گلی میں گند ڈالنے لگیں اور آپ اپنے سے طاقتور لوگوں سے پھڈا شروع کر دیں۔

آپ کی زندگی مشکل ہو جائے گی، آپ کے دن کا چین اور رات کی نیند حرام ہو جائے گی، آپ سکون، آرام اور صحت کو ترستے ترستے دنیا سے رخصت ہو جائیں گے جب کہ اس کے مقابلے میں آپ زندگی کو آسان بنانے کا فیصلہ کر لیں تو آپ کو مشکلات کی بے شمار دلدلوں سے گزرنا پڑے گا۔ آپ کو مصائب کے درجنوں پہاڑ سر کرنا پڑیں گے۔ آپ جانتے ہیں گاڑی کے چاروں پہیے گول ہوتے ہیں، ان پہیوں کو گول رکھنے کے لیے انڈسٹری کو کتنی محنت کرنا پڑتی ہے، آپ اس کا تصور نہیں کر سکتے۔

سیکڑوں سائنس دان ایسی دھاتیں تلاش کرتے رہتے ہیں جنھیں لوہے میں ملایا جائے تو لوہا اتنا سخت نہ رہے کہ سڑک کی رگڑ، ہوا کا دباؤ اور گاڑی کا بوجھ اسے توڑ دے اور یہ اتنا نرم بھی نہ ہو جائے کہ سڑک کے پتھر اسے ٹیڑھا کر دیں۔ رم اور ٹائر کے درمیان بہتر سے بہتر توازن پیدا کرنے کے لیے بھی سیکڑوں لیبارٹریاں کام کر رہی ہیں اور ایسے ٹائر بنانے کے لیے بھی درجنوں سائنس دان دن رات محنت کر رہے ہیں جو گرمی، سردی، بارش، برف اور ریت میں یکساں کام کریں۔ آپ دیکھ لیں انسان کتنی آسان اور عام سی چیز کے لیے کتنی مشکلات برداشت کرتا ہے۔ آپ سوئی کو دیکھ لیجیے، یہ کتنی آسان اور سستی چیز ہے لیکن آپ اگر اس آسان اورسستی چیز کی ایجاد پر ریسرچ کریں یا آپ اسے بنتا ہوا دیکھ لیں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔

ہم گلاس میں دودھ بھرتے ہیں، اٹھاتے ہیں اور غٹا غٹ پی جاتے ہیں لیکن آپ اگر چارے سے لے کر گائے کے تھنوں تک دودھ کا عمل جان لیں تو آپ کو قدرت کی حکمت اور عمل دونوں کی پیچیدگی حیران کر دے گی۔ یہ ہمارے استعمال کی تین چیزوں کی مثال ہے۔ ہم روزانہ 548 اشیاء استعمال کرتے ہیں، یہ تمام اشیاء ہمارے لیے معمول کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن یہ معمول کی آسان چیزیں کتنی مشکل ہیں آپ ان کا تصور نہیں کر سکتے، آپ اس عمل کی پیچیدگی کا اندازا بھی نہیں لگا سکتے جن سے گزر کر یہ چیزیں بنتی ہیں اور ہم تک پہنچتی ہیں۔ آپ کبھی اس پٹرول کو گاڑی کے ٹینک سے واپس زمین تک لے جائیں جسے آپ کریڈٹ کارڈ دے کر گاڑی میں بھروا لیتے ہیں تو آپ کو نیند نہیں آئے گی۔

انسان نے ان تمام آسانیوں کی بڑی کڑی قیمت ادا کی ہے۔ آج بھی دنیا میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو محققین کو نئی ادویات چیک کرنے کے لیے اپنی زندگی پیش کر دیتے ہیں، یہ رضاکار اپنا نام لکھواتے ہیں، ڈاکٹر ادویات تیار کرتے ہیں، ان کو کھلاتے ہیں، یہ ان ادویات کے اثرات محسوس کرتے ہیں، ڈاکٹروں کو لکھواتے ہیں اور ڈاکٹر ان اثرات کی بنیاد پر ادویات کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان رضا کاروں میں سے بے شمار لوگ ادویات کی ٹیسٹنگ کے دوران انتقال کر جاتے ہیں لیکن ہم بازار جاتے ہیں، سو روپے کاؤنٹر پر رکھتے ہیں، دوا کی ڈبی اٹھاتے ہیں، پانی کے گلاس کے ساتھ دو گولیاں نگلتے ہیں اور ڈکار مار کر سو جاتے ہیں، ہم نے کبھی سوچا تک نہیں کتنے انسانوں نے اس آسانی کے لیے اپنی جان، اپنی نیندیں قربان کر دیں مگر ہم پھر بھی بے حس ہیں۔

یہ ہماری زندگی کی چند آسانیاں ہیں، آپ ذرا تصور کیجیے ہم اگر اپنی پوری زندگی کو آسان بنانا چاہیں تو یہ کتنا کٹھن، کتنا مشکل ہوگا کیونکہ آپ کو زندگی کو آسان بنانے کے لیے جھوٹ بولنا ترک کرنا ہو گا، آپ کو وقت کی پابندی کرنا ہو گی، آپ کو قانون کی پاسداری کرنا پڑے گی، آپ کو انصاف قائم کرنا ہوگا، آپ کو فیملی، ہمسایوں اور معاشرے کو ان کا حق دینا ہوگا، آپ کو پڑھنا ہو گا، ریسرچ کرنا پڑے گی، آپ کو دن رات کام کرنا ہوگا، آپ کو وعدے کا پاس کرنا پڑے گا، آپ کو وقت کی قدر کرنا ہو گی، آپ کو فضول گوئی سے بچنا ہوگا، آپ کو سگریٹ، شراب نوشی اور جوئے کی لت چھوڑنا ہو گی، آپ کو پازیٹو رہنا ہوگا، آپ کو برداشت سیکھنا ہو گی، آپ کو دوسروں کو سپیس دینا ہو گی، آپ کو معافی مانگنے اور معاف کرنے کی عادت ڈالنا ہو گی۔

آپ کو مذہب کا احترام کرنا ہو گا، آپ کو بزرگوں، رسموں اور روایات کا پاس رکھنا ہو گا اور آپ کو صدقہ اور خیرات کرنا ہوگی۔ آپ کو جسمانی اور ماحولیاتی صفائی کا خیال رکھنا ہوگا اور آپ اگر اپنی زندگی کو آسان بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو فراڈ، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، منافع خوری اور چوری چکاری سے بچنا ہوگا۔ آپ ذرا تصور کیجیے یہ تمام کام کتنے مشکل، کتنے کٹھن ہیں جب کہ ہم لوگ ہمیشہ ان مشکلات سے بچنے کے لیے اپنی زندگی کو مشکل بناتے جاتے ہیں کیونکہ ہم یہ کام بڑی آسانی سے سر انجام دے سکتے ہیں۔

آپ نے کبھی سوچا ہم لوڈشیڈنگ پر قابو کیوں نہیں پاتے؟ کیونکہ اس کے لیے ریسرچ کرنا پڑے گی، ہمیں انرجی کے متبادل ذرائع تلاش کرنا ہوں گے، ہمیں ڈیم بنانا پڑیں گے اور ہمیں اپنے واپڈا کو ٹھیک کرنا ہوگا اور یہ کام ظاہر ہے مشکل ہیں چنانچہ ہم نسبتاً آسان کام کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ہم اندھیرے میں بیٹھ جاتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ باہر نکل کر مظاہرے کرتے ہیں، سڑکیں بلاک کر دیتے ہیں، گاڑیوں پر پتھراؤ کرتے ہیں، بجلی کے دفاتر پر حملہ کر دیتے ہیں، ٹرانسفارمر کو آگ لگا دیتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ یہ مشکلات انتہائی آسان ہیں اور ہم ہمیشہ آسان کام کی طرف جاتے ہیں۔ آپ نے کبھی سوچا ہم مہنگائی کم ہونے کے انتظار کی بجائے اپنی آمدنی میں اضافہ کیوں نہیں کرتے؟ کیونکہ آمدنی میں اضافے کے لیے کام کرنا پڑے گا، کام کے لیے گھر سے نکلنا ہوگا، صبح گھر سے نکلنے کے لیے رات جلدی سونا پڑے گا، ہمیں کام کے لیے مہارت اور تعلیم بھی حاصل کرنا پڑے گی، ہمیں دفتروں میں دیانتداری بھی ثابت کرنا پڑے گی، ہمیں ڈسپلن میں بھی آنا ہوگا اور ہمیں اپنے اپنے گھروں کا بجٹ بھی بنانا ہوگا اور ہمیں مہنگی کی بجائے نسبتاً سستی چیزیں بھی تلاش کرنا پڑیں گی۔

آپ تصور کیجیے یہ کتنا مشکل کام ہے چنانچہ ہم لوگ ان مشکلات سے گزرنے کی بجائے مہنگائی کے خلاف مظاہرے جیسا آسان کام کرتے ہیں اور آرام سے سو جاتے ہیں۔ آپ نے کبھی سوچا ہم زندہ رہنے کی بجائے خود کش حملہ آور کیوں بن جاتے ہیں؟ کیونکہ زندہ رہنا مشکل اور مرنا آسان ہے، زندہ رہنے کے لیے دوسروں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے، اپنے آپ کو زیادہ باصلاحیت، زیادہ ذہین، زیادہ محنتی اور زیادہ اہل ثابت کرنا پڑتا ہے جب کہ خود کش حملہ آور بننے کے لیے ایک جیکٹ اور ایک جھٹکا کافی ہے اور بات ختم۔ آپ نے کبھی سوچا حاجی صاحب اسکول، کالج اور یونیورسٹی نہیں بناتے، مسجد اور مدرسہ بنا دیتے ہیں۔

کیوں؟ کیونکہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے لیے محنت کرنا پڑے گی، آپ عمارت بنائیں، اسٹاف رکھیں، بچے بھرتی کریں اور پھر ان سب کی نگرانی کریں، اس مشکل کے لیے کس کے پاس وقت ہو گا؟ چنانچہ آپ مسجد بنائیں اور یہ دنیا بھی روشن اور وہ دنیا بھی مکمل اور آپ نے کبھی سوچا ہم دنیا سے رشک کی بجائے حسد کیوں کرتے ہیں؟ ہم اہل مغرب کو برا بھلا کیوں کہتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ رشک کے لیے آپ کو جاگنا پڑتا ہے، آپ کو مقابلہ کرنا پڑتا ہے جب کہ حسد کے لیے آپ چارپائی پر بیٹھ کر پھٹی بنیان کھینچ کر، پیٹ پر خارش کرتے کرتے بھی کر سکتے ہیں اور آپ نے کبھی سوچا ہم دوا پر تعویذ کو فوقیت کیوں دیتے ہیں کیونکہ دوا کھانا پڑتی ہے، اس کے ساتھ پرہیز بھی کرنا پڑتا ہے جب کہ تعویذ آپ ایک ہی بار بازو پر باندھیں اور مسئلہ ختم۔

ہم آسان کام کرنیوالے لوگ ہیں خواہ اس کے لیے ہماری زندگی کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو جائے، ہمیں پرواہ نہیں ہوتی۔ ہم زندہ رہنے کی بجائے مرنے کو فوقیت دیتے ہیں کیونکہ زندہ رہنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے اور محنت ہم کرنا ہی نہیں چاہتے، ہمارے لیے مشکل آسان اور آسان مشکل ہے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.