Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Nafrat Ke Beopari

Nafrat Ke Beopari

میں نے واپسی پر طارق فاطمی صاحب سے پوچھا "کیا ہم واقعی ایران اور سعودی عرب کو اکٹھا بٹھا لیں گے" طارق فاطمی سنجیدہ انسان اور گہرے سفارت کار ہیں، یہ زیادہ ہنستے مسکراتے نہیں ہیں لیکن اس دن یہ بھی ہنس پڑے اور آہستہ آواز میں بولے، مجھ سے یہ سوال کل میاں نواز شریف نے بھی پوچھا تھا، میں نے ان سے عرض کیا تھا "یہ مسئلہ 632ء سے کوئی حل نہیں کر سکا۔

ہم بھی نہیں کر سکیں گے تاہم کوشش میں کوئی حرج نہیں" میرے منہ سے بے اختیار قہقہہ نکل گیا، یہ 2016کے شروع کا واقعہ ہے، میاں نواز شریف نے بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان صلح کی کوششیں شروع کر دیں۔

یہ جنرل راحیل شریف کے ساتھ سعودی عرب اور ایران کے دورے پر گئے تھے، میں بھی اس وفد میں شامل تھا، ہم پہلے سعودی عرب گئے، شاہ سلیمان اور ولی عہد کے ساتھ ملاقات ہوئی اور ہم اس کے بعد ایران میں صدر حسن روحانی سے ملے، دورہ کام یاب رہا لیکن دیگر کام یاب دوروں کی طرح اس دورے کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا، میں نے راستے میں طارق فاطمی صاحب سے یہ سوال پوچھا تھا، یہ اس وقت فارن افیئرز کے معاون خصوصی تھے۔

فاطمی صاحب کی بات غلط نہیں تھی، سنی شیعہ اختلافات 632ء میں نبی اکرمؐ کے وصال کے فوراً بعد شروع ہو گئے تھے، خلافت کا مسئلہ بنا اور یہ مسئلہ پھر تاریخ بن گیا، اختلاف کا دوسرا فیز فتح ایران کے بعد شروع ہوا، حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں ایران فتح ہوا، ایران کے بادشاہ یزدگرد کی دو صاحب زادیاں مدینہ منورہ لائی گئیں، حضرت عمرؓ نے فرمایا، یہ شہزادیاں ہیں چناں چہ یہ شہزادوں کے عقد میں جائیں گی۔

بی بی شہربانو کا نکاح حضرت امام حسینؓ سے ہوگیا اور گیہان بانو حضرت محمد بن ابوبکرؓ کے عقد میں آگئیں، حضرت محمد بن ابوبکرؓ کی والدہ حضرت اسمائؓ تھیں، یہ حضرت علیؓ کے بڑے بھائی حضرت جعفر طیارؓ کی اہلیہ تھیں، جنگ موتہ میں حضرت جعفر طیارؓ کی شہادت کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے عقد میں آئیں، حضرت محمد بن ابوبکرؓ پیدا ہوئے۔

یہ ابھی شیرخوار تھے کہ حضرت ابوبکرؓ وصال فرما گئے، حضرت اسماء ؓنے اس کے بعد حضرت علیؓ سے نکاح کر لیا اور یوں محمد بن ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ کے گھر میں پرورش پائی اور فتح ایران کے بعد گیہان بی بی سے نکاح کے بعد ان کی حضرت امام حسینؓ سے ایک اور نسبت بھی ہوگئی، ان دو رشتے داریوں کی وجہ سے خلافت کا تنازع ایران اور عرب تک پھیل گیا، سانحہ کربلا کے بعد بی بی شہربانو ایران ہجرت کر گئیں۔

ان کا مزارتہران کے مضافات میں رے شہر میں ہے، دوسری طرف حضرت امام حسینؓ اور حضرت محمد بن ابوبکرؓ کی شاخیں امام جعفرصادقؒ میں اکٹھی ہوگئیں، اختلاف کا تیسرا فیز امام رضاؒ کے دور میں شروع ہوا، خلیفہ ہارون الرشید کی ایک بیگم عربی اور دوسری ایرانی تھی، خلیفہ ہارون الرشید کا انتقال بھی ایران میں ہوا تھا اور یہ مشہدمیں مدفون ہے۔

خلیفہ نے امام رضاؒ کو خلیفہ بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن ہارون الرشید کے بعد عربی اور ایرانی ماؤں کے شہزادوں کی لڑائی ہوئی، مامون الرشید نے امام رضاؒ کو شہید کر دیا اور یوں عرب ایران خلیج میں مزید اضافہ ہوگیا اور یہ خلیج آج تک پاٹی نہیں جا سکی، ایرانیوں کے بے شمار کلیمز میں سے ایک کلیم مکہ اور مدینہ کی عمل داری بھی ہے۔

یہ ان مقدس ترین شہروں کو اپنی وراثت سمجھتے ہیں جب کہ سعودی عرب کا دعویٰ یکسر مختلف ہے چناں چہ 14 سو سال سے لڑائی اور اختلاف چلا آ رہا ہے اور یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے دنیا ختم ہو سکتی ہے لیکن ایران اور سعودی عرب ایک میز پرنہیں بیٹھ سکتے اور یہ بات کسی حد تک درست بھی تھی کیوں کہ یہ جغرافیائی یا سفارتی مسئلہ نہیں ہے، یہ مذہبی، نسلی اور ثقافتی ایشو بھی ہے، شیعہ اسلام اور سنی اسلام میں بہت فاصلے ہیں۔

ان کااکٹھا چلنا آسان نہیں لیکن پھر10مارچ کو چین میں دونوں ملک نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ گئے بلکہ دونوں نے سفارت خانہ کھولنے اور سفارتی اختلافات ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا اور اب ایرانی صدر سعودی عرب کا دورہ شروع کر رہے ہیں، یہ میجر شفٹ ہے اور پوری دنیا اس پر حیران ہے۔

میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں یہ مسئلہ کسی مسلمان حکمران نے حل نہیں کرایا، یہ بیجنگ میں صدر شی جن پنگ نے حل کرایا اور صدر شی جن پنگ مذہب پر یقین نہیں رکھتے لہٰذا ہم اس تبدیلی کو تبدیلی کہہ سکتے ہیں۔

ہمیں ماننا ہوگا دنیا بدل چکی ہے، دنیا میں اب جنگیں حل نہیں رہیں، امن، مذاکرات، ایک دوسرے کو انڈر اسٹینڈ کرنا اور مل کرساتھ چلنے سے مسئلے حل ہو رہے ہیں، آپ یورپ کی مثال لے لیجیے، دنیا میں دو عالمی جنگیں ہوئیں اور یہ دونوں یورپ میں شروع ہوئی تھیں اوران میں دس کروڑ لوگ مارے گئے تھے لیکن آج یورپ میں سرحدیں ختم ہو چکی ہیں۔

کرنسی تک ایک ہے اور ایک ملک کے شہری دوسرے اور دوسرے کے تیسرے میں کام کر رہے ہیں اور کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں، بھارت اور چین کے درمیان بھی 60 سال سے لڑائی چل رہی ہے لیکن دونوں کے تجارتی تعلقات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، بھارت اور چین کے درمیان جون 2020میں لداخ میں خوف ناک جھڑپ ہوئی تھی۔

اس میں بھارت کے کرنل سمیت 20فوجی ہلاک ہو گئے تھے لیکن اس جھڑپ کے بعد دونوں ملکوں میں تجارتی تعاون دگنا ہوگیا، دونوں کے درمیان اس وقت ٹریڈ والیم 135بلین ڈالر ہے، یوکرین کے ایشو پر روس، یورپ اور امریکا کے درمیان خوف ناک اختلافات ہیں مگر تجارت اور سفارتی تعلقات جاری ہیں، یہ ایک دوسرے کے لیے سرحدیں بند کرکے نہیں بیٹھ گئے اور آپ دیکھ لیجیے گا یہ لوگ مل ملا کر اسی سال یوکرین کا مسئلہ بھی حل کر لیں گے۔

روس اور جاپان کے درمیان بھی سخالین جزائر کا مسئلہ سواسو سال سے چل رہا ہے لیکن یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے بھی ہیں اور تجارت بھی کرتے ہیں جب کہ ہم پوری دنیا اور ایک دوسرے سے ناراض بیٹھے ہیں۔

ہم نے کبھی ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا آخر اسرائیل اور بھارت کے ساتھ ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ اسرائیل کا تنازع اسلام اور یہودیت کا مسئلہ نہیں تھا، خلفاء راشدین سے لے کر خلافت عثمانی تک یہودی ہر دور میں مسلم ریاست کے شہری رہے اور مدینہ منورہ کے ابتدائی دنوں کے علاوہ ہماری کبھی ان سے جنگ نہیں ہوئی۔

یہودیوں کی اصل لڑائی عیسائیوں سے تھی لیکن یہ آج بھائی بھائی ہیں اور ہم لڑ رہے ہیں لیکن رکیے یہ لڑائی بھی اب پاکستانی اسرائیلی بن چکی ہے، فلسطین میں یہودیوں اور عربوں کا ایشو تھا لیکن عرب ان کے ساتھ بیٹھ چکے ہیں، یو اے ای، عمان، ترکی، مصر، اردن اور شام سے اسرائیل کے لیے باقاعدہ فلائیٹس چلتی ہیں، دبئی نے اسرائیلی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی اجازت تک دے دی ہے لیکن پاکستان میں اس ایشو پر بات تک جرم ہے۔

آپ بات کرکے دیکھ لیں آپ کو یہودی ایجنٹ قرار دے دیاجائے گا، ہم یہ تک سوچنے کے لیے تیار نہیں ہیں ہم نے جن لوگوں کی محبت میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا وہ ایک دوسرے کے ساتھ سرحدیں کھول کر بیٹھے ہیں جب کہ ہم آج بھی اس ایشو پر بات نہیں کر سکتے، کیوں؟ ہم نے بھارت کے ساتھ لڑ کربھی 75 سال ضایع کر دیے ہیں۔

ہمیں کیا ملا؟ ہم آج ایک بلین ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑ رہے ہیں جب کہ بھارت کے ایک بزنس مین گوتم اڈانی کو صرف ایک ہفتے میں 100 بلین ڈالر نقصان ہوا اور انڈیا میں ایسے 276 بزنس مین ہیں، ہمارا پٹرول، گیس، بجلی اورکپاس پوری نہیں ہو رہی جب کہ ایران، ازبکستان، تاجکستان اور قزاقستان گاہکوں کا راستہ دیکھ رہے ہیں، اسرائیل ہم سے پوچھتا ہے بھائی صاحب عرب ہمارے ساتھ بیٹھے ہیں۔

آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ بھارت بھی بار بار کہہ ر ہا ہے آپ ایشوز لاک کریں اور سرحدیں کھولیں، ایران اور روس ہمیں پٹرول اور گیس دینا چاہتے ہیں، چین گوادر میں انٹرنیشنل شہر آباد کرنا چاہتا ہے۔

یورپ ہمارے ہنر مندوں کے لیے ملک کھولنا چاہتا ہے اور امریکا پاکستان میں امن اور خوش حالی دیکھنا چاہتا ہے مگر ہم پوری دنیا اور اپنے ساتھ متھا لگا کربیٹھے ہیں اور ہم اگر اس متھے بازی میں بھی خوش حال اور مطمئن ہوجاتے تو بھی کوئی ایشو نہیں تھا، ہم سے تو آج اپنی روٹی پوری نہیں ہو رہی لہٰذا پھر ہمیں اس متھے بازی کا کیا فائدہ ہوا؟

میری پوری قوم سے درخواست ہے جناب مکالمہ شروع کریں، سوچنا سمجھنا بھی شروع کریں، ملک کو دنیا کے لیے کھولیں، بھارت سے ڈائیلاگ شروع کریں، اسرائیل سے بھی مذاکرات کریں، ایران، چین روس اور امریکا سے نئے سرے سے بات چیت کریں۔

افغانستان سے بھی کھلے دل کے ساتھ گفتگو شروع کریں، شیعہ سنی ڈائیلاگ بھی کریں، پاکستان کے ناراض گروپ وہ خواہ بلوچ علیحدگی پسند ہوں یا تحریک طالبان پاکستان ہوں آپ ان کے ساتھ بیٹھیں، یہ اگر کسی سلوشن کی طرف آتے ہیں تو سو بسم اللہ اور اگر نہیں مانتے تو ایک ہی بار مکمل آپریشن کریں۔

منظور پشتین گروپ کے ساتھ بھی ڈائیلاگ شروع کریں اور عمران خان کے ساتھ بھی بیٹھیں آخر اس کی بات سننے میں کیا حرج ہے؟ میاں نواز شریف اور عمران خان کے درمیان ڈائیلاگ کیوں نہیں ہو سکتا؟ اگر اٹھارویں ترمیم میں کوئی خرابی ہے تو اسے ٹھیک کیوں نہیں کیا جا سکتا اور آرمی چیف اور چیف جسٹس ایک دوسرے کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھ سکتے؟

ہم اس ملک کو ایڈہاک بنیادوں پر کیوں چلا رہے ہیں، ہماری دوڑ دو چار بلین ڈالر تک کیوں رہتی ہے، ہم اس ملک کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیوں نہیں کرتے؟ ہم کیوں نفرت کے بیوپاری بن کر رہ گئے ہیں۔

آج اگر سعودی عرب اور ایران اکٹھے بیٹھ گئے ہیں تو ہم کیوں نہیں بیٹھ سکتے؟ یہ یاد رکھیں دنیا میں گفتگو اور ڈائیلاگ کے سوا کوئی راستہ نہیں، یہ راستہ اختیارکریں، ہم کہیں نہ کہیں پہنچ جائیں گے ورنہ یوں ہی دم گھٹ کر مر جائیں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.