ونی، سوارہ اور سنگ چٹی یہ تینوں رسمیں ایک ہیں اور یہ تینوں پاکستانی معاشرے کا بدصورت چہرہ ہیں، یہ رسمیں پاکستان کے چاروں صوبوں میں پچھلے چار سو سال سے جاری ہیں مگر خیبرپختونخوا، پنجاب کے سرائیکی علاقے، بلوچستان اور اندرون سندھ کے علاقے ان سب سے زیادہ متاثر ہیں، ان علاقوں کی سیکڑوں بچیاں ہر سال ان رسموں کا شکار ہوتی ہیں، پنچایت ان رسموں میں خاندانی دشمنیاں ختم کرنے کے لیے نابالغ بچیوں کو زر ضمانت بنا دیتی ہے۔
آپ فرض کیجیے، دو خاندانوں کے درمیان دشمنی ہے، قتل ہو رہے ہیں، پولیس اور عدالتیں دشمنی ختم کرانے میں ناکام ہو گئیں، معاملہ پنچایت میں آیا، پنچایت فیصلہ کرتی ہے، یہ دشمنی اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک دونوں خاندانوں کے درمیان رشتہ داری نہیں ہوتی چنانچہ پنچایت کے حکم سے قاتل خاندان کی بچیوں کے مقتول خاندان کے مردوں سے نکاح کرا دیے جاتے ہیں۔
یہ نکاح" ایک قتل، ایک نکاح" کی بنیاد پر کرائے جاتے ہیں، یہ معاملہ اگر یہاں تک رہتا تو شاید قابل برداشت ہوتا لیکن پنچایت عموماً فیصلہ کرتے وقت ایک طرف سے چھوٹی نابالغ بچیوں اور دوسری طرف سے بوڑھے مردوں کا انتخاب کرتی ہے، چھ، سات سال کی بچی کا نکاح ساٹھ پینسٹھ سال کے مرد سے کرا دیا جاتا ہے، ہم اس نکاح کو جس زاویے سے بھی دیکھیں، یہ ہمیں ظلم، زیادتی اور ناانصافی لگے گا، یہ برا محسوس ہونا "پرسپشن" ہے اور دنیا کا جو بھی شخص اس رسم کو فاصلے سے دیکھے وہ اسی پرسپشن کا شکار ہو جائے گا جب کہ "ونی" کی حقیقت اس پرسپشن سے بالکل مختلف ہے اور ہم میں سے کسی نے آج تک یہ حقیقت جاننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
آپ اب حقیقت ملاحظہ کیجیے، آپ فرض کیجیے خاندان اے کا کوئی فرد طیش میں آ کر خاندان بی کے دو افراد کو قتل کر دیتا ہے، ملک میں قانون اور انصاف نام کی کوئی چیز موجود نہیں، پولیس تفتیش مکمل نہیں کرتی، ملزم ضمانتوں پر رہا ہو جاتے ہیں یا عدالت سے چھوٹ جاتے ہیں یا پھر اصل مجرم مقدمے سے نکل جاتا ہے اور فرضی ملزموں کو چند سال قید ہو جاتی ہے، خاندان بی کے لوگ کورٹ کچہریوں کے چکراور وکیلوں کی بھاری فیسیں ادا کر کے تھک جاتے ہیں۔
یہ اسلحہ خریدتے ہیں اور خاندان اے کے دو تین مردوں کو قتل کر دیتے ہیں، پولیس اور عدالت کا ایک اور چکر شروع ہوتا ہے لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلتا، اب باری خاندان اے کی ہے، یہ بھی خاندان بی کے دو تین مردوں کو قتل کر دیتے ہیں یوں طیش کا ایک واقعہ خاندانی دشمنی میں تبدیل ہو جاتا ہے، دونوں خاندانوں کی زمینیں، جائیدادیں بک جاتی ہیں اور یہ شرافت کی خلعت اتار کر بدمعاشی کی جیکٹ پہننے پر مجبور ہو جاتے ہیں یوں گاؤں دو دھڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور دو خاندانوں کی لڑائی آہستہ آہستہ پورے گاؤں کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
لوگ مرتے رہتے ہیں، دشمنی کے دائرے وسیع ہوتے جاتے ہیں، کاروبار ٹھپ ہو جاتے ہیں، کھیت ویران ہو جاتے ہیں، اسکول بند ہو جاتے ہیں، بچیوں کے رشتے اور شادیاں بند ہو جاتی ہیں، یہ صورتحال دیکھ کر علاقے کے بزرگ اکٹھے ہوتے ہیں، دونوں دھڑوں یا خاندانوں کو بٹھاتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان رشتے داری کرا دیتے ہیں، اب سوال یہ ہے گاؤں میں امن قائم کرنے کے لیے بے جوڑ رشتے کیوں کرائے جاتے ہیں؟
آٹھ سال کی بچی کا نکاح ستر سال کے بوڑھے سے کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ آپ اب اس پرسپشن کی حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے، یہ بے جوڑ رشتے جان بوجھ کر کرائے جاتے ہیں، بچی آٹھ یا دس سال کی ہوتی ہے جب کہ "دولہا" 65 یا ستر سال کا ہوتا ہے۔ نکاح ہو جاتا ہے، بچی بالغ ہونے تک والدین کے گھر رہتی ہے، یہ جب بالغ ہوتی ہے تو اس وقت تک اس کا خاوند انتقال کر چکا ہوتا ہے یا پھر بستر مرگ پر ہوتا ہے، یوں یہ بچی بالغ ہونے پر بے جوڑ رشتے سے آزاد ہو جاتی ہے، میں ونی، سوارہ اور سنگ چٹی جیسی رسموں کے خلاف ہوں، میں سمجھتا ہوں۔
دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں انصاف کے متبادل نظام کی گنجائش نہیں ہوتی، ہم اگر معاشرہ ہیں تو پھر ہماری پولیس اور عدالتوں کو ایسا فوری اور مکمل انصاف کرنا چاہیے جس کے بعد ونی جیسے قبائلی عدل کی ضرورت نہ رہے مگر اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے ہم اور بیرونی دنیا قبائلی رسومات کے بارے میں یک طرفہ "پرسپشن" کا شکار ہیں، ہم لوگ پروپیگنڈے کے غبار میں چھپی "ریالٹی" تلاش نہیں کرتے، ہم دوسرے معاشروں کو اپنی روایات اور اپنے نظام کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں اور اس سے تہذیبی تصادم پیدا ہوتے ہیں۔
ہم انسان اللہ تعالیٰ کی دلچسپ مخلوق ہیں، ہم ہمیشہ پرسپشن کو ریالٹی سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، یہ ہماری وہ خامی ہے جس کی وجہ سے ہم غیر جانبدار، حقیقی اور دلائل پر مشتمل رائے بنانے میں ناکام رہتے ہیں، یہ بین الاقوامی المیہ ہے، پاکستانی المیہ اس سے کہیں زیادہ خوفناک اور گہرا ہے، پاکستانی معاشرہ ریالٹی تو دور یہ پرسپشن بھی نسل، زبان، قبیلے، جماعت، فرقے، افواہ، جھوٹ اور شک کی بنیاد پر بناتا ہے۔
آپ آج بھی کسی محفل میں بیٹھ جائیں، آپ لوگوں کو صرف شک اور افواہ کی بنیاد پر قومی اور بین الاقوامی ایشوز پر رائے بناتے اور دیتے دیکھیں گے، ملک میں بارشیں نہ ہوں تو لوگ کہیں گے " یہ امریکا کی سازش ہے" آپ پوچھیں "کیسے" جواب آئے گا "امریکا نے ایسی ٹیکنالوجی ڈویلپ کر لی ہے جس کے ذریعے یہ پاکستان کے بادل کیلیفورنیا شفٹ کر لیتا ہے" ملک میں سیلاب آ جائے تو لوگ کہیں گے " بھارت نے پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے پانی چھوڑ دیا" آپ پوچھیں "بھائی انڈیا نے یہ پانی کہاں سے چھوڑ دیا" وہ جواب دے گا " بھارت سارا سال پانی جمع کرتا ہے۔
پاکستان جب مشکل میں آتا ہے تو یہ پانی چھوڑ کر ہماری مشکلات میں اضافہ کر دیتا ہے" لوگ آپ کو بتائیں گے " اسرائیل، امریکا، روس اور بھارت مل کر پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں " آپ پوچھیں "کیوں " وہ جواب دیں گے " پاکستان پوری امہ کا لیڈر ہے اور یہ ہمارے دشمنوں کو منظور نہیں " لوگ آپ کو بتائیں گے " آصف علی زرداری اور نواز شریف نے فیصلہ کیا تھا، آپ ہمیں پانچ سال پورے کرنے دیں، ہم آپ کو پانچ سال نہیں چھیڑیں گے" آپ اس رائے کی وجہ پوچھیں، جواب آئے گا " آصف علی زرداری عمران خان کے بجائے نواز شریف کا ساتھ دے رہے ہیں " لوگ کہیں گے "نریندر مودی نے نواز شریف کو بچانے کے لیے ایل او سی پر جنگ چھیڑ دی" آپ وجہ پوچھیں، جواب ملے گا " ایل او سی پر دھرنوں کے دوران ہی فائرنگ کیوں ہو رہی ہے؟ " لوگ کہیں گے "ملک کے دس بڑے صحافی بک چکے ہیں " آپ ثبوت مانگیں گے، وہ جواب دیں گے "ہم نے خود سوشل میڈیا پر پڑھا تھا" آپ پوچھیں گے "یہ اگر حقیقت ہے تو عمران خان اور علامہ طاہر القادری ثبوت لے کر عدالت کیوں نہیں جاتے۔
یہ حقائق دنیا کے سامنے کیوں نہیں رکھتے" جواب ملے گا " ہمارے لیڈر یہ کام انقلاب کے بعد کریں گے" اور آپ اگر لوگوں میں بیٹھیں تو آپ کو ہر دوسرے شخص کے پاس ملک کے تمام مسائل کا حل ملے گا، آپ کو ملک کا ہر شخص امام خمینی، نیلسن مینڈیلا، بارک حسین اوباما، مہاتیر محمد اور گورڈن براؤن ملے گا، یہ آپ کو علی الاعلان دعویٰ کرتا نظر آئے گا "آپ ملک میرے حوالے کر دیں، میں چھ ماہ میں عوام کا مقدر بدل دوں گا" آپ اس سے اس کی کوالیفکیشن پوچھیں تو وہ جواب دے گا " علم کا ڈگری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، حکیم لقمان کس میڈیکل کالج کا گریجویٹ تھا" آپ اس سے پوچھیں "آپ نے کبھی کوئی ادارہ چلایا، کوئی کاروبار کیا، کسی ایک شخص کی زندگی بدلی یا کوئی ریسرچ کی" وہ نفی میں سر ہلا دے گا لیکن اس کے باوجود اس کے پاس قوم کا مقدر بدلنے کا نسخہ موجود ہو گا۔
یہ لوگ صرف دعویٰ نہیں کریں گے بلکہ انھیں اپنے دعوے پر پورا ایمان، پورا یقین بھی ہو گا، یہ پرسپشن کی اس اعلیٰ ترین چوٹی پر بیٹھے ہوں گے جہاں سے انسان کو (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغامات آنا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ خود کو انسانیت کا نجات دہندہ سمجھنے لگتا ہے اور آپ کو اس ملک میں ایسے ہزاروں لاکھوں لوگ بھی ملیں گے جو دل سے سمجھتے ہیں ہمیں بھارت پر ایٹم بم پھینک دینا چاہیے اور ہم جب تک اسرائیل، امریکا اور یورپ کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹا دیتے، ہم مسلمان آرام سے زندگی نہیں گزار سکتے۔
آپ اگر پاکستانی پرسپشن کا دائرہ ذرا سا بڑھا لیں تو آپ کو ملک میں ایسے کروڑوں لوگ ملیں گے جو دوسرے فرقے کے تمام لوگوں کو قابل گردن زنی سمجھتے ہیں، جو ڈومیسائل کی بنیاد پر لوگوں کو برا، غدار اور غاصب سمجھتے ہیں، آپ اگر پنجاب میں پیدا ہوئے ہیں تو آپ ظالم ہیں اور آپ کو ملک میں زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں اور آپ اگر بلوچستان، اندرون سندھ یا خیبر پختونخوا میں پائے گئے تو آپ کو پنجابی ہونے کے جرم میں گولی مار دی جائے گی، آپ اگر بلوچی، سندھی یا پختون ہیں تو ملک کے کروڑوں لوگ آپ کو بھی زندہ رہنے کا حق نہیں دیں گے، آپ اگر سنی ہیں تو آپ شیعہ اکثریتی علاقے میں غیر محفوظ ہیں اور آپ اگر شیعہ ہیں تو آپ ملک کے لیے خواہ کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں، آپ کسی بھی وقت کسی نامعلوم گولی کا نشانہ بن جائیں گے، ملک میں آج بھی وڈیرے اور کمی موجود ہیں۔
کمی خاندان کا بچہ امام کعبہ بن کر بھی کمی ہی رہے گا اور مخدوم کا بچہ سو قتل کرنے کے بعد بھی اپنا ہاتھ لوگوں کی طرف بڑھا ئے گا اور لوگ مقدس کتاب کی طرح اس کے ہاتھ کو بوسا دیں گے، ملک میں آج بھی جو شخص لاؤڈ اسپیکر پر گالی دے دے، جو جذباتی تقریر کر لے، جو بڑے بڑے دعوے کرلے اور جو دوسرے لوگوں پر بلاتحقیق الزام لگا دے وہ قوم کا مسیحا، قوم کا لیڈر بن جاتا ہے اور سیاسی جماعتیں آج بھی ملک توڑنے جیسا جرم معاف کر دیتی ہیں لیکن اپنے لیڈر کے خلاف ایک بیان برداشت نہیں کرتیں، یہ کیا ہے؟ یہ پرسپشن کے مختلف شیڈز ہیں اور ان شیڈز کا ریالٹی کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں، ہم اب پرسپشن اور ریالٹی کی بنیاد پر دھرنوں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں، ہم دھرنوں کی حقیقت دیکھتے ہیں (جاری )۔