Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Phir Perception

    Phir Perception

    وزیراعظم صاحب آئیے ہم ایک چھوٹی سی ریسرچ کرتے ہیں، ہم پاکستان واپس آنے والے ہر شخص سے ایک سوال پوچھتے ہیں "آپ نے باہر کیا دیکھا"ہم اس ریسرچ میں کابینہ کے تمام وزراء، ملک کے تمام اعلیٰ بیوروکریٹس، ملک کے بریگیڈیئر لیول سے اوپر تمام حاضر سروس اور ریٹائر فوجی افسروں، ملک کے تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ اور سینئر صحافیوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں، ہم ان سے بھی درخواست کرتے ہیں آپ بھی اپنے ملنے والوں سے یہ سوال کریں۔

    ہم اس ریسرچ میں پاکستان کے ان تمام سفیروں کو بھی شامل کر لیتے ہیں جنہوں نے دوسرے ممالک میں خدمات سرانجام دیں، ہم اس میں پاکستان میں خدمات سرانجام دینے والے سفارتی عملے کو بھی شامل کر لیتے ہیں اور ہم اس میں ان پاکستانی سیاحوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں جو دوسرے ملکوں کے سفر کرتے رہتے ہیں، ہم سب کے جواب جمع کرتے ہیں، جوابوں کی سمریاں بناتے ہیں اور پھر ہم ان تمام سمریوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔

    مجھے یقین ہے ہمیں ان سمریوں میں چار چیزیں مشترکہ ملیں گی، وہ چار چیزیں کیا ہوں گی؟ ایک، ہمیں لوگ بتائیں گے ہم جن ممالک میں گئے وہاں خوف نہیں تھا، لوگ سڑکوں، بازاروں، شاپنگ سینٹروں، پارکس، میدانوں، گلیوں، جھیلوں، جنگلوں اور پہاڑوں میں بلاخوف پھرتے ہیں، ملک کے کسی حصے میں کسی شخص کو لٹنے، زخمی ہونے، قتل ہونے، اغواء ہونے یا آبروریزی کا خطرہ نہیں، خواتین خواہ رات کے پچھلے پہر شہر میں نکل جائیں، کوئی شخص ان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔

    دو، بیرون ملک سے آنے والا ہر شخص وہاں کی ٹریفک کی تعریف کرے گا، وہ آپ کو بتائے گا وہاں گاڑیاں آدھی رات کے وقت سنسان سڑکوں پر بھی ٹریفک سگنل پر رکتی ہیں، گاڑیاں لین میں رہتی ہیں، کوئی شخص ہارن نہیں دیتا، اسپیڈ لمٹ کراس کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا، آپ اگر ڈرائیونگ کے دوران غلطی کر بیٹھے تو آپ کی جان نہیں چھوٹے گی اور آپ اگر صدر ہیں یا صدر کے چپڑاسی ہیں سڑک پر آپ برابر ہیں، ٹریفک پولیس آپ سے کوئی رعایت نہیں برتے گی۔

    آپ وہاں شراب پی کر گاڑی نہیں چلا سکیں گے اور وہاں آپ کو کوئی گاڑی آواز دیتی یا دھواں نکالتی نظر نہیں آئے گی، وغیرہ وغیرہ، تین، لوگ آپ کو بتائیں گے ہم نے وہاں صفائی دیکھی، ماحول صاف ستھرا تھا، کسی جگہ کوڑے کرکٹ کا ڈھیر نہیں تھا، سڑکیں، گلیاں او رپارکس صاف تھے، پبلک ٹوائلٹس کے فرش خشک اور ماحول بے بو تھا اور کوئی شخص کسی جگہ کچرا پھینکتا نظر نہیں آیا اور چار بیرون ملک سے آنے والا ہر شخص انصاف کی تعریف کرے گا۔

    وہ آپ کو بتائے گا آپ نے اگر وہاں کوئی جرم کر دیا تو آپ کو ہر صورت سزا بھگتنا پڑے گی خواہ آپ صدر ہیں، بل گیٹس ہیں یا پھر آپ انجلینا جولی ہیں، وہاں عدالتیں سب کے ساتھ برابر سلوک کرتی ہیں، مجھے یقین ہے، ہماری ریسرچ میں یہ چار چیزیں کامن ہوں گی، یہ چار چیزیں کیوں کامن ہوں گی؟ اس کی صرف ایک وجہ ہے! یہ وہ چار چیزیں ہیں جو قوموں کے بارے میں دوسری قوموں کے دماغ میں پرسپشن بناتی ہیں، قومیں سب سے پہلے ان چار چیزوں پر توجہ دیتی ہیں، آپ کے پاس اگر یہ چار چیزیں نہیں ہیں تو آپ خواہ کتنے ہی امیر کیوں نہ ہوں۔

    آپ خواہ قدرتی وسائل سے کتنے ہی مالا مال کیوں نہ ہوں، آپ کے ملک میں خواہ روزگار، خوراک، صحت اور تعلیم کی کتنی ہی فراوانی کیوں نہ ہو، قومیں آپ کی عزت نہیں کریں گی اور آپ کے ملک میں خواہ کتنی ہی بیروزگاری، غربت، بے چینی، بیماری اور جہالت کیوں نہ ہو لیکن آپ کے پاس اگر یہ چار چیزیں موجود ہیں تو آپ ترقی یافتہ ہیں، قومیں آپ کے بارے میں اچھا پرسپشن رکھیں گی اور ہمارے ملک میں بدقسمتی سے یہ چاروں چیزیں نہیں ہیں، میں 65 ملکوں میں گیا ہوں، میں نے ان 65 ملکوں میں صرف ایک ملک کے ائیر پورٹ پر ٹینک دیکھا اور وہ ملک پاکستان ہے۔

    آپ جب اسلام آباد ائیرپورٹ پر راول لاؤنج سے نکلتے ہیں تو آپ کو سامنے ٹینک کھڑا نظر آتا ہے، یہ ٹینک جب تک یہاں رہے گا ہمارا ملکی پرسپشن ٹھیک نہیں ہو سکے گا، ہم نے اسلام آباد میں میزائل چوک بنا رکھے ہیں، آپ کو دنیا کے کسی ملک میں میزائل چوک نظر نہیں آئیں گے، آپ ائیرپورٹ پر اتریں اور ایوان صدر چلے جائیں آپ کو راستے میں ہر جگہ رائفلیں، توپیں اور گارڈز نظر آئیں گے، آپ اسلام آباد شہر کی کسی گلی، سڑک، بازار، پارک یا شاپنگ سینٹر میں چلے جائیں، آپ کو ہر جگہ گارڈز، کلاشنکوفیں اور مورچے نظر آئیں گے، آپ کو ہر گھر کے سامنے سیکیورٹی گارڈز نظر آئیں گے، یہ سیکیورٹی، یہ گارڈز اور یہ مورچے جب تک ملک میں موجود ہیں ہمارا پرسپشن ٹھیک نہیں ہو سکتا چنانچہ ہم نے ان چاروں چیزوں کو ترجیح دینی ہے جو قوموں کا پرسپشن بناتی ہیں، آپ اسلام آباد سے اسٹارٹ کریں۔

    اسلام آباد ایک چھوٹا، جدید اور پڑھا لکھا شہر ہے، آپ اس شہر کو جلد تبدیل کر لیں گے، آپ سب سے پہلے اسلام آباد کی پولیس تبدیل کر دیں، اسلام آباد میں نئی بھرتیاں کریں، 22سال تک کے نوجوان بھرتی کریں، تیس ہزار روپے سے تنخواہ اسٹارٹ کریں، نئے جوانوں کو فوجی اکیڈمی سے ٹریننگ دلوائیں، یہ نوجوان سروس کے دوران مہینے میں چار دن دوبارہ اکیڈمی بھجوائے جائیں، اکیڈمی میں دوڑ لگوا کر ان کی فٹنس چیک کی جائے، تیس فیصد خواتین بھی بھرتی کی جائیں، یونیفارم فوراً تبدیل کر دی جائے، موجودہ یونیفارم مشکل بھی ہے اور مہنگی بھی۔

    آپ یورپ کی طرح صرف پولیس جیکٹ بنوائیں، پولیس اہلکار جینز اور شرٹ پر صرف یہ جیکٹ پہن لیا کریں، آپ نئی پولیس سروس کے بعد شہر میں 15 کو ایکٹو کر دیں، پولیس کال کے صرف تین منٹ بعد موقع واردات پر پہنچ جائے، آپ یقین کریں، شہر میں کسی شخص کو سیکیورٹی گارڈ رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی، شہر کو کیمروں کا شہر بنا دیں، شہر میں کوئی شخص کیمروں کی آنکھ سے اوجھل نہ رہے، سرکاری عمارتوں کی سیکیورٹی کسی شخص کو نظر نہیں آنی چاہیے، رائفلیں، بندوقیں اور توپیں چھپا دی جائیں، آپ پینٹا گان جائیں، پینٹا گان میں اینٹی ائیر کرافٹ میزائل لگے ہیں لیکن آپ کو یہ میزائل نظر نہیں آتے، یہ چھت پر چھپائے گئے ہیں، آپ بھی تمام توپیں، ٹینک اور مشین گنیں چھپانے کا حکم جاری کر دیں، گراؤنڈ پولیس کی ریٹائرمنٹ کی عمر 35سال کر دی جائے۔

    پولیس کا جوان 35 سال کی عمر میں ریٹائر ہو جائے یا پھر اسے تھانوں کے اندر تفتیشی ڈیوٹی دے دی جائے یا پھر یہ لوگ پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیوں میں پرائیویٹ نوکری کر لیں، شہر میں کسی جگہ ان فٹ پولیس اہلکار نظر نہیں آنا چاہیے، شہر میں جرائم کے بارے میں "زیرو ٹالرینس" پالیسی اپنائی جائے، بیگ چھیننے سے لے کر قتل تک مجرم گرفتار ہوں اور چھ ماہ میں سزا پائیں اور اس معاملے میں کسی شخص سے رعایت نہ کی جائے، جرم کو ریاست کے خلاف جرم تصور کیا جائے، کسی فرد کے خلاف نہیں، آپ یقین کریں لوگ بے خوف ہو جائیں گے۔

    آپ اسلام آباد کے لیے نئی ٹریفک پولیس اور نئے ٹریفک رولز بنائیں، اسلام آباد میں گاڑیوں کی انشورنس اور مینٹیننس سرٹیفکیٹ لازمی قرار دے دیا جائے، اسلام آباد میں تمام گاڑیاں انشورڈ ہوں، ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانے کیے جائیں، اوور اسپیڈنگ اور سگنل توڑنے کا جرمانہ پانچ ہزار روپے سے اسٹارٹ ہو، ہارن بجانے پر پابندی لگا دیں، پیدل سڑک کراس کرنے والے کو ایک ماہ کے لیے جیل بھجوا دیں اور جیل کے اخراجات بھی اس سے وصول کیے جائیں، ٹریفک کے بہاؤ میں رخنہ ڈالنے والوں، سڑک بلاک کرنے اور سڑکوں پر دھرنا دینے والوں کے لیے لمبی سزائیں اور بھاری جرمانے طے کیے جائیں، روٹس پر پابندی لگا دی جائے اور ملک کے کسی وی آئی پی کے لیے ٹریفک نہ روکی جائے، ہمارے ملک کا ٹریفک کے بارے میں پرسپشن بھی بدل جائے گا۔

    آپ شہروں کی صفائی پر خصوصی توجہ دیں، آپ اسلام آباد سے اسٹارٹ لیں، سی ڈی اے کی میونسپل ڈویژن کو ایک ماہ دیں، یہ شہر کی صفائی کی ذمے داری اٹھائے، شہر میں کسی جگہ کوڑا کرکٹ دکھائی نہیں دینا چاہیے، آپ ویسٹ مینجمنٹ کے لیے کسی ملکی یا غیر ملکی کمپنی کی مدد بھی لے سکتے ہیں لیکن اسلام آباد صاف ستھرا دکھائی دینا چاہیے اور رہ گیا عدل و انصاف، ہم شاید پورے ملک کے مقدمے ختم نہ کر سکیں مگر ہم کم از کم اسلام آباد میں تو انصاف قطعی بنا سکتے ہیں، آپ اسلام آباد کے عدالتی عملے کے ساتھ میٹنگ کریں، ان کے جائز مطالبات سنیں، ان کو سہولتیں دیں۔

    اسلام آباد کے لیے انصاف کا نیا پیکیج بنائیں اور ایک سال میں وفاقی دارالحکومت کے تمام مقدمات نبٹا دیں، اس کے بعد قانون بنا دیں اسلام آباد میں کوئی مقدمہ چھ ماہ سے زیادہ نہیں چلے گا، فوجداری مقدمات کو نقطہ انجام تک پہنچانے کی ذمے داری پولیس پر ہو گی اور سول مقدمات وکلاء اور جج مل کر چھ ماہ میں نبٹائیں گے، وکلاء تاریخیں نہیں لیں گے اور جج انھیں تاریخیں نہیں دیں گے، آپ اسلام آباد سے اسٹارٹ لیں، کامیابی کے بعد صوبائی دارالحکومتوں کا رخ کریں اور اس کے بعد اپنی ان اصلاحات کو آہستہ آہستہ پورے ملک میں پھیلا دیں، ہمارے ملک کا پرسپشن تبدیل ہونے لگے گا۔

    یہ وہ کام ہیں جن کے لیے آپ کو زیادہ سرمائے کی ضرورت نہیں، آپ نے صرف توجہ دینی ہے، آپ نے صرف اہل ٹیم کا بندوبست کرنا ہے، روز فیڈ بیک لینا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اپنے اہداف کی طرف بڑھنا ہے، پاکستانیوں کو نئے پاکستان کی اشد ضرورت ہے، آپ فیصلہ کر لیں یہ ضرورت آپ پوری کریں گے یا پھر آپ کے بعد آنے والے حکمران کیونکہ یہ بہر حال ہو کر رہنا ہے کیونکہ یہ ملک اب رہے گا یا نہیں رہے گا یہ بہر حال اب "ایسا نہیں رہے گا"۔

    About Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.