2018میں میاں نواز شریف پر مقدمے چل رہے تھے، شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے، عمران خان کو وزیراعظم بنانے کی تیاریاں عروج پر تھیں اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی پروفائلنگ کے لیے ملک بھر کے بزنس مینوں، صحافیوں اور سیاست دانوں سے ملاقات کر رہی تھی، میں بھی ایک ایسی ملاقات میں شریک تھا جس میں ملک کی ایک اہم شخصیت نے انکشاف کیا۔
میاں نواز شریف نے 1994میں پانچ ملین ڈالر ملک سے باہر بھجوائے تھے، یہ رقم ڈائیوو کمپنی نے موٹروے کے ٹھیکے میں بطور رشوت دی تھی، میاں صاحب نے اس رقم میں سے ساڑھے تین ملین ڈالر عزت بیگوچ کو بھجوا کر بوسنیا کی سول وار میں کنٹری بیوٹ کیا تھا جب کہ باقی رقم سے لندن میں فلیٹس خریدے گئے تھے۔
مجھے بتایا گیاعزت بیگوچ کو یہ رقم شاہد خاقان عباسی دے کر آئے تھے، لندن کے فلیٹس بھی انھوں نے خرید کر دیے تھے اور ڈائیوو کمپنی کے مالک کم وو چونگ سے رقم بھی عباسی صاحب نے لے کر دی تھی کیوں کہ مالک کا بیٹا امریکا میں عباسی صاحب کا کلاس فیلو تھا، یہ بات میرے لیے حیران کن تھی، کیوں؟ کیوں کہ یہ اعلیٰ ترین منصب سے بتائی گئی تھی اور اس میں دو وزیراعظم ملوث تھے۔
میاں نواز شریف مقدمات کا سامنا کر رہے تھے جب کہ شاہد خاقان عباسی اس وقت وزیراعظم تھے، یہ انفارمیشن میرے ذہن میں گانٹھ بن کر رہ گئی، عمران خان نے بھی ایک آدھ میٹنگ میں اس کا ذکر کیا، بہرحال چند دن قبل میں نے اس کا ذکر شاہد خاقان عباسی سے کیا تو انھوں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا"انفارمیشن ٹھیک ہے لیکن بات غلط ہے" میں نے حیرت سے پوچھا "کیا مطلب؟" یہ بولے "ہم نے عزت بیگوچ کو واقعی رقم دی تھی۔
میاں صاحب کو فلیٹس کا مشورہ بھی میں نے دیا تھا اور ڈائیوو کمپنی کے مالک کا بیٹا نہیں بیٹی میری کلاس فیلو تھی مگر یہ الزام سو فیصد غلط ہے" میں نے ان سے تفصیلات جاننے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا، یہ بات کافی یا لنچ پر ہو سکتی ہے، میری ان کے ساتھ کافی پر ملاقات طے ہوگئی اور ہم نے تین گھنٹے بلیو ایریا کی ایک کافی شاپ میں گفتگو کی۔
میرا پہلا سوال عزت بیگوچ کے ساڑھے تین ملین ڈالرز سے متعلق تھا، یہ ہنس کر بولے "آپ کو بتانے والوں نے غلط بتایا تھا، یہ رقم ساڑھے تین ملین ڈالر نہیں ساڑھے آٹھ ملین ڈالر تھی اور یہ میں نے نواز شریف کے ساتھ بوسنیا جا کر عزت بیگوچ کو دی تھی" یہ رکے اور پھر بولے "بوسنیا میں 1992میں جنگ شروع ہوئی، سربیا کے صدر سولبودن ملاسوچ نے بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا، ہم لوگ اس وقت اپوزیشن میں تھے۔
بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی، مجھے ایک دن سرتاج عزیز نے بلایا اور کہا بڑے میاں صاحب (میاں محمد شریف) اور ان کے دوستوں نے بوسنیا کے مسلمانوں کے لیے رقم جمع کی ہے، یہ چاہتے ہیں آپ یہ رقم عزت بیگوچ کو پہنچا دیں۔
میں نے حامی بھر لی، میاں شریف سے ملاقات ہوئی اور مجھے انھوں نے ساڑھے آٹھ ملین ڈالر کا کیشیئر چیک دے دیا" میں نے پوچھا "یہ چیک کس بینک کا تھا؟" یہ بولے "یہ ابوظہبی کے کسی بینک کا تھا اور کیشیئر چیک تھا، اس سے کوئی بھی بینک سے کیش لے سکتا تھا، میں نے لفتھانسہ ایئر لائین کی سیٹ بک کرا لی، میں رخصت ہونے لگا تو میاں شریف کا پیغام آیا نواز شریف بھی آپ کے ساتھ جائیں گے اور یہ آپ کو فرینکفرٹ میں ملیں گے۔
بہرحال قصہ مختصر میں فرینکفرٹ پہنچا اور ایئرپورٹ پر میاں نواز شریف نے بھی ہمیں جوائن کر لیا" میں نے پوچھا "آپ کتنے لوگ تھے؟" یہ بولے "ہم چار تھے، میاں صاحب، میں، خیام قیصر اور نادر چوہدری، ہم فرینکفرٹ سے زیگرب پہنچے، ایئرپورٹ ویران اور جنگ زدہ تھا، ہم بڑی مشکل سے شہر آئے اور ہوٹل میں چار کمرے لیے، ہمارے علاوہ پورا ہوٹل خالی تھا۔
ریستوران اور کافی شاپس بند تھیں، ہم حلال کھانا تلاش کرتے ہوئے اسلامک سینٹر پہنچے، ہمیں وہاں 80 ڈالر میں ایک مرغی ملی، ہم چاروں نے بڑی مشکل سے پیٹ بھرا، ہم کھانا کھا رہے تھے تو ہمیں مسجد کے نیچے اچانک میوزک کی آواز آنے لگی، امام صاحب سے ان آوازوں کے بارے میں پوچھا تو وہ مسکرا کر بولے، ہم نے مسجد کے نیچے ڈسکو بنا رکھا ہے، امام صاحب نے وضاحت کی، ہمارے مسلمان لڑکے اور لڑکیاں عیسائیوں کے کلبز میں جاتے تھے۔
ہم نے انھیں دشمنوں سے بچانے کے لیے مسجد کے نیچے نائیٹ کلب بنا دیا، یہ اب یہیں خرمستیاں کر لیتے ہیں، ہم یہ سن کر ہنس پڑے، ہم نے وہ رات بڑی مشکل سے گزاری، اگلے دن جیسے تیسے ایئرپورٹ پہنچے، سراجیوو کے لیے وہاں کوئی فلائٹ نہیں تھی، ہم بڑی دیر تک وہاں بیٹھے رہے، اس دوران وہاں ایک کارگو جہاز آیا، وہ رن وے پر اترا اور اس میں سے درجنوں لوگ اتر کر لاؤنج کی طرف دوڑ پڑے، ہمیں سیکیورٹی گارڈز نے اشارہ کیا آپ لوگ دوڑ کر اس جہاز میں گھس جاؤ اور ہم بھاگ کر جہاز میں سوار ہو گئے۔
یہ سی ون تھرٹی ٹائپ جہاز تھا، سیٹس کی جگہ بینچ لگے ہوئے تھے، ہم بہرحال جہاز میں پھنس پھنسا کر بیٹھ گئے، عملے نے ہم سے دو سو ڈالر فی کس لے لیا، جہاز اڑا اور یہ تین گھنٹے میں بڑی مشکل سے میزائلوں سے بچتا بچاتا سراجیوو ایئرپورٹ پر اتر گیا، ہمیں بتایا گیا آپ کے پاس صرف ایک منٹ ہوگا، آپ نے اس ایک منٹ میں جہاز سے اتر کر دوڑ کر لاؤنج تک پہنچنا ہے، جہاز رن وے پر رکا، دروازے کھلے اور ہم نے دوڑ لگا دی، ہم بڑی مشکل سے گولیوں اور میزائلوں سے بچتے ہوئے، لاؤنج تک پہنچ گئے۔
وہاں کچھ بھی نہیں تھا، ایئرپورٹ نیٹو فورس کے قبضے میں تھا، درجہ حرارت منفی 26 ڈگری سینٹی گریڈ تھا، دور دور تک برف پڑی ہوئی تھی، ہیٹنگ اور بجلی دونوں نہیں تھی، ایئرپورٹ سے شہر جانے کا کوئی بندوبست بھی نہیں تھا، راستے میں سرب فوجیوں کے مورچے تھے اور وہ راہ گیروں اور گاڑیوں کو گولوں سے اڑا دیتے تھے۔
ہم لاؤنج میں پریشان اور اکیلے بیٹھے تھے، اس دوران وہاں ایک بکتر بند گاڑی آئی اور اس میں سے ایک خوب صورت خاتون اتری، وہ انٹرنیشنل صحافی تھی، نادر چوہدری نے اسے بتایا ہمارے ساتھ پاکستان کے سابق وزیراعظم ہیں۔
ہم شہر جانا چاہتے ہیں، خاتون نے ہمیں پیش کش کی آپ مجھے وزیراعظم کا انٹرویو کرا دیں اور میں آپ کو شہر پہنچا دیتی ہوں، ہم نے اس کے ساتھ ڈیل کر لی، گاڑی میں بیئر کے درجنوں باکس پڑے تھے، خاتون نے مجھ سے کہا، میں جہاں گاڑی روکوں تم فوراً بیئر کاباکس اٹھا کر گاڑی سے باہر لٹکا دینا، میرے پاس انکار کا کوئی آپشن نہیں تھا۔
خاتون ایئرپورٹ سے نکلی، راستے میں سرب فوجیوں کا قبضہ تھا، خاتون ہر چیک پوسٹ پر رکتی تھی، مجھے اشارہ کرتی تھی اور میں شیشہ نیچے کرکے باہر کھڑے سرب فوجی کو بیئر کا باکس پکڑا دیتا یوں ہم بیئر تقسیم کرتے ہوئے شہر کی مین سڑک پر آگئے۔
خاتون سربوں کے گولوں اور گولیوں سے بچنے کے لیے زگ زیگ میں گاڑی چلا رہی تھی، سڑک پر اس وقت ہماری گاڑی کے علاوہ کوئی گاڑی، کوئی شخص نہیں تھااور ہمارے اوپر گولیاں برس رہی تھیں، ہم بہرحال ہر قسم کے حادثے سے بچتے بچاتے عزت بیگوچ کے ہیڈ کوارٹر پہنچ گئے، خاتون نے ہمیں اس کے گیٹ پر پھینکا اور خود زگ زیگ میں گاڑی چلاتی ہوئی غائب ہوگئی، ہمیں دیکھ کر بوسنیا کی فوج نے رائفلیں تان لیں۔ "
شاہد خاقان عباسی کا انداز ڈرامائی اور مقناطیسی تھا، میرے لیے ان کا اسٹوری ٹیلنگ کا یہ آرٹ نیا تھا لہٰذا میں حیرت سے انھیں دیکھتا اور سنتا چلا گیا، وہ رکے اور لمبی سانس لے کر بولے، ہم نے بڑی مشکل سے انھیں سمجھایا ہمارے ساتھ پاکستان کے سابق وزیراعظم ہیں اور ہم عزت بیگوچ کو امدادی چیک دینے آئے ہیں۔
وہ آخر میں ہمیں ہانکتے ہوئے ہیڈکوارٹر کے اندر لے گئے، ہیڈ کوارٹر میں ہیٹنگ کا کوئی بندوبست نہیں تھا، عزت بیگوچ کے کمرے میں بھی صرف ایک بلب جل رہا تھا اور وہ منفی 26 ڈگری سینٹی گریڈ میں تین چار اوور کوٹ پہن کر بیٹھا ہوا تھا، دفتر میں ٹوٹی کرسیوں کے علاوہ کوئی فرنیچر نہیں تھا، ہم باتھ روم گئے تو وہ انتہائی گندہ اور بدبودار تھا، مدت سے اس کی صفائی نہیں ہوئی تھی، ہر طرف بو پھیلی ہوئی تھی، عزت بیگوچ نے ہمیں کافی دی، ہمارے کپوں میں ایک ایک گھونٹ کافی تھی، اس نے ہمیں بتایا ہمارے پاس اس سے زیادہ کافی بھی نہیں ہے۔
وہ جمعے کا دن تھا، اس نے ہمیں نماز جمعہ کی پیش کش کی، ہم نے قبول کر لی، اس نے ہمیں پانی کا آدھا آدھا گلاس دے دیا، اس کا کہنا تھا آپ کو اسی سے وضو کرنا ہوگا کیوں کہ ہمارے پاس پانی بھی نہیں ہے، ہم بہرحال اس کے ساتھ ملٹری کانوائے میں سراجیوو کی جامع مسجد پہنچ گئے، عزت بیگوچ نے ہمیں راستے میں بتایا ہم بے دین اور اسلام سے دور تھے۔
سربوں نے ہم پر حملہ کرکے ہمیں مسلمان بنا دیا، ہم نے بڑی مشکل سے نماز پڑھنا سیکھی، ہم اس سے پہلے صرف نام کے مسلمان تھے، ہم مسجد پہنچے تو ہمیں پوری مسجد میں ایک بھی پورا انسان نہیں ملا، جنگ سب لوگوں کے اعضاء نگل گئی تھی، کسی کا پاؤں نہیں تھا اور کوئی ہاتھ، ٹانگ اور آنکھ سے محروم تھا، پوری مسجد ادھورے لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔
نمازیوں کو ہمارے بارے میں پتا چلا تو لوگ عقیدت سے ہمارے ہاتھ چومنے لگے، ہم نے اندازہ لگایا نمازی عزت بیگوچ سے پرہیز کر رہے ہیں، لوگ اسے پسند نہیں کرتے تھے، وہ اسے اپنی مصیبتوں کی وجہ سمجھتے تھے، ہم نے بہرحال جیسے تیسے انتہائی سردی میں نماز مکمل کی اور عزت بیگوچ کے ساتھ واپس چل پڑے۔
(جاری ہے)