Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Reality And Perception

Reality And Perception

امریکا، یورپ اور کینیڈا میں ہر سال لاکھوں ٹن گندم سمندر میں پھینک دی جاتی ہے، یہ گندم جس وقت سمندر میں پھینکی جاتی ہے عین اس وقت تیسری دنیا کے 14 ممالک قحط میں مبتلا ہوتے ہیں، ہم اگر امریکا، یورپ اور کینیڈا کی اس حرکت کو اپنے زاویئے سے دیکھیں تو ہمیں یہ لوگ ظالم، سنگدل، بے حس اور ننگ انسانیت نظر آئیں گے اور ہم انھیں ہزاروں، لاکھوں بلکہ کروڑوں گالیاں دیں گے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، دنیا کا ہر ملک اپنی ضرورت سے بیس فیصد زیادہ گندم اگاتا ہے، حکومت کل پیداوار کا بیس سے چالیس فیصد حصہ مارکیٹ سے خرید لیتی ہے، یہ گندم سرکاری گوداموں میں اسٹور کرلی جاتی ہے۔

حکومت اس گندم سے تین کام لیتی ہے، اول یہ گندم ملک میں ہر قسم کی قدرتی آفت زلزلے، سیلاب اور خشک سالی کے دوران عوام میں تقسیم کر دی جاتی ہے، دوم، حکومت اس گندم سے مارکیٹ میں راشن کی قیمت کنٹرول کرتی ہے، بیوپاری عموماً گندم کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں، یہ گندم روک کر ملک میں مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں اور پھر منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں، حکومت مارکیٹ میں مصنوعی قلت دیکھتے ہی سرکاری گوداموں کی گندم ریلیز کر دیتی ہے اور یوں گندم کے نرخ نیچے آ جاتے ہیں اور سوم حکومتیں یہ اضافی گندم سفارت کاری کے لیے استعمال کرتی ہیں، حکومتیں دوست ملکوں کو خشک سالی اور قدرتی آفتوں کے دوران گندم گفٹ کرتی ہیں، ہم اب یہ سوال کرتے ہیں، امریکا، یورپ اور کینیڈا ہر سال گندم ضایع کیوں کرتے ہیں۔

اس کی دوجوہات ہیں، پہلی وجہ، گندم ان اجناس میں شامل ہے جو کسان کو زیادہ منافع نہیں دیتی، آپ گندم کی جگہ آلو، ٹماٹر، گنا، مکئی اور دالیں اگائیں، آپ زیادہ منافع کمائیں گے، کسان ہمیشہ گندم سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ پاکستان کی مثال لیجیے، پاکستان کو ہر سال 30 ملین ٹن گندم درکار ہوتی ہے، ہم ضرورت سے دس فیصد زیادہ گندم اگاتے ہیں، آپ فرض کیجیے سرکاری گوداموں میں 2013ء کی پیداوار کابیس فیصد حصہ پڑا ہے، یہ حصہ 2014ء تک محفوظ رہا، حکومت نے 2014ء میں یہ حصہ ریلیز کر دیا، یہ بیس فیصد حصہ گندم کے نرخ پر اثر انداز ہوا، مارکیٹ میں مندی ہو گئی، کسان کو گھاٹا پڑگیا، کسان نے گھاٹے کے بعد گندم کی جگہ چنا، مکئی، آلو اور گنا کاشت کر لیا، نتیجتاً 2015ء میں گندم کی پیداوار 20 لاکھ ٹن پر آگئی، گندم کی قلت پیدا ہو گئی۔

ریٹس دگنے ہو گئے، آٹا مہنگا ہو گیا، حکومت کے پاس ایسی صورتحال میں دو آپشن بچتے ہیں، یہ باہر سے گندم امپورٹ کرے، یہ گندم لوکل گندم سے مہنگی ہو گی، حکومت کو دو تین سو ارب روپے کی سبسڈی دینا پڑ جائے گی، جو ظاہر ہے خزانے پر بوجھ ہو گا، دوسرا طریقہ حکومت گندم کے نرخ کو زبردستی کنٹرول کرے، حکومت جب بیوپاریوں اور کسانوں پر کریک ڈاؤن کرتی ہے تو کسان مزید ناراض ہو جاتے ہیں اور ملک میں حقیقتاً قحط پڑ جاتا ہے چنانچہ حکومت کے پاس صرف یہ آپشن بچتا ہے، یہ اضافی گندم ضایع کردے اور حکومتیں ایسا کرتی ہیں، گندم ضایع کرنے کی دوسری وجہ، امریکا، یورپ اور کینیڈا کا خیال ہے گندم سے آبی حیات کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔"سی فوڈ" کی کوالٹی بہتر ہو جاتی ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے امریکا، یورپ اور کینیڈا یہ اضافی گندم قحط زدہ ممالک کو کیوں نہیں دے دیتے؟ آپ کو یہ جان کر یقینا حیرت ہو گی، یہ ممالک ہر سال گندم ضایع کرنے سے قبل "ورلڈ فوڈ پروگرام" کو پیش کش کرتے ہیں " آپ جتنی گندم چاہیں اٹھا لیں " ورلڈ فوڈ پروگرام قحط زدہ ممالک کو خط لکھتا ہے مگر ان ممالک کی حکومتیں ذاتی مفادات کی وجہ سے مفت گندم نہیں اٹھاتیں یا پھر یہ بحری جہازوں کا کرایہ ادا نہیں کر پاتیں چنانچہ یہ گندم ضایع کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، آپ خود سوچئے کیا کوئی ملک ہر سال اپنے خرچ پر لاکھوں ٹن گندم سات سمندر پار پہنچا سکتا ہے؟ یہ یقینا ممکن نہیں ہوگا، ہم خود ہر سال ہزاروں ٹن گندم ضایع کرتے ہیں اور ہم مستقبل میں بھی کریں گے کیونکہ یہ ملک کو قحط سے بچانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

یہ گندم ضایع کرنے کے اصل حقائق ہیں لیکن ہم لوگ کیونکہ حقائق کی جگہ جذبات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں لہٰذا ہمارے ملک میں جو شخص گندم ضایع کرنے کے جرم میں امریکا، کینیڈا اور یورپ کو گالی دے گا وہ دیکھتے ہی دیکھتے قوم کا ہیرو بن جائے گا اور جو حقائق بیان کرنے کی غلطی کرے گا وہ قوم کی اجتماعی گالیاں کھائے گا، ہم لوگ حقائق سے اتنے دور ہو چکے ہیں کہ ہمارے ملک میں لکھنے اور بولنے والے، بولنے اورلکھنے سے قبل پڑھنے اور سننے والوں کے چہرے دیکھتے ہیں اور اس کے بعد نہایت احتیاط سے گفتگو شروع کرتے ہیں، میں ایسے بے شمار دانشوروں کو جانتا ہوں جنھیں ہال میں اگر ایک بھی باریش شخص نظر آ جائے تو وہ اپنی گفتگو میں آیات اور احادیث شامل کر دیتے ہیں اور وہاں اگر نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہو تو وہ عمران خان اور سنی لیون کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں۔

میں خود کالم لکھنے سے قبل دیکھتا ہوں یہ کالم جس دن شائع ہو گا کیا اس دن کوئی مذہبی تہوار یا کسی مقدس ہستی کا یوم وفات تو نہیں؟ ، صحافیوں کے پاس ایسی شخصیات کی پوری فہرست موجود ہے جن کا ذکر محرم کے مہینے میں نہیں کیا جا سکتا، میں ایک بار سکردو گیا، میں گفتگو شروع کرنے لگا تو ڈپٹی کمشنر نے میرے کان میں سرگوشی کی، آپ کے سامنے اہل تشیع بیٹھے ہیں، آپ طالبان کا ذکر نہ کیجیے گا، یہ ہے اس ملک میں آزادی رائے اور یہ ہے حقائق بیانی کی اصل صورتحال۔

انگریزی کے دولفظ ہیں، ریالٹی اور پرسیپشن، دنیا کے اچھے معاشرے پرسیپشن بناتے ہوئے حقائق کو کبھی قربان نہیں ہونے دیتے جب کہ ہم لوگ ہمیشہ حقائق کی قبروں پر پرسیپشن کا مینار تعمیر کرتے ہیں مثلاً پاکستان میں پرسپیشن ہے "امریکا ہمارا دشمن ہے" آپ ملک کے کسی شہری کو روک کر امریکا کے بارے میں پوچھ لیجیے، لوگ آپ کو یہی جواب دیں گے جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

ہماری تاریخ میں امریکا واحد ملک ہے جس نے ہمیں سب سے زیادہ امداد دی، آج بھی ملک میں سیکڑوں منصوبے امریکی امداد سے چل رہے ہیں، امریکا ہمارے ہر مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے لیکن ہم یہ بات سننا ہی نہیں چاہتے اور جو شخص یہ کر بیٹھے وہ غدار بھی کہلائے گا اور امریکی ایجنٹ بھی۔ ہمارا پرسیپشن ہے چین ہمارا دوست ہے۔ ہم 68 سال سے پرسیپشن کی یہ گٹھڑی اٹھا کر پھر رہے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، آج تک چین نے ہماری اتنی مدد نہیں کی جتنی مدد ہم نے چین کی فرمائی، پی آئی اے کی پہلی انٹرنیشنل فلائیٹ ہو یا رچرڈ نکسن کی ماؤزے تنگ اور چواین لائی سے ملاقات ہویا چین کا ایٹمی پروگرام ہو۔ پاکستان نے پوری دنیا کو ناراض کر کے چین کی مدد کی، ہمارے موجودہ سیاسی بحران کی ایک وجہ بھی چین ہے، امریکا اور اس کے اتحادی پاکستان میں چینی سرمایہ کاری سے خوش نہیں ہیں، ہم اپنے دائمی دوستوں کو ناراض کر کے چین سے دوستی نبھا رہے ہیں چنانچہ ملک سیاسی میدان جنگ بن گیا۔

چین اس حقیقت سے آگاہ ہے لیکن چینی صدر نے اس کے باوجود چھوٹے سے دھرنے کی وجہ سے پاکستان کا دورہ ملتوی کر دیا، یہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت چلا گیا، پاکستان کے صنعتی زوال اور بے روزگاری کی بڑی وجہ بھی چین ہے، چین نے دوستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان سے اپنی مصنوعات کے لیے ٹیکس میں چھوٹ لے لی، چین کی سستی مصنوعات پاکستان آئیں اور ان کے ساتھ ہی ہماری صنعت بھی ختم ہو گئی اور ہمارے ہنر مند بھی بے روزگار ہو گئے۔

یہ اصل حقائق ہیں لیکن پرسیپشن ان حقائق کو نگل چکا ہے اور آج جو شخص ان حقائق کی بات کرتا ہے تو لوگ اسے امریکی جاسوس قرار دے دیتے ہیں، حقائق یہ ہیں عمران خان اور علامہ طاہر القادری کا دھرنا کامیاب نہیں ہوا، یہ لوگ استعفیٰ لینے اسلام آباد آئے تھے لیکن استعفے دے کر جا رہے ہیں، جبر کا نظام جڑوں سمیت موجود ہے، دھاندلی کی پیداوار پارلیمنٹ بھی رواں دواں ہے، میاں نواز شریف بھی اسی طرح شام سات بجے رہائشی علاقے میں چلے جاتے ہیں اور صبح نو بجے تروز تازہ ہو کر دفتر آ جاتے ہیں۔

دھرنا دینے والوں نے عملاً "گو نواز گو" کے نعروں اور جلسوں کی ایک مہم کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا، یہ بھی حقیقت ہے عمران خان نے اگر پارلیمنٹ سے استعفے دے دیے تو یہ شاید اگلی بار اتنی نشستیں بھی حاصل نہ کر سکیں، دھرنے والوں نے اپنی ضد کی وجہ سے جوڈیشل کمیشن اور انتخابی اصلاحات کا سنہری موقع بھی ضایع کردیا، یہ سوئی ہوئی حکومت کو بھی جگا چکے ہیں اور آج اگر حکومت پرفارم کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے تو یہ بازی عمران خان کی سیاست کا آخری پتہ ثابت ہو گی لیکن پرسیپشن یہ ہے عمران خان کامیاب ہو چکے ہیں، عمران خان کے ٹائیگر کسی بھی وقت نوازشریف کے کاغذی شیروں کو اٹھا کر دریائے راوی میں پھینک دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ملک میں اب جو بھی شخص پرسیپشن کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھنے کی غلطی کرتا ہے، ٹائیگر اس کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور گالیاں اس بے چارے کا مقدر بن جاتی ہیں۔

مجھے گالیاں دینے والے ٹائیگر پاکستان کے مظلوم ترین لوگ لگتے ہیں جو پرسیپشن کی دلدل پر گھر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے ان لوگوں پر غصہ نہیں آتا، ترس آتا ہے کیونکہ معاشرے میں جب دلیل ختم ہو جائے، حقائق مرجھا جائیں اور تحقیق دم توڑ جائے تو گالی جنم لے لیتی ہے اور گالیاں جب قوم کا مزاج بن جائیں تو حقائق مزید دھندلا جاتے ہیں اور لوگ آیت پڑھنے سے پہلے دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور پھر فیصلہ کرتے ہیں ہم نے اللہ کے کلام کا کون سا حصہ پڑھنا ہے اور کون سا نہیں اور ہمارے معاشرے کو یہ حد کراس کیے بھی دہائیاں گزر چکی ہیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.